یہ مختصر مضمون ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا اور رسالہ ترجمان القرآن کے اکتوبر ۱۹۴۲ء سے جون ۱۹۴۳ء تک کے پرچوں میں شائع ہوا تھا۔ چونکہ اس میں اسلامی قانون کے ایک بڑے معرکہ آرا مسئلہ پر بحث کی گئی ہے جو اکثر لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا کرتا رہتا ہے، اس لیے اب اسے الگ رسالے کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔
سوال حسب ذیل تھا:
’’کیا اسلام نے مرتد کی سزا قتل قرار دی ہے؟ قرآن سے اس کا کیا ثبوت ملتا ہے؟ اگر قرآن سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ارتداد کی سزا قتل ہے تو احادیث و سنت سے کہاں تک اس کا ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے؟ نیز حضرت ابوبکرؓ کے قتال مرتدین کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے؟ عقلی حیثیت سے قتل مرتدین کا جواز کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؟
کیا ایک صحیح اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہونا چاہیے؟ کیا خلافت ِ راشدہ اور بعد کی خلافتوں کے تحت کفار و اہل کتاب کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق حاصل تھا؟ قرآن و سنت اور عقلی حیثیت سے اس کے عدم جواز کا کہاں تک ثبوت ملتا ہے؟
ان دونوں امور کے متعلق میں نے بہت غورکیا مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہوں، خلاف اور موافق دونوں دلائل وزن رکھتے ہیں اور قرآن و سنت میں ان امور کی بابت کوئی خاص تصریح نہیں ملتی، کم از کم جہاں تک میرا محدود علم رسائی کرتا ہے۔ اگر اس کا جواب ترجمان القرآن میں شائع ہو جائے تو اچھا ہے کیونکہ میرے سوا بہت سے لوگ اس بحث سے دل چسپی رکھتے ہیں۔‘‘
اس سوال میں دو امور تنقیح طلب ہیں:
۱۔ یہ کہ قتل مرتد اور غیر مسلم گروہوں کی مذہبی تبلیغ کے بارے میں اسلام کے واقعی احکام کیا ہیں۔
۲۔ ہمارے پاس کیا دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم ان احکام کی معقولیت پر خود مطمئن ہیں اور دوسروں کو مطمئن کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
آئندہ صفحات میں انھی دونوں امور پر بحث کی گئی ہے۔