برادران گرامی! اسلام کسی قوم یا ملک کا دین نہیں ہے کہ یہ اس خاص قوم یا ملک تک محدود ہے۔ یہ اللہ کا دین ہے‘ اس لیے یہ اس کی ہوا اور اس کے پانی کی طرح اس کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔ جس طرح اس کی ربو بیت‘ اس کی رحمت اوردوسرے وسائل زندگی بلا تفریق رنگ و نسل سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں‘ اسی طرح سے اس کی طرف سے آئی ہوئی راہ ہدایت اور اس کا دین بھی بلا تفریق رنگ و نسل تمام بنی نوع انسان کے لیے یکساں ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے پوری نوع انسانی کو ایک ساتھ خطاب فرمایا ہے اور سب کے سامنے ایک ہی جیسے دلائل رکھے ہیں کہ اپنے خالق اور رب کی بے آمیزبندگی (اسلام) کے سوا تمہارے لیے کوئی اور راہ عمل جائز اور درست نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کا سب سے پہلا خطاب ملاحظہ ہو:
یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ الذی جعل لکم الارض فراشاً و السمآء بناء و انزل من السمآء ماء فاخرج بہ منالثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا اللہ انداداً و انتم تعلمون۔ و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدآء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ (البقرہ: ۲۱۔۲۳)
’’لوگو‘ بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق اور پروردگار ہے۔ تمہارے یہی روش اختیار کرنے سے اس دنیا میں تمہاری غلط روی سے اور آخرت میں اس کے عذاب سے بچنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا‘ آسمان کی چھت بنائی‘ اوپر سے پانی برسایا اور ا س کے ذریعے سے طرح طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق کا سامان کیا۔ ان سب باتوں کو جانتے بوجھتے تو دوسروں کو اللہ کے مدمقابل نہ ٹھیرائو۔ اور اگر تمہیں اس چیز (قرآن) کے خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے‘ تو اس کی مانند تم کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے‘ تو اس کی مانند تم کوئی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو‘ اور اس کام کے لیے تم ایک اللہ کو چھوڑ کر اپنے سارے حمائیتیوں کو اپنی مدد کے لیے بلالو‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھی کسی ایک قوم‘ ملک یا قطعہ زمین کے بسنے والوں کی رہنمائی کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے رحمت (رحمۃ اللعالمین) اور پوری نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس حقیقت سے سب لوگوں کو آگاہ کر دے۔
قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً۔ الذی لہ‘ ملک السموات والارض لا الٰہ الا ھو یحی و یمیت فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ و کلمتہ و اتبعوہ لعلکم تھتدون۔ (الاعراف: ۱۵۸)
’’اے محمدؐ ‘ نوع انسانی سے کہہ دو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کے ہاں سے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے‘ وہی موت دیتا ہے‘ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو خود بھی اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ اس طرح امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے‘‘
اور پھر اپنی کتاب کو بھی اس نے سب انسانوں کے لیے یکساں نصیحت اور ہدایت بنا کر بھیجا اور فرمایا:
ان ھو الا ذکر للعالمین لمن شاء منکم ان یستقیم۔ (التکویر: ۲۸)
’’(یہ قرآن) ساری دنیا کے لیے ایک نصیحت (حقیقت حال کی یاد دہانی ہے) اب تم میں سے جو چاہے سیدھی راہ اختیار کرلے (اور جو نہ چاہے نہ کرے)‘‘
تبرک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (الفرقان:۱)
’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ‘ جس نے حق اور باطل میں فرق کر دینے والی یہ کتاب اپنے بندے (محمدؐ) پر اتاری تاکہ وہ دنیا والوں کو (حق و باطل) سے آگاہ کرے‘‘
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت من الھدیٰ و الفرقان۔ (البقرہ: ۱۸۵)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی کتاب نازل کی گئی جو تمام انسانوں کے لیے سر تاسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو صاف صاف راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘