یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اُس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہو کر پھر کفر کی طرف پلٹ جائے۔ اس باب میں پہلا شک جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا وہ انیسویں صدی کے دور آخر کی تاریک خیالی کا نتیجہ تھا۔ ورنہ اس سے پہلے کامل بارہ سو برس تک یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ رہا ہے، اور ہمارا پورا دینی لٹریچر شاہد ہے کہ قتل مرتد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان کبھی دورائیں نہیں پائی گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کبار، تابعین، ائمۂ مجتہدین، اور ان کے بعد ہر صدی کے علمائے شریعت کی تصریحات کتابوں میں موجود ہیں۔ ان سب کو جمع کرکے دیکھ لیجیے، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ دَور نبوت سے لے کر آج تک اس مسئلے میں ایک ہی حکم مسلسل و متواتر چلا آرہا ہے اور کہیں سے اس شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی کہ شاید مرتد کی سزا قتل نہ ہو۔
ایسے ثابت شدہ مسائل کے متعلق جن لوگوں نے موجودہ زمانے کی روشن خیالی سے متاثر ہو کر اختلافی بحث کا دروازہ کھولا اُن کی جسارت فی الواقع سخت حیرت انگیز ہے۔ انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر ایسے امور بھی مشکوک ہو جائیں جن کے لیے اس قدر تسلسل اور تواتر کے ساتھ شہادتیں پائی جاتی ہیں تو معاملہ ایک دو مسائل تک محدود کہاں رہتا ہے۔ اس کے بعد تو زمانۂ گزشتہ کی کوئی چیز بھی جو ہم تک روایتاًپہنچی ہے شک سے محفوظ نہیں رہتی، خواہ وہ قرآن ہو یا نماز یا روزہ۔ بلکہ سرے سے یہی بات مشکوک ہو جاتی ہے کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دنیا میں مبعوث ہوئے بھی تھے یا نہیں۔ اس قسم کے شکوک پیدا کرنے کے بجائے درحقیقت اُن لوگوں کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ تھا کہ جو کچھ واقعہ ہے اور مستند شہادتوں سے ثابت ہے اسے واقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیتے اور پھر غور اس امر پر کرتے کہ آیا ہم اُس دین کا اتباع کریں یا نہ کریں جو مرتد کو موت کی سزا دیتا ہے۔ اپنے مذہب کی کسی ثابت و مسلم چیز کو اپنے عقلی معیاروں کے خلاف پاکر جو شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز سرے سے مذہب میں ہے ہی نہیں وہ دراصل یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ’’کافر نتوانی شدناچار مسلماں شو‘‘ کی حالت میں مبتلا ہے۔ یعنی اس کا طریق فکر و نظر جس مذہب کے حقیقی راستے سے منحرف ہو چکا ہے، اس میں رہنے پر وہ صرف اس لیے اصرار کر رہا ہے کہ وہ مذہب اس نے باپ دادا سے پایا ہے۔