وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اجنبی طاقت کے تسلُّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں نیشنلزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور نیشنلزم پیدا کرنے کے لیے ایک قومیت بنانے کی حاجت ہے۔ لہٰذا تمام موجودہ قومیتوں کو مٹا دو اور سب کی ایک قومیت بنا ڈالو۔حالانکہ اگر ان لوگوں میں صحیح بصیرت موجود ہو اور یہ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوکر خود سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ یہ راستہ ہندوستان کی نجات کا نہیں اس کی تباہی کا ہے۔
اوّلاً اس راستے سے آزادی حاصل کرنا درحقیقت نہایت دیرطلب کام ہے۔ سینکڑوں ہزاروں برس کی روایات پر جو تہذیبی قومیتیں قائم ہیں ان کا مٹنا، ان کی جگہ ایک نئی قومیت کا وجود میں آنا اور پھر اس قومیت کا مستحکم اور مشتعل ہوکر نیشنلزم کی حد تک پہنچنا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بہرحال ایک طویل مدت درکار ہے اور اگر آزادی کا حصول اسی پر موقوف ہے تو ہندوستان کو کم از کم ابھی دو تین نسلوں تک اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ثانیاً اگر اس راستے سے آزادی حاصل ہوبھی جائے تو جیساکہ ہم اُوپر دیکھ چکے ہیں اس میں خطرہ یہ ہے کہ آخرکار تمام ملک اَخلاقی انحطاط کے ہاویہ میں گرجائے گا۔
ثالثاً یہ ایک یقینی امر ہے کہ جن قوموں کو اپنی انفرادیت سے کچھ بھی لگائو باقی ہے وہ اس نوعیت کی قوم سازی کے خلاف پوری جدوجہد کریں گی اور اس کش مکش میں آزادیٔ وطن کے لیے کوئی متَّحدہ کوشش نہ کی جاسکے گی۔لہٰذا اجنبی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے شاید یہ دُور کا راستہ بھی نہیں ہے کجا کہ قریب کا راستہ ہو۔ اگر اس راستہ کو اختیار کرنے پر یوں ہی اصرار کیا جاتا رہا تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسی آزادی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر ہو ہی نہ سکے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک وہ لوگ سخت نادان ہیں جو محض مغربی قوموں کی تقلید میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ملکی آزادی کے لیے بس نیشنلزم ہی ایک کارگر آلہ ہے۔ میں پہلے بھی بارہا کَہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان کی آزادی اور سیاسی و معاشرتی ترقی کے لیے سرے سے قومی وحدت اور نیشنلزم کی حاجت ہی نہیں ہے جہاں مختلف تہذیبی قومیتیں موجود ہوں وہاں قومی وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ غیرضروری ہے نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے بلکہ نتائج کے اعتبار سے بھی مفید ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان دہ ہے۔ اس جگہ وحدت نہیں بلکہ وفاق کے اصول (Federal Principles) ہی چل سکتے ہیں۔ ہرقوم کی مستقل حیثیت تسلیم کی جائے۔ ہر ایک کو اپنے قومی معاملات میں آزاد خودمختار قرار دیا جائے اور صرف مشترک وطنی اَغراض کی حد تک تمام قوموں کے درمیان اتفاقِ عمل (Joint action) کا معاہدہ ہوجائے بس یہی ایک صورت ہے جس سے ملک کی تمام جماعتوں میں اپنی انفرادیت کی بقاو تحفظ کا اطمینان پیدا ہوسکتا ہے اور یہی چیز ملک کی تمام قوتوں کو سیاسی ترقی کی جدوجہد میں ایک محاذ جنگ پر مجتمع کرسکتی ہے۔