"”ہم کسی مسلمان کو کسی گناہ کی بناپر ،خواہ وہ کیسا ہی بڑا گناہ ہو ، کافر نہیں قرار دیتے جب تک کہ وہ اس کے حلال ہونے کا قائل نہ ہو ۔ ہم اس سے ایمان کا نام سلب نہیں کرتے بلکہ اسے حقیقتا مومن قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مومن شخص فاسق ہو اور کافر نہ ہو۔ "”[27] الوصیہ میں امام اس مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں : "” امت محمدیہ ﷺ کے گناہ گار سب مومن ہیں ، کافر نہیں ہیں۔””[28] عقیدہ طحاویہ میں اس کی مزید تشریح یہ ہے : "” بندہ خارج از یمان نہیں ہوتا مگر صرف اس چیز کے انکار سے جس کے اقرار نے اسے داخل ایمان کیا تھا۔ "”[29] اس عقیدے اور اس کے اجتماعی نتائج (social consequences) پر پوری روشنی اس مناظرے سے پڑتی ہے جو ایک مرتبہ خوارج اور مام ابوحنیفہ ؒ کے درمیان اسی مسئلے پر ہوا تھا ۔ خارجیوں کی ایک بڑی جماعت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مسجد کے دروازے پر دوجنازے ہیں ۔ ایک شرابی کاہے جو شراب پیتے پیتے مرگیا۔ دوسرا ایک عورت کا ہےجو زنا سے حاملہ ہوئی اورشرم کے مارے خودکشی کرکے مرگئی ۔امام نے پوچھا : یہ دونوں کس ملت سے تھے ؟ کیا یہودی تھے ؟ انھوں نے کہا :نہیں ۔ پوچھا :عیسائی تھے ؟ کہا :نہیں ۔پوچھا :مجوسی تھے ؟وہ بولے :نہیں ۔ امام نے کہا :پھر آکر وہ کس ملت سے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا :اس ملت سےجو کلمہ اسلامی کی شہادت دیتی ہے ۔ امام نے کہا : بتاؤ یہ ایمان کا 1/3 ہے یا ¼ یا 1/5 ؟ وہ بولے : ایمان کا تہائی چوتھائی نہیں ہوتا ۔ امام نے کہا : اس کلمے کی شہادت کو آخر تم ایمان کا کتنا حصہ مانتے ہو؟ وہ بولے : پورا یمان ۔ اس پر امام نے فورا کہا : جب تم خود انھیں مومن کہہ رہے ہو تو مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟وہ کہنے لگے :ہم یہ پوچھتے ہیں کہ وہ دوزخی ہیں یا جنتی ۔ امام نے جواب دیا : اچھا ، اگر تم پوچھنا ہی چاہتے ہو تو میں ان کے بارے میں وہی کہتا ہوں جو اللہ کے نبی ابراہیم ؑ نے ان سے برترگناہ گاروں کے متعلق کہا تھا کہ : "” خدایا ! جو میرے پیروی کرے وہ میرا ہے او رجو میری نافرمانی کرے تو آپ غفور رحیم ہیں ۔”” ( ابراہیم : آیت 36) اور جو اللہ کے ایک اور نبی عیسی ؑ نے ان سے بھی زیادہ بڑے گناہ گاروں نے متعلق کہا تھا کہ "” اگر آپ انھیں عذاب دیں تو آپ کے بندے ہیں ، معاف فرمادیں توآپ زبردست اور دانا ہیں ۔”” ( المائدہ :18) اور جو اللہ کے ایک تیسرے نبی نوح ؑ نے کہا تھا کہ "” ان لوگوں کا حساب لینا تو میرے رب کا کام ہے ، کاش تم سمجھو ،اور میں مومنوں کا دھتکارنے والا نہیں ہوں "” ( الشعراء :113۔114)۔ اس جواب کو سن کر ان خارجیوں کو اپنے خیال کی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا۔[30]