پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز وُہ اموالِ تجارت پر، زمین کی پیداوار پر، مواشی پر اور بعض دُوسرے اَموال پر بھی ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔ آپ دُنیا کے کسی ملک کو لے لیجیے اور حساب لگا کر دیکھ لیجیے کہ اگر شرعی طریقے کے مطابق وہاں باقاعدہ زکوٰۃ وُصول کی جائے اور اُسے قرآن کے مقرر کیے ہوئے مصارف میں باقاعدہ تقسیم کیا جائے تو کیا چند سال کے اندر وہاں ایک شخص بھی حاجاتِ زندگی سے محروم رہ سکتا ہے؟
اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہو گئی ہو، اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کر دیتا ہے تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔