دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینا ضروری ہے وُہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وُہ حقیقت سے کم تر بات کہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل ہی اسلام کا مقصود ہے اور اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ عدل قائم کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌo الحدید 57:25
ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت طاقت اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں تاکہ اللّٰہ یہ معلوم کرے کہ کون بے دیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللّٰہ قوی اور زبردست ہے۔
یہ دو باتیں ہیں جن سے اگر ایک مسلمان غافل نہ ہو تو وُہ کبھی عدالتِ اجتماعیہ کی تلاش میں اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑ کر کسی دوسرے ماخذ کی طرف توجہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ جس لمحے اُسے عدل کی ضرورت کا احساس ہو گا اُسی لمحے اسے معلوم ہو جائے گا کہ عدل اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کے سوا کسی کے پاس نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور وُہ یہ بھی جان لے گا کہ عدل قائم کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ کرنا نہیں ہے کہ اسلام، پورا کا پورا اسلام، بلا کم وکاست اسلام، قائم کر دیا جائے۔ عدل، اسلام سے الگ کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ اسلام خود عدل ہے۔ اس کا قائم ہونا اور عدل کا قائم ہو جانا ایک ہی چیز ہے۔