قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اولین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئی کہ انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ [المائدہ 5:32]
جس نے کسی متنفس کو بغیر اس کے کہ اس نے قتلِ نفس کا ارتکاب کیا ہو، یا زمین میں فساد انگیزی کی ہو، قتل کر دیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ رکھا، تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
اس آیت میں قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانی دنیا کا قتل بتایا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیّت کی جان بچانے کے مترادف ٹھہرایا ہے۔ ’’احیا‘‘ کے معنی ہیں زندہ کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی شخص نے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے کوشش کی، اس نے انسان کو زندہ کرنے کا کام کیا۔ یہ کوشش اتنی بڑی نیکی ہے کہ اسے ساری انسانیّت کے زندہ کرنے کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔ اس اصول سے صرف دو حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
ایک یہ کہ کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو‘ اور اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے۔
دوسری یہ کہ کوئی شخص زمین میں فساد برپا کرے تو اسے قتل کیا جائے۔
ان دو حالتوں کے ماسِوا انسانی جان کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔{ مزید ملاحظہ ہو آیت:وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۰ۭ [بنی اسرائیل17:33]
قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔
}
انسانی جان کے تحفظ کا یہ اصول اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں واضح کر دیا تھا۔ انسان کے بارے میں یہ خیال کرنا غلط ہے کہ وہ تاریکی میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ہم جنسوں کو قتل کرتے کرتے کسی مرحلہ پر اس نے یہ سوچا کہ انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے انسان کی راہ نمائی کی ہے اور اسی راہ نمائی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس نے انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کیا۔