اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائعِ پیداوار (Means of production) اور اشیائے صرف (consumer goods) کے درمیان،یا محنت سے کمائی ہوئی آمدنی (earned income) اور محنت کے بغیر کمائی ہوئی آمدنی (un earned income) کے درمیان فرق نہیں کرتا ۔ وہ انسان کو ملکیت کا عام حق دیتا ہے، البتہ اس کو کچھ حدود سے محدود کر دیتا ہے ۔ اسلام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کے درمیان فرق کر کے ذرائع پیداوار کو شخصی ملکیت سے ساقط کر دیا جائے اور محض اشیائے صرف کی حد تک اس کو محدود کر دیا جائے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ایک شخص جس طرح کپڑے اور برتن اور گھر کا فرنیچر رکھنے کا مجاز ہے اسی طرح وہ زمین اور مشین اور کارخانہ رکھنے کا بھی مجاز ہے۔ اسی طرح ایک شخص جس طرح اپنی براہِ راست محنت سے کمائی ہوئی دولت کا جائز مالک ہوسکتا ہے اسی طرح وہ اپنے باپ یا ماں یا بیوی یا شوہر کی چھوڑی ہوئی دولت کا بھی مالک ہوسکتا ہے، اور وہ مضاربت یا شرکت کے اصول پر ایک ایسی کمائی میں حصہ دار بھی بن سکتا ہے جو اس کے دیے ہوئے سرمائے پر کام کر کے ایک دوسرے شخص نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو۔ اسلام ایک طرح کی ملکیت اور دوسری طرح کی ملکیت کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتا کہ یہ ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے یا اشیائے صرف کی ملکیت، یا یہ محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے یا بے محنت حاصل کی ہوئی دولت۔ بلکہ وہ اس لحاظ سے فرق کرتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے آئی ہے یا ناجائز ذرائع سے، اور اس کا استعمال آپ صحیح طریقے سے کرتے ہیں یا غلط طریقے سے۔ اسلام میں پوری معاشی زندگی کا نقشہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ انسان کچھ حدود کے اندر اپنی معاش کمانے کے لیے آزاد رہے۔ ابھی ابھی میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اسلام کی نگاہ میں انسان کی آزادی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور اس آزادی پر ہی وہ آدمیت کے نشوونما کی ساری عمارت تعمیر کرتا ہے۔ معاش کے ذرائع و وسائل میں شخصی ملکیت کا حق دینا انسان کو اسی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر شخصی ملکیت کا حق اس سے چھین لیا جائے اور تمام وسائلِ معاش پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے تو انفرادی آزادی لازماً ختم ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس کے بعد تو معاشرے کے تمام افراد اس ادارے کے ملازم بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پوری مملکت کے وسائلِ معاش کا کنٹرول ہو۔