اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریق کار‘‘ کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریق کار بھی دراصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں‘ ان سے ہمارا اولین مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگی رب میں دے دو۔ اور اپنے عمل سے اپنے اخلاص اور اپنی یکسوئی کا ثبوت دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضد ہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن لوگوں نے بڑی بڑی امنگوں (Ambitions)کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھا دینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے جس میں جاہ و منصب اور معاشی خوش حالیوں کے امکانات انہیں اپنی زندگی میں تو درکنار اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دور دور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حق داروں کے حقوق مارے گئے تھے‘ انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے۔ صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے اس کے منشاء کے خلاف کسی مال کا کھانا‘ ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائل زندگی غیر شرعی تھے یا نظام باطل سے وابستہ تھے۔ ان کو ترقیوں کے خواب دیکھا تو درکنار موجودہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ٹکڑا حلق سے اتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے اور وہ ان وسائل کو پاک تر وسائل سے خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں‘ بدلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں‘ اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہیں آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین‘ اس کے بھائی بند‘ اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان کے ساتھ قوت آزمائی شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا‘ اس کے لیے زنبور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابل اعتماد و سیرت کے کارکن فراہم کرنے کے لیے وقت الٰہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہو جاتے ہیں وہ آپ سے آپ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں اور ہمیں ان کو چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں‘ وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص‘ اتنی یکسوئی‘ اتنا صبر اور اتنا…… اتنی محبت حق اور اتنی مضبوطی سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلہ امتحان سے کامیاب گزر جانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں جو آنے والا ہے‘ اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اور زر خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معاون سے کار آمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے یہی طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے‘ چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے‘ مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے کہ انتظام دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اٹھا سکے جن کے ایک قلیل سے قلیل جز کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم لازم رکھتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی روشنی ہم نے پائی ہے‘ اس سے وہ اپنے قریبی ماحول اور ان سب لوگوں کو جن سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے‘ روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خوربین اور دیدبان (Serch-light) اس کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور مبلغ کی زندگی میں اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہو تو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کر کے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الواقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجھلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھائے گا جو مخالفت کی نیت ہی سے سہی مگر بہرحال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی و محنت کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس برتن کو بیسیوں ہاتھ مانجنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو‘ آخر کار مجلا و مصفا ہو کر رہے گا۔
پھر اس تبلیغ سے ان لوگوں میں بہت سے اوصاف کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گزرنا پڑتا ہے‘ کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے‘ کہیں اس پر طعنے اور آوازے کسے جاتے ہیں‘ کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے‘ کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے‘ کہیں اس کو فتنوں میں الجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ کہیں اسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے‘ میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے‘ دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کرلی جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس تک لینا دشوار کردیا جاتا ہے۔ تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے‘ نہ حق سے پھرے‘ نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے‘ نہ مشتعل ہو کر اپنے دماغ کا توازن کھوئے‘ بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیزگاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے۔ اس کے اندر ان اوصاف عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر…… اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر درکار ہوں گے۔
اس تبلیغ کے سلسلے میں ہم نے وہی طریق کار اپنانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیا ہے‘ یعنی یہ کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں‘ تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کے سامنے دین کے اولین بنیادی اصولوں کو اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں‘ کسی کو اس کی قوت ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں‘ فروع کو اصول پر اور جزئیات کو کلیات پر مقدم نہ کریں‘ بنیادی خرابیوں کو رفع کیے بغیر ظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹنے اور کاٹنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں‘ غفلت اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت و کراہیت کا برتائو کرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں‘ گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سکھیں‘ ظلم اور ایذا رسانی پر صبر کریں‘ جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ الجھیں‘ لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگوں کی طرح درگزر کریں‘ جو لوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں‘ ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلب حق پائی جاتی ہو‘ خواہ وہ دنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابل توجہ سمجھے جاتے ہوں‘ اور اپنی اس تمام سعی و جہد میں ریاء اور نمود و نمائش سے بچیں‘ اپنے کارناموں کو گنانے اور فخر کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرہ برابر کوشش نہ کریں‘ بلکہ جو کچھ کریں‘ اس نیت اور اس یقین و اطمینان کے ساتھ کریں کہ ان کا سارا عمل خدا کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے بھی واقف ہے اور ان کی خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے خواہ خلق اس سے واقف ہو یا نہ ہو‘ اور خلق کی طرف سے سزا ملے یا جزاء۔ یہ طریقہ کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار، نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے‘ اس میں ایک طرف اس شخص کے اندر وہ گہری بصیرت‘ وہ سنجیدگی‘ وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے‘ اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے‘ مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ صرف ایسے ہی طریق تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جاسکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے بجائے اس طریق تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھینچتے ہیں اور وہ سنجیدہ کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ابو الفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ہمارے طریق کار کا ایک بڑا اہم جزء یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظام باطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کرلیا ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق‘ اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں لیکن اس چیز کو ہم نے لازم نہیں کیا ہے بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں‘ گرتے چلے جائیں۔ البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گر جانے والے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنائے‘ یا جھوٹی شہادت دے‘ یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذر نہ پیش کیا جاسکے بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریق کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون و عدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس کا اولین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا بااصول ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے‘ اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت (Sovereignty)صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے‘ اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانون الٰہی کی سند کے بغیر معاملات انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعویٰ سے خود بخود یہ بات لازم آ جاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الٰہی قانون پر نہ رکھیں‘ اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں‘ جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کرکے دکھا دیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطی سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بین ثبوت ہوگا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔ اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کر دے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گزریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرۃ کے بودے پن کا ایک نمایاں ترین ثبوت ہوگا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ افراد کی پختگی اور ان کے قابل اعتماد یا ناقابل اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہوگی جس سے ہم باآسانی یہ معلوم کرتے رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کس قسم کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ایسے افراد یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیاد پر قائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پر قائم کریں۔ ان کو اپنا اخلاقی معیار اتنا بلند کرنا پڑے گا‘ اپنے آپ کو اپنے ماحول میں اس قدر راست باز‘ اتنا متدین‘ اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بنانا پڑے گا کہ لوگ خود بخود ان کے حقوق‘ ان کی عزت اور ان کی جان و مال کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سوا ان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہوگا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہو کر رہ جائے گی جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفاد اور حقوق کو خطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو بالکل برہنہ کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔ جب لوگ یہ جاننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں۔ ہمارے حقوق پر علی الاعلان ڈاکے ماریں گے۔ تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہوگا کہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھوکھلی ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے‘ کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں ہے‘ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں‘ حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین اخلاقی گراوٹ اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر قومی سیرت کو گلا اور سڑا رہا ہے۔ ہم اس کو علیٰ روس الاشہاد بے پردہ کرکے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے‘ وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
صاحبو! اپنی دعوت اور اپنے طریق کار کی یہ مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔ اس کو جانچیں اور پرکھیں اور اس پر کڑی سے کڑی تنقید کریں اور دیکھیں کہ ہم کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور بلانے کے لیے ہم نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے‘ کس حد تک خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق ہے‘ کس حد تک موجودہ انفرادی و اجتماعی امراض کا صحیح علاج ہے‘ اور کس حد تک اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود یعنی کلمۃ اللہ کے بلند اور کلمات باطلہ کے پست ہو جانے کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اب میں ان شہادت و اعتراضات پر کچھ عرض کروں گا جو اس موقع کے دوران میں بعض حضرات کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائے گئے ہیں۔