حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اسی معنی میں ایک ’’مذہب‘‘ کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج تک بولا جاتا ہے تو یقینا اس کا ان لوگوں کے لیے قتل کی سزا تجویز کرنا سخت غیر معقول فعل ہوتا جو اس کے اصولوں سے غیر مطمئن ہو کر اس کے دائرے سے باہر نکلنا چاہیں۔ مذہب کا موجودہ تصور یہ ہے کہ وہ مابعد الطبیعی مسائل کے متعلق ایک عقیدہ و خیال ہے جسے آدمی اختیار کرتا ہے اور حیات بعد الموت میں نجات حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس پر انسان اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ رہی سوسائٹی کی تنظیم اور معاملات دنیا کی انجام دہی اور ریاست کی تشکیل، تو وہ ایک خالص دنیوی معاملہ ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس تصور کے مطابق مذہب کی حیثیت صرف ایک رائے کی ہے، اور رائے بھی ایسی جو زندگی کے ایک بالکل ہی دُور از کار پہلو سے تعلق رکھتی ہے، جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابل لحاظ اثر حیات انسانی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہیں پڑتا۔ ایسی رائے کے معاملے میں آدمی کو آزاد ہونا ہی چاہیے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ امور مابعد الطبیعت کے بارے میں ایک خاص رائے کو اختیار کرنے میں تو وہ آزاد ہو، مگر جب اس کے سامنے کچھ دوسرے دلائل آئیں جن کی بنا پر وہ سابق رائے کو غلط محسوس کرنے لگے تو اس کے بدل دینے میں وہ آزاد نہ ہو۔ اور اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ جب ایک طریقہ کی پیروی میں اسے اپنی نجات اُخروی کی توقع ہو تو اسے اختیار کرسکے اور جب وہ محسوس کرے کہ نجات کی امید اس راستے میں نہیں، کسی دوسرے راستے میں ہے، تو اسے پچھلے راستے کو چھوڑنے اور نئے راستے کے اختیار کرلینے کا حق نہ دیا جائے۔ پس اگر اسلام کی حیثیت یہی ہوتی جو مذہب کی حیثیت آج کل قرار پا گئی ہے تو اس سے زیادہ نامعقول کوئی بات نہ ہوتی کہ وہ آنے والوں کے لیے تو اپنا دروازہ کھلا رکھے مگر جانے والوں کے لیے دروازے پر جلاد بٹھا دے۔
لیکن دراصل اسلام کی یہ حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ اصطلاح جدید کے مطابق محض ایک ’’مذہب‘‘ نہیں ہے بلکہ ایک پورا نظام زندگی ہے۔ اس کا تعلق صرف مابعد الطبیعت ہی سے نہیں ہے بلکہ طبیعت اور مافی الطبیعت سے بھی ہے۔ وہ محض حیات بعد الموت کی نجات ہی سے بحث نہیں کرتا بلکہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح کے سوال سے بھی بحث کرتا ہے اور نجات بعد موت کو اسی حیات قبل الموت کی تشکیل صحیح پر منحصر قرار دیتا ہے۔ مانا کہ پھر بھی وہ ایک رائے ہی ہے، مگر وہ رائے نہیں جو زندگی کے کسی دُور ازکار پہلو سے تعلق رکھتی ہو بلکہ وہ رائے جس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ قائم ہوتا ہے۔ وہ رائے نہیں جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابل لحاظ اثر زندگی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہ پڑتا ہو بلکہ وہ رائے جس کے قیام پر تمدن اور ریاست کا قیام منحصر ہے اور جس کے بدلنے کے معنی نظام تمدن و ریاست کے بدل جانے کے ہیں۔ وہ رائے نہیں جو صرف انفرادی طور پر ایک شخص اختیار کرتا ہو بلکہ وہ رائے جس کی بنا پر انسانوں کی ایک جماعت تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل پر قائم کرتی ہے اور اسے چلانے کے لیے ایک ریاست وجود میں لاتی ہے۔ ایسی رائے اور ایسے نظریہ کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا نہیں بنایا جاسکتا، نہ اس جماعت کو جو اس رائے پر تمدن وریاست کا نظام قائم کرتی ہے، رہگذر بنایا جاسکتا ہے کہ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھے تو اس میں داخل ہو جایئے اور جب دوسری لہر اٹھے تو اس سے نکل جایئے اور پھر جب جی چاہے اندر آیئے اور جب چاہے باہر چلے جایئے۔ یہ کوئی کھیل اور تفریح نہیں ہے جس سے بالکل ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر دل بہلایا جائے۔ یہ تو ایک نہایت سنجیدہ اور انتہائی نزاکت رکھنے والا کام ہے جس کے ذرا ذرا سے نشیب و فراز سوسائٹی اور سٹیٹ کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے بننے اور بگڑنے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کی زندگیوں کا بنائو اور بگاڑ وابستہ ہوتا ہے، جس کی انجام دہی میں ایک بہت بڑی جماعت اپنی زندگی و موت کی بازی لگاتی ہے۔ ایسی رائے اور ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے۔
منظم سوسائٹی کا فطری اقتضا
ایک منظم سوسائٹی جو ریاست کی شکل اختیار کر چکی ہو ایسے لوگوں کے لیے اپنے حدود عمل میں بمشکل ہی گنجائش نکال سکتی ہے جو بنیادی امور میں اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ فروعی اختلافات تو کم و بیش برداشت کیے جاسکتے ہیں، لیکن جو لوگ سرے سے اُن بنیادوں ہی سے اختلاف رکھتے ہوں جن پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام قائم ہوا ہو، ان کو سوسائٹی میں جگہ دینا اور اسٹیٹ کا جُز بنانا سخت مشکل ہے۔ اس معاملے میں اسلام نے جتنی رواداری برتی ہے، دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی دوسرے نظام نے نہیں برتی۔ دوسرے جتنے نظام ہیں وہ اساسی اختلاف رکھنے والوں کو یا تو زبردستی اپنے اصولوں کا پابند بناتے ہیں یا انھیں بالکل فنا کر دیتے ہیں۔ وہ صرف اسلام ہی ہے جو ایسے لوگوں کو ذمی بنا کر اور انھیں زیادہ سے زیادہ ممکن آزادی عمل دے کر اپنے حدود میں جگہ دیتا ہے اور ان کے بہت سے ایسے اعمال کو برداشت کرتا ہے جو براہ راست اسلامی سوسائٹی اور اسٹیٹ کی اساس سے متصادم ہوتے ہیں۔ اس رواداری کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت سے مایوس نہیں ہے۔ وہ خدا کے بندوں سے آخر وقت تک یہ امید وابستہ رکھتا ہے کہ جب انھیں دین حق کے ماتحت رہ کر اس کی نعمتوں اور برکتوں کے مشاہدہ کا موقع ملے گا تو بالآخر وہ اس حق کو قبول کرلیں گے جس کی روشنی فی الحال انھیں نظر نہیں آتی۔ اسی لیے وہ صبر سے کام لیتا ہے اور ان سنگ ریزوں کو جو اس کی سوسائٹی اور ریاست میں حل نہیں ہوتے اس امید پر برداشت کرتا رہتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کی قلب ماہیت ہو جائے گی اور وہ تحلیل ہونا قبول کرلیں گے۔ لیکن جو سنگ ریزہ ایک مرتبہ تحلیل ہونے کے بعد پھر سنگ ریزہ بن جائے اور ثابت کر دے کہ وہ سرے سے اس نظام میںحل ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اس کی انفرادی ہستی خواہ کتنی ہی قیمتی ہو، مگر بہرحا ل وہ اتنی قیمتی تو نہیں کہ سوسائٹی کے پورے نظام کی خرابی اس کی خاطر گوارا کرلی جائے۔