اس کے بعد آدمی رکوع میں جاتا ہے اور بار بار سبحان ربی العظیم کا ورد کرتا ہے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہکہتا ہوا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور ربنالک الحمد کہہ کر سجدہ میں جا گرتا ہے۔ اور سبحان ربی الاعلیٰ کا ورد شروع کر دیتا ہے۔
کیا سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ (ہر عیب سے پاک ہے میرا صاحب عظمت اور بلند و برتر رب) کے اقرار کے مطابق آپ اپنے رب کی تقسیم رزق اور اس کی مقررہ کردہ تقدیر پر ہر حال میں راضی و مطمئن رہتے ہیں اور نہ کسی تنگی و تکلیف کے موقع پر مایوس و کفور اور نہ نعمت و قوت پا کر مترف و متکبر بن جاتے ہیں۔ بلکہ جو صورت بھی پیش آئے‘ راہ حق پر مضبوطی سے قدم جمائے۔ صبر و استقلال کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے رب نے جو اور جس قدر مناسب سمجھا‘ وسائل زندگی میں سے عطا فرما دیا۔ اب اسی میں ہماری امانت و دیانت‘ وفاداری اور احسان مندی اور اہلیت کار کا امتحان ہے۔ رکوع اور سجدے میں کیے جانے والے اس اقرار کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد آپ اپنے اس رب عظیم و برتر کے علاوہ کسی اور کو ایسا نہ سمجھیں کہ وہ بھی اگر چاہے تو ہماری تقدیر یا رزق میں کوئی کمی بیشی کرسکتا ہے اور نہ کبھی اپنے رب عظیم و اعلیٰ کی حدود پھاند کر اپنے رزق میں اضافہ کی کسی کوشش کا خیال تک اپنے دل میں لائیں‘ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی تقسیم اور تقدیر میں کوئی سرمو بھی دخل اندازی کرسکے۔
پھر کیا سمع اللہ لمن حمدہ کے اعتراف و اقرار کے بعد ہمیں فی الواقع اس بات کا علم اور یقین ہوگیا ہے کہ اپنے سچے رب اور اللہ واحد سے ہمارا تعلق کتنا قریبی اور براہ راست ہے اور ہم جب چاہیں کسی درمیانی واسطے‘ وسیلے یا سفارشی کے بغیر بلا روک ٹوک اس سے براہ راست مخاطب ہو سکتے ہیں۔ اور اپنی ہر قسم کی معروضات اور حمد و ثناء اس کے حضور پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے ہاں کوئی حاجب کا دربان کسی وقت بھی کسی سائل کو روکنے والا نہیں ہے۔
کیا ربنا لک الحمد کہنے کے بعد اب فی الواقع کسی اور کی ربوبیت اور حمد و ثناء کے لیے آپ کے دل میں جگہ نہیں رہی اور اپنے رب کے ہمہ گیر ربوبیت اور نگہبانی کا آپ کو پورا پورا احساس ہوگیا ہے کہ ’’حمد‘‘ فی الحقیقت ہمارے عظیم اور بالا و برتر رب ہی کے لیے ہے۔