اب دوسرا سوال لیجئے ۔ پوچھا گیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ تو ہے ہی معاشی بہبود کے لیے۔ لیکن اس بات کو خوب سمجھ لیجئے کہ معاشی بہبود کا اگر تصور یہ ہو کہ بحیثیت مجموعی پورے ملک کی معاشی ترقی کے لیے زکوٰۃ کو استعمال کیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے ۔ زکوٰۃ جیسا کہ میں پہلے آپ سے عرض کر چکا ہوں، دراصل اس غرض کے لیے ہے کہ معاشرے میں کوئی شخص اپنی لازمی ضروریاتِ زندگی… غذا، لباس، مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم… سے محروم نہ رہنے پائے اور ہم اپنے معاشرے کے ان تمام لوگوں کی معاشی ضروریات فراہم کریں جو یا تو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے کے قابل ہی نہ ہوں، مثلاً یتیم بچے، بوڑھے اور معذور لوگ، یا عارضی طور پر بے روزگار ہو گئے ہوں، یا ذرائع کی کمی کے باعث اپنی روزی کمانے کی کوشش نہ کرسکتے ہوں اور کچھ مدد پا کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں، یا کسی نقصان کے چکر میں آگئے ہوں۔ زکوٰۃ اس طرح کے لوگوں کی دست گیری کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ عام معاشی ترقی کے لیے آپ کو دوسرے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔