Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور عدلِ اجتماعی
باطل حق کے بھیس میں
فریبِ اوّل: سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت
فریبِ دُوُم… اجتماعی عدل اور اشتراکیت
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا
عدالتِ اجتماعیہ کی حقیقت
اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے
عدل ہی اسلام کا مقصود ہے
عدلِ اجتماعی
اِنسانی شخصیت کی نشوونما
انفرادی جواب دہی
اِنفرادی آزادی
اجتماعی ادارے اوراُن کا اقتدار
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اشتراکیت ظُلمِ اجتماعی کی بدترین شکل ہے
عدلِ اسلامی
آزادیٔ فرد کے حدود
اِنتقالِ دولت کی شرائط
تصرُّفِ دولت پر پابندیاں
معاشرتی خدمت
استیصالِ ظلم
مصالح عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
بیت المال میں تصرُّف کی شرائط
ایک سوال

اسلام اور عدلِ اجتماعی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اجتماعی ادارے اوراُن کا اقتدار

یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دُوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت اور ان کی اولاد سے ہوتی ہے جس سے خاندان بنتا ہے۔ ان خاندانوں سے قبیلے اور برادریاں بنتی ہیں، ان سے ایک قوم وجود میں آتی ہے اور قوم اپنے اجتماعی ارادوں کی تنفیذ کے لیے ایک ریاست کا نظام بناتی ہے۔ ان مختلف شکلوں میں یہ اجتماعی ادارے اصلًا جس غرض کے لیے مطلوب ہیں وُہ یہ ہے کہ ان کی حفاظت اور ان کی مدد سے فرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے وُہ مواقع نصیب ہو سکیں جو وُہ تنہا اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتا لیکن اس بنیادی مقصد کا حصول اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے ہر ایک ادارے کو افراد پر، اور بڑے ادارے کو چھوٹے اداروں پر اقتدار حاصل ہوتا کہ وُہ افراد کی ایسی آزادی کو روک سکیں جو دوسروں پر دست درازی کی حد تک پہنچتی ہو اور افراد سے وُہ خدمت لے سکیں جو بحیثیت مجموعی تمام افرادِ معاشرہ کی فلاح وترقی کے لیے مطلوب ہو۔ یہی وُہ مقام ہے جہاں پہنچ کر عدالتِ اجتماعیہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور انفرادیت واجتماعیت کے متضاد تقاضے ایک گتھی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک طرف انسانی فلاح اس بات کی مقتضی ہے کہ فرد کو معاشرے میں آزادی حاصل ہو تاکہ وُہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کر سکے اور اسی طرح خاندان، قبیلے، برادریاں اور مختلف گروہ بھی اپنے سے بڑے دائرے کے اندر اُس آزادی سے متمتّع ہوں جو ان کے اپنے دائرۂ عمل میں انھیں حاصل ہونا ضروری ہے۔ مگر دوسری طرف انسانی فلاح ہی اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ افراد پر خاندان کا، خاندانوں پر قبیلوں اور برادریوں کا، اور تمام افراد اور چھوٹے اداروں پر ریاست کا اقتدار ہو، تاکہ کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسروں پر ظلم وتعدّی نہ کر سکے۔ پھر یہی مسئلہ آگے چل کر پوری انسانیت کے لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ہر قوم اور ریاست کی آزادی وخود مختاری کا برقرار رہنا بھی ضروری ہے، اور دوسری طرف کسی بالاتر ضابطہ قوت کا ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ قومیں اور ریاستیں حد سے تجاوز نہ کر سکیں۔
اب عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت جس چیز کا نام ہے وُہ یہ ہے کہ افراد، خاندانوں، قبیلوں، برادریوں اور قوموں میں سے ہر ایک کو مناسب آزادی بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کو روکنے کے لیے مختلف اجتماعی اداروں کوافراد پر اور ایک دُوسرے پر اقتدار بھی حاصل رہے، اور مختلف افراد و مجتمعات سے وُہ خدمت بھی لی جا سکے جو اجتماعی فلاح کے لیے درکار ہے۔

شیئر کریں