ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی انسان کی آزادی عدل کے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمرؓ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ : لایوسر رجل فی الاسلام الا بحق۔{ نیز آیت وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ [آل عمران3:159] اوراپنے کاموں میں ان (لوگوں) سے مشورہ لیا کرو۔
} اس کی رو سے عدل کا وہ تصوّر قائم ہوتا ہے جسے موجودہ اصطلاح میں باضابطہ عدالتی کارروائی (Judicial Process) کہتے ہیں۔ یعنی کسی کی آزادی سلب کرنے کے لیے اس پر متعین الزام لگانا، کھلی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانا اور اسے دفاع کا پورا پورا موقع دینا۔ اس کے بغیر کسی کارروائی پر عدل کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ بالکل معمولی عقل (Common Sense) کا تقاضا ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع دئیے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک شخص کو پکڑا جائے اور اسے صفائی کا موقع دئیے بغیر بند کر دیا جائے۔ اسلامی حکومت اور عدلیہ کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کرنا قرآن نے واجب ٹھہرایا ہے