یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا مذہبی ریاست بجائے خود صحیح ہے یا نہیں۔ چونکہ اہل مغرب کی پشت پر پاپایان روم کی ایک الم ناک تاریخ ہے جس کے زخم خوردہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی ریاست کا نام سنتے ہی خوف سے لرز اٹھتے ہیں، اس لیے جب کبھی کسی ایسی چیز کے متعلق انھیں گفتگو کا اتفاق ہوتا ہے جس پر ’’مذہبی ریاست‘‘ ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہو (اگرچہ اس کی نوعیت پاپائی سے بالکل مختلف ہی کیوں نہ ہو) تو جذبات کا ہیجان ان کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ بے چارے اس پر ٹھنڈے دل سے معقول گفتگو کرسکیں۔ رہے ان کے مشرقی شاگرد، تو اجتماعی و عمرانی مسائل پر ان کا سرمایۂ علم جو کچھ بھی ہے، مغرب سے مانگے پر لیا ہوا ہے، اور یہ اپنے استادوں سے صرف ان کی معلومات ہی ورثے میں حاصل نہیں کرتے بلکہ میراث علمی کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات، رجحانات اور تعصبات بھی لے لیتے ہیں، اس لیے قتل مرتد اور اس نوعیت کے دوسرے مسائل پر جب بحث کی جاتی ہے تو خواہ اہل مغرب ہوں یا ان کے مشرقی شاگرد، بالعموم دونوں ہی اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور اصل قانونی و دستوری سوال کو ان بحثوں میں الجھانے لگتے ہیں جو مذہبی ریاست کے بذات خود صحیح یا غلط ہونے کی بحث سے تعلق رکھتی ہیں۔ حالانکہ اگر بالفرض اسلامی ریاست انھی معنوں میں ایک ’’مذہبی ریاست‘‘ ہو جن معنوں میں اہل مغرب اسے لیتے ہیں، تب بھی اس مسئلہ میں یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جو ریاست کسی خطۂ زمین پر حاکمیت رکھتی ہو، آیا وہ اپنے وجود کی حفاظت کے لیے ایسے افعال کو جرم قرار دینے کا حق رکھتی ہے یا نہیں جو اُس کے نظام کو درہم برہم کرنے والے ہوں۔ اس پر اگر کوئی معترض ہو تو وہ ہمیں بتائے کہ دنیا میں کب ریاست نے یہ حق استعمال نہیں کیا ہے؟ اور آج کون سی ریاست ایسی ہے جو اس حق کو استعمال نہیں کر رہی ہے؟ اشتراکی اور فاشست ریاستوں کو چھوڑیے۔ ان جمہوری ریاستوں ہی کو دیکھ لیجیے جن کی تاریخ اور جن کے نظریات سے موجود زمانے کی دنیا نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے اور جن کو آج جمہوری نظام کی علم برداری کا شرف حاصل ہے۔ کیا یہ اس حق کو استعمال نہیں کر رہی ہیں؟