رسولؐ کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے کتاب بھی بھیجی ہے۔ وہ جنتر منتر کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ غیر مسلم بھی مانتے ہیں کہ یہ آسمان کے نیچے ان کتابوں میں سے ہے جن سے دنیا میں انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ صالح انقلاب برپا کیا۔ یہ قوموں کے لیے عروج و زوال کا پیمانہ بن کر نازل ہوئی ہے۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے عرب کی گئی گذری قوم کو دنیا کی قوموں کا امام بنا دیا‘ اور دوسری تمام بڑی بڑی قوموں کے فاسد تمدنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس نے اونٹ چرانے والو ں کے ہاتھوں سے اونٹوں کی نکیل لے لی اور قوموں کی قیادت کی باگ ان کے ہاتھوں میں دے دی اور انہی اونٹ چرانے والوں میں اس کے فیض سے ایسے ایسے لوگ پیدا ہوئے کہ پوری انسانیت کی تاریخ ان کے ناموں سے روشن ہے۔ یہ کتاب ہماری زندگی کے ہر گوشے کے لیے ہدایت بنا کر بھیجی گئی ہے۔ یہ فرمان الٰہی ہے‘ واجب الاطاعت ہے‘ اس میں شک اور تفریق کی گنجائش نہیں۔ کوئی مسلمان جان بوجھ کر اور ٹھنڈے دل سے اس سے منحرف ہو کر اپنے تئیں مسلمان نہیں باقی رکھ سکتا۔ جب تک اس کے دم میں دم ہے‘ وہ اس پر جما رہے گا۔ اگر جہالت کی وجہ سے اس سے بھٹک جائے گا تو ہوش آنے کے بعد اس کی طرف لوٹے گا۔ اور اگر اس سے زبردستی اس کو دور کر دیا جائے گا تو یہ دوری ایسی ہوگی جیسی ایک مچھلی کی دوری تالاب سے۔ وہ بہرصورت اس سے علیحدگی پر کبھی راضی نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ اس کا سرتن سے جدا ہو جائے‘ اگرچہ اس میں اسے سب کچھ کھو دینا پڑے۔
اس کتاب عزیز کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت صرف یہ نہیں ہے کہ اگر وہ کبھی زمین پر گر جائے تو اس کے برابر گہیوں تول کر صدقہ کر دیا جائے‘ اس کا جزو دان نہایت عمدہ مخمل کا ہو‘ ستھری الماری میں اسے رکھا جائے اور ہرگز ہرگز یہ بھی نہیں کہ کوئی مرنے لگے تو اس پر سورۂ یٰسین پڑھ کر دم کر دیجئے۔ وہ جان نکالنے کے لیے سہولت کا نسخہ ہی بن کر نہیں آئی ہے بلکہ انسان کے لیے ہدایت اور حیات کا سرچشمہ بن کر آئی ہے۔ سورج تاریک ہو جائے تو جہاں تاریک نہ ہوگا۔ چاند بے نور ہو جائے تو دنیا اندھیری نہ ہوگی۔ ستارے جھڑ جائیں تو کوئی انقلاب برپا نہ ہوگا لیکن اگر قرآن جہان سے غائب ہو جائے تو پھر دنیا کو کہیں سے روشنی نہیں مل سکتی۔ من لم یجعل اللہ لہ نوراً فما لہ من نور۔
یہ کتاب عزیز وہ ہے جو تہذیب و تمدن اور نیکی و سعادت کا سرچشمہ ہے۔ اس ظالم انسان کے جواب میں جس نے کہا تھا کہ ’’جب تک یہ کتاب باقی ہے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘‘ میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تباہی بھی دنیا سے نیکی اور امن و عدل کے آثار نہیں مٹا سکتی۔ اگر یہ کتاب صفحہ عالم پر موجود ہے‘ اسے جاننا‘ اس پر ایمان لانا‘ اس کے مطابق عمل کرنا‘ اس کے علم و عمل کو وراثت میں منتقل کرنا‘ اس کے لیے گردن کٹانا ہمارے فرائض اور اس کتاب کے حقوق میں سے ہے۔ یہ ہمارے دین کے مسلمات میں ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا رشتہ خون کی بنا پر نہیں ہے‘ اس کتاب کی بنا پر ہے‘ جو اس کو مانتا ہے۔ وہ ہمارا ہے اور ہم اس کے ہیں‘ اور جو اس سے منحرف ہے‘ نہ وہ ہمارا ہے نہ ہم اس کے ہیں۔ نخلع و نترک من یجفرک۔
ہمارے مدرسوں کے امتحان میں کچھ سوالات اختیاری بھی ہوتے ہیں لیکن قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اختیاری ہو۔ ہم کو پورا قرآن ماننا پڑے گا۔ اس کی ایک چیز کا انکار سب کا انکار ہے۔ خواہ وہ چھوٹی سی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ خداوند تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں ہے کہ ہم جتنی بھی اس کی اطاعت کریں اتنے ہی پر راضی ہو جائے کہ چلو اگر یہ سو فیصدی مطیع نہیں ہیں تو ان سے 50 فی صدی ہی قبول کرلو‘ نہیں‘ بلکہ رسولؐ کو حکم ملا ہے کہ پورے کا پورا قرآن پیش کریں‘ جسے لینا ہے اسے پورا لے ورنہ پورا چھوڑ دے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اہل ردہ نے کس چیز کا انکار کیا تھا؟ صرف زکوٰۃ ہی کا تو کیا تھا۔ صحابہؓ کی مجلس میں معاملہ پیش ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ بھی دینے سے انکار کیا تو میں ان سے جہاں کروں گا۔ اور اگر اور کوئی تیار نہ ہوگا تو میں تن تنہا تلوار لے کر نکلوں گا۔ سب صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ احکام دین میں ہم کسی قسم کی تفریق و تقسیم نہیں کرسکتے۔