ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے، وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع کے ساتھ مصنف کا برتائو اور اس کا صحیح یا غلط نتائج پر پہنچنا تمام تر اس کے زاویۂ نظر ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ سیدھا اور صحیح زاویۂ نظر یہ ہے کہ آدمی محض امرحق کا طالب ہو اور مسئلے کو جیسا کہ وہ فطرتاً و حقیقتاً ہے، اس کے اصلی رنگ میں دیکھے اور حقیقت کا یہ مشاہدہ جس نتیجہ پر بھی پہنچاتا ہو، اس پر پہنچ جائے، بلا اس لحاظ کے کہ وہ کس کے خلاف پڑتا ہے، اور کس کے موافق یہ بحث و تحقیق کا فطری اور علمی زاویۂ نظر ہے اور اسلامی زاویۂ نظر بھی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کی روح ہی اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ ہے۔اس سیدھے زاویۂ نظر کے علاوہ بہت سے ٹیڑھے زاویہ ہائے نظر بھی ہیں، مثلاً ایک یہ کہ آپ کسی کی محبت میں مبتلا ہیں۔ اس لیے صرف اسی نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں جو اس کے موافق ہو۔ اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی سے بُغض و عداوت ہے، اس لیے آپ کو تلاش صرف انھی چیزوں کی ہے جو آپ کے مبغوض کی مخالف ہوں، اس قسم کے ٹیڑھے زاویے جتنے بھی ہیں سب کے سب خلافِ حق ہیں۔ انھیں اختیار کرکے کوئی بحث کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ کسی عالم اور متقی انسان کے لیے زیبا نہیں کہ ایسے کسی زاویہ سے کسی مسئلہ پر نگاہ ڈالے، اس لیے کہ یہ اسلامی نہیں بلکہ جاہلی زاویۂ نظر ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مولانا نے اس رسالہ میں کون سا زاویۂ نظر اختیار فرمایا ہے۔ اپنی بحث کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں:
’’ضروری معلوم ہوا کہ اُن غلطیوں کا ازالہ کر دوں جو اس قسم کی قومیت متَّحدہ سے مخالفت اور اس کو خلافِ دیانت قرار دینے کے متعلق شائع ہوئی ہیں یا شائع کی جارہی ہیں۔ کانگریس ۱۸۸۵ء سے اہلِ ہندستان سے بنابر وطنیت اس اتحاد قومی کا مطالبہ کرتی ہوئی بیش از بیش جدوجہد عمل میں لارہی ہے اور اس کی مقابل و مخالف قوتیں اس کے غیرقابلِ قبول ہونے بلکہ ناجائز اور حرام ہونے کی انتہائی کوششیں عمل میں لارہی ہیں۔ یقینًا برٹش شہنشاہیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرناک چیز نہیں ہے۔ یہ چیز میدان میں آج سے نہیں بلکہ تقریباً ۱۸۸۷ء یا اس سے پہلے لائی گئی ہے اور مختلف عنوانوں سے اس کی وحی ہندوستانیوں کے دل و دماغ پر عمل میں لائی جاتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۵-۶)
پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں:
’’اگرچہ بہت سے ان لوگوں سے جن کو برطانیہ سے گہرا تعلق ہے یا جن کے دماغ اور قلب برطانوی مدبرین کے سحر سے مائوف ہوچکے ہیں ، اُمید نہیں ہے کہ وہ اس کو قبول کریں گے‘‘۔
اسی سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی۔ وہ ایسے اور ایسے تھے مگر ’’باوجود کمالاتِ گوناگوں کے ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہوگئے تھے‘‘۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد اپنے زاویۂ نظر کا صاف صاف اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ہندوستانیوں کا وطنیت کی بنا پر متَّحدہ قومیت بنا لینا انگلستان کے لیے جس قدر خطرناک ہے، وہ ہم نے پروفیسر سیلے کے مقالہ سے نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جذبہ ضعیف سے ضعیف بھی اگر ہندوستانیوں میں پیدا ہوجائے تو اگرچہ ان میں انگریزوں کے نکالنے کی طاقت موجود نہ بھی ہو مگر فقط اس وجہ سے کہ ان میں یہ خیال جاگزیں ہوجائے گا کہ اجنبی قوم کے ساتھ ان کے لیے اِشتِراکِ عمل شرمناک امر ہے، انگریزی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ (صفحہ ۳۸)
آگے چل کر ایک حیرت انگیز رائے کا اظہار فرماتے ہیں جسے پڑھ کر آدمی ششدر رہ جاتا ہے کہ کیا یہ کسی متقی عالم کی تحریر ہوسکتی ہے:
’’اگر قومیت ایسی ہی ملعون اور بدترین چیز ہے تو چوں کہ یورپ نے اس کو استعمال کرکے اسلامی بادشاہوں اور عثمانی خلافت کی جڑ کھودی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ اسی ملعون ہتھیار کو برطانیہ کی جڑ کھودنے کے لیے استعمال کرتے‘‘۔ (ص ۳۸)
اسی بحث کے دوران میں مولانا پہلے تو اس امر کا اعتراف فرماتے ہیں کہ پچھلی دو صدیوں میں مسلمان سلطنتوں کو جس قدر بھی نقصان پہنچا ہے کہ یورپ نے اسلامی وحدت کے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا، اور مسلمانوں میں نسلی، وطنی، لسانی امتیاز و افتراق پیدا کر دیا۔ اور ان میں یہ اسپرٹ پیدا کی کہ ’’جہاد مذہبی و روحانی نہ ہو بلکہ نسلوں اور اوطان کے لیے کیا جائے اور مذہبیت کی اسپرٹ درمیان سے نکال دی جائے‘‘ (صفحہ ۳۵-۳۶)۔ لیکن امرحق کے اس قدر قریب پہنچ جانے کے بعد پھر وہی برطانیہ کا ہوّا مولانا کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور وہ فرماتے ہیں:
’’افسوس ! مسلمانوں میں اُس وقت کوئی شخص مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت اور الغائے وطنیت، نسل و لسان وغیرہ کا واعظ کھڑا نہ ہوا اور نہ یورپ کے اخبار و رسائل اور لیکچراروں کی بے حد و بے شمار آندھیوں کا مقابلہ کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پان اسلام ازم ایک قصہ پارینہ ہوکر فنا کے گھاٹ اُتر گیا اور ممالک ِ اسلامیہ یورپین اقوام کے لیے لقمۂ تر بن کر رہ گئے۔ اب جب کہ مسلمانوں کو افریقہ، یورپ، ایشیا وغیرہ میں پارہ پارہ کر کے فنا کی گود میں ڈال دیا گیا ہے تو ہم کو کہا جاتا ہے کہ اسلام صرف ملّی اتحاد کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ کسی غیرمسلم جماعت سے متَّحد نہیں ہوسکتا اور نہ کسی غیرمسلم قوم کے ساتھ متَّحدہ قومیت بناسکتا ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۶-۳۷)
مندرجہ بالا عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا کی نگاہ میں حق اور باطل کا معیار صرف برطانیہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ مسئلہ کو نہ تو علمی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں کہ حقائق اپنے اصلی رنگ میں نظر آسکیں، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کےزاویۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں کے لیے زہر ہے وہ انھیں زہر دکھائی دے سکے۔ ان دونوں زاویوں کے بجائے ان پر فقط برطانیہ کی عداوت کا زاویۂ نظر مستولی ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہر وہ چیزان کو تریاق نظر آتی ہے جس کے متعلق کسی طرح ان کو معلوم ہوجائے کہ وہ برطانیہ کے لیے زہر ہے۔
اب اگر کوئی شخص اسی چیز کو مسلمانوں کے لیے زہر سمجھتا ہو اور اس بنا پر اس کی مخالفت کرے تو وہ ان کے نزدیک برطانیہ پرست کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی برطانیہ کی موت سے ہے اور جب یہ بات ان کے دل میں بیٹھ چکی ہے کہ ’’متَّحدہ قومیت‘‘ برطانیہ کے لیے مہلک ہے تو جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ’’برطانیہ پرست‘‘ کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔
خیریت یہ ہوگئی کہ کسی نے مولانا کو برطانیہ کی ہلاکت کا ایک دوسرا نسخہ نہ بتادیا جو متَّحدہ قومیت سے بھی زیادہ کارگر ہے، یعنی یہ کہ ہندوستان کی ۳۵کروڑ آبادی یک بارگی خودکشی کرلے جس سے برطانوی سلطنت آن کی آن میں ختم کی جاسکتی ہے۔ یہ تیر بہدف تدبیر اگر مولانا کے دل میں بیٹھ جاتی تو وہ بے تکلف فرماتے کہ جو شخص ہندوستان کے باشندوں کو خودکشی سے روکتا ہے، وہ برطانیہ پرست ہے۔ خودکشی اگرچہ ’’ملعون‘‘ اور ’’بدترین ‘‘ فعل سہی مگر جب کہ اس سے برطانیہ کی جڑ کھودی جاسکتی ہے تو فرض ہوجاتا ہے کہ اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا جائے۔ ایسی ہی باتوں سے یہ راز سمجھ میں آتا ہے کہ دین میں الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کو معیارِ حق کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اگر خدا کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے اور بجائے خود کوئی شے محبوب یا مبغوض بن جائے تو عصبیت ِ جاہلیہ کی سرحد شروع ہوجاتی ہے جس میں وہ تمام ذرائع و وسائل جائز کر لیے جاتے ہیں جن سے انسان کے جذبات محبت و عداوت کی تشفی ہوسکے، قطع نظر اس سے کہ وہ قانونِ الٰہی کے مطابق ہوں یا اس کے خلاف۔ اسی لیے کہنے والے نے کہا کہ ذاتی عداوت تو شیطان سے بھی نہ ہونی چاہیے۔ اس میں بھی خدا کا واسطہ بیچ میں رہنا ضروری ہے، ورنہ وہ خود ایک قانون بن جائے گی اور تم شیطان کی دشمنی میں خدا کے حدود توڑو گے، یعنی اپنے دشمن شیطان ہی کا کام کرو گے۔