انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتّب کیا اُس کا مرکز و محور، اس کی رُوح اور اس کا جوہر یہی عقیدہ ہے اور اسی پر اِسلام کے نظریۂ سیاسی کی بنیاد بھی قائم ہے۔ اِسلامی سیاست کا سنگِ بنیاد یہ قاعدہ ہے کہ حکم دینے اور قانون بنانے کے اختیارات تمام انسانوں سے فردًا فردًا اور مجتمعًاسلب کر لیے جائیں، کسی شخص کا یہ حق تسلیم نہ کیا جائے کہ وُہ حکم دے اور دُوسرے اُس کی اِطاعت کریں… وُہ قانون بنائے اور دوسرے اس کی پابندی کریں۔ یہ اختیار صرف اللّٰہ کو ہے۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ یوسف 12:40
حکم سوائے اللّٰہ کے کسی اور کا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ یہی صحیح دین ہے۔
یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْ ئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ط آل عمران 3:154
وُہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہو کہ اختیارات تو سارے اللّٰہ کے ہاتھ میں ہیں۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰالٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ۔ النحل 16:116
اپنی زبانوں سے یُوں ہی غلط سلط نہ کَہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ۔ المائدہ 5:44
جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کافر ہیں۔
اس نظریّہ کے مطابق حاکمیت (Sovereignty) صرف خدا کی ہے۔ قانون ساز (Law Giver) صرف خدا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ باب چہارم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمٹیڈ لاہور)ہے۔ کوئی انسان، خواہ وُہ نبی ہی کیوں نہ ہو، بذاتِ خود حکم دینے اور منع کنے کا حق دار نہیں۔ نبی خود بھی اللّٰہ کے حکم ہی کا پیرو ہے۔ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ (الانعام 6:50) ’’مَیں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔‘‘ عام انسان نبی کی اطاعت پر صرف اس لیے مامور ہیں کہ وُہ اپنا حکم نہیں بلکہ خدا کا حکم بیان کرتا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط النسا4:64
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللّٰہ کے اذن (Sanction) کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ۔ الانعام6:90
یہ نبی وُہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے اپنی کتاب دی۔ حکم (Authority) سے سرفراز کیا اور نبوت عطا کی۔
مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَۃُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ۔ آل عمران3:79
کسی بشر کا یہ کام نہیں ہے کہ اللّٰہ تو اسے کتاب اور حکم اور نبوت سے سرفراز کرے اور وُہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم خدا کے بجائے میرے بندے بن جائو بلکہ وُہ تو یہی کہے گا کہ تم ربّانی بنو۔
پس اِسلامی سٹیٹ کی ابتدائی خصوصیات جو قرآن کی مذکورہ بالا تصریحات سے نکلتی ہیں، یہ ہیں:
۱۔ کوئی شخص، خاندان، طبقہ یا گروہ بلکہ اسٹیٹ کی ساری آبادی مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ہے۔ حاکم اصلی صرف خدا ہے اور باقی سب محض رعیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔ قانون سازی کے اختیارات بھی خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہیں سارے مسلمان مل کر بھی نہ اپنے لیے کوئی قانون بنا سکتے ہیں اور نہ خدا کے بنائے ہوئے کسی قانون میں ترمیم کر سکتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ باب پنجم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمٹیڈ لاہور۔
۳۔ اِسلامی اسٹیٹ بہرحال اس قانون پر قائم ہو گا جو خدا کی طرف سے اس کے نبی نے دیا ہے اور اس اسٹیٹ کو چلانے والی گورنمنٹ صرف اس حال میں اور اس حیثیت سے اطاعت کی مستحق ہو گی کہ وُہ خدا کے قانون کو نافذ کرنے والی ہو۔