یہاں سے حق کا سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ اوّلین بنیادی حق کا سوال ہے جو تمام چھوٹے سے چھوٹے جزوی معاملات تک حق اور باطل کے فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کا جو نظریہ الکتاب اور الرسول نے پیش کیا ہے اس کو بطور ایک امر واقعہ کے تسلیم کرلینے کے بعد یہ بات صریح طور پر حق قرار پا جاتی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے (لفظ مٹا ہوا ہے) حصہ میں بھی اسی خدا کی حاکمیت Sovereigntyتسلیم کرے جو اس کی زندگی کے پورے خیر اختیاری حصہ کا اور اس تمام کائنات کا جس میں یہ زندگی بسر ہو رہی ہے، آپ سے آپ حاکم… ہے۔ یہ چیز کئی وجوہ سے حق ہے۔ یہ اس لیے بھی حق ہے کہ انسان جن قوتوں اور جن جسمانی آلات سے اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے وہ خدا کا عطیہ ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے کہ خود یہ اختیارات انسان کے اپنے حاصل کردہ نہیں ہیں بلکہ تفویض کردہ Delegatedہیں۔ اس لئے بھی حق ہے کہ جن چیزوں پر یہ اختیارات استعمال کیے جاتے ہیں وہ سب خدا کی ملک ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے کہ جس ملک میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ خدا کا ملک ہے۔ اور اس لیے بھی حق ہے کہ عالم کائنات اور حیات انسانی کی ہمواری Harmony کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری زندگی کے اختیاری اور غیر اختیاری دونوں حصوں کا حاکم اور سرچشمہ احکام ایک ہی ہو۔ ان دو حصوں کے دو الگ اور ایک دوسرے سے مختلف قبلے بن جانے سے ایسا تقاضد پیدا ہو جاتا ہے جو موجب فساد ہو کر رہتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی میں تو اس چیز کا فساد محدود پیمانے پر ہی ظاہر ہوتا ہے مگر بڑی بڑی قوموں کی زندگی میں اس کے بُرے نتائج اتنے بڑے پیمانے پر نکلتے ہیں کہ خشکی اور تر اور ہوا فساد سے بھر جاتی ہے۔