اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب ، صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔{ مجلس قاسم العلوم دیوبند سے ملتا ہے۔
} ایک نامور عالمِ دین اور ہندوستان کی سب سے بڑی دینی درس گاہ کے صدر ہونے کی حیثیت سے مصنف کا جو مرتبہ ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں توقع تھی کہ اس رسالہ میں ’’قومیت‘‘ کے اہم اور نہایت پیچیدہ مسئلہ کی تنقیح و تحقیق خالص علمی طریقہ پر کی گئی ہوگی، اور اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر پوری طرح واضح کر دیا گیا ہوگا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اس رسالہ کو اپنی توقعات سے اور مصنف کی ذمہ دارانہ حیثیت سے بہت فروتر پایا۔ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں جاہلی تصورات نے ہر طرف سے اسلامی حقائق پر نرغہ کر رکھا ہے اور اسلام اپنے گھر ہی میں غریب ہورہا ہے۔ خود مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ خالص اسلامی نگاہ سے مسائل کو نہیں دیکھتے اور کمیِ علم کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے۔
پھر قومیّت کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس صاف اور واضح فہم و ادراک ہی پر ایک قوم کی زندگی کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی قومیت کے اساسیات ہی کو اجنبی اصول و مبادی میں خلط ملط کردے تو وہ قوم سرے سے قوم ہی نہیں رہ سکتی۔ ایسے نازک مسئلہ پر قلم اُٹھاتے ہوئے مولانا حسین احمد صاحب جیسے شخص کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہیے تھا ،اس لیے کہ وہ امانت ِ انبیاء ؑ کے امین ہیں اور جب اسلامی حقائق جاہلیت کے گردوغبار میں چھپ رہے ہوں تو یہ انھی جیسے لوگوں کا کام ہے کہ انھیں صاف اور منقح کرکے روشنی میں لائیں۔ ان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اس فتنہ کے دور میں ان کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی ذمہ داری سے زیادہ سخت ہے اور اگر مسلمان کسی گمراہی میں مبتلا ہوں تو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر وہی ماخوذ ہونے والے ہیں لیکن ہمیں پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا کا یہ رسالہ اس ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہے۔