ایک اور اُصول جسے قرآن کریم نے بڑے زورشور کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان یکساں ہیں۔ اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اخلاق کے اعتبار سے ہے۔ اس معاملے میں قرآن کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ [الحجرات49:13]
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔
اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ یہ مختلف نسلیں، مختلف رنگ، مختلف زبانیں درحقیقت انسانی دنیا کے لیے کوئی معقول وجہ تقسیم نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ بتائی کہ ہم نے قوموں کی یہ تقسیم صرف تعارف کے لیے کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک برادری، ایک قوم اور ایک قبیلہ کو دوسرے پر کوئی فخر وفضیلت نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق تو بڑھا چڑھا کر رکھے اور دوسروں کے کم۔اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی یہ تفریقیں کی ہیں، شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہیں یا زبانیں ایک دوسرے سے الگ رکھی ہیں، تو یہ سب چیزیں فخر کے لیے نہیں ہیں بلکہ صرف اس لیے ہیں کہ باہم تمیز پیدا کر سکیں۔ اگر تمام انسان یکساں ہوتے تو تمیز نہ کی جا سکتی۔ اس لحاظ سے یہ تقسیم فطری ہے، لیکن دوسروں کے حقوق مارنے اور بے جا امتیاز برتنے کے لیے نہیں ہے۔ عزت وافتخار کی بنیاد اخلاقی حالت پر ہے۔ اس بات کو نبیa نے ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فتح مکہ کے بعد جو تقریر ارشاد فرمائی، اس میں فرمایا:
لا فضل لعربی علی اعجمی ولا لاعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر الا بالتقویٰ ولا فضل للانساب
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر… ماسوا تقویٰ کے اور نسبی بنیادوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
یعنی فضیلت، دیانت اور تقویٰ پر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص چاندی سے پیدا کیا گیا ہو اور کوئی پتھر سے اور کوئی مٹی سے، بلکہ سب انسان یکساں ہیں۔{ نظام فرعونی کو قرآن نے جن وجوہ سے باطل قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ [القصص28:4]
بے شک فرعون ملک میں بڑا مغرور ہو گیا تھا اوروہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ… الخ
یعنی اسلام اس کا روادار نہیں کہ کسی معاشرہ میں انسانوں کو فوقانی اور تحتانی یا حکمران اور محکوم طبقوں میں بانٹا جائے۔ }