اب اپنی اس استدعا کی روشنی میں بھی اپنے اعمال اور مشاغل زندگی کا جائزہ لیجئے جو اللہ کی بارگاہ سے رخصت ہوتے وقت اس کے حضور پیش کی جاتی ہے یعنی:
رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعآء ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔
’’اے میرے رب‘ مجھے اور میری اولاد کو بھی اقامت صلوٰۃ کی توفیق عطا فرما‘ آقا‘ میری اس دعا کو قبول فرما لے اور حساب کے دن مجھے‘ میرے ماں باپ کو اور اپنے سب بندوں کو بخش دے‘‘
اس دعا کے الفاظ کو سامنے رکھئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ اقامت صلوٰۃ اور اس کے محافظ نظام زندگی کو برپا کرنے کے لیے کماحقہ جدوجہد کرنا تو درکنار‘ اس کے دل میں کوئی تڑپ اور جذبہ بھی پایا جاتا ہے؟ یا پھر اقامت صلوٰۃ کے معنی قیام‘ رکوع اور سجدے کی حالت میں چند رٹی ہوئی عبارتوں کو محض دہرا لینا ہی کافی سمجھ رکھا ہے؟ اور اس خیال میں ہیں کہ جو ذمہ داریاں اور جو کام یہ نماز آپ کے ذمہ لگاتی ہے اور جن کے انجام دینے کا عہد یہ آپ سے بار بار لیتی ہے‘ وہ سب محض اس کے الفاظ دہرا دینے کی برکت سے طلسماتی طور پر خود بخود انجام پا جائیں گے؟ یا آپ کے نزدیک یہ نماز صرف ایک ذہنی اور جسمانی ورزش ہے جس سے کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی؟
برادران مکرم‘ نماز اسلام کا ستون ہے۔ ’’الصلوٰۃ عماد الدین ‘‘ یہ وہ چیز ہے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اور اسلام کے درمیان حد فاصل بتایا ہے۔ یعن اس کے بغیر اسلام کسی شخص کو اپنے دائرے کے اندر ٹکنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے لازم ہے کہ اقامت صلوٰۃ کی حقیقت کو جاننے اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھ کر ادا کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔
نماز کے آخر میں ہم دائیں اور بائیں دونوں طرف تمام مخلوق خدا کے لیے السلام علیکم و رحمۃ اللہ (’’تم سب پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو‘‘) کی دعا کرتے ہوئے نماز کو ختم کرتے ہیں۔
یہاں بھی ذرا اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے کہ کیا گرد و پیش کی مخلوق اور بندگان خدا کے لیے فی الواقع آپ کا دل سلام و رحمت کے جذبات سے لبریز ہے؟ اگر ایسا نہیں تو یہ سلام منافقت کا سلام ہے اور یہ اس محبت اور اخوت کا ذریعہ نہیں بن سکتا جو مسلمانوں کے درمیان ہونی چاہئے اور جس کے لیے سلام مقرر کیا گیا ہے۔