یہ ایک جداگانہ بحث ہے کہ ایک اسٹیٹ کا وجود بجائے خود جائز ہے یا نہیں۔ اس معاملہ میں ہمارا اور دنیوی ریاستوں (Secular States) کے حامیوں کا نقطۂ نظر بالکل مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک خدا کی حاکمیت کے سوا ہر دوسری حاکمیت پر ریاست کی تعمیر سرے سے ناجائز ہے، اس لیے جو ریاست بجائے خود ناجائز بنیاد پر قائم ہو اس کے لیے ہم اس بات کو جائز تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے ناجائز وجوداور غلط نظام کی حفاظت کے لیے قوت استعمال کرے۔ اس کے برعکس ہمارے مخالفین الٰہی ریاست کو ناجائز اور صرف دنیوی ریاست ہی کو جائز سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک دنیوی ریاست کا اپنے وجود و نظام کی حفاظت میں جبر سے کام لینا عین حق اور الٰہی ریاست کا یہی فعل کرنا عین باطل ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ قاعدہ اپنی جگہ عالم گیر مقبولیت رکھتا ہے کہ ریاست اور حاکمیت کی عین فطرت اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے اپنے وجود اور اپنے نظام کی حفاظت کے لیے جبر اور قوت کے استعمال کا حق حاصل ہو۔ یہ حق ریاست من حیث الریاست کا ذاتی حق ہے اور اگر کوئی چیز اس حق کو باطل بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ جو ریاست اس حق سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو وہ آپ ہی باطل پر قائم ہوئی ہو۔ اس لیے کہ باطل کا وجود بجائے خود ایک جرم ہے اور اگر وہ اپنے قیام و بقا کے لیے طاقت سے کام لیتا ہے تو یہ شدید تر جرم ہو جاتا ہے۔