"خلافت راشدہ ، جس کے امتیازی خصائص اور بنیادی اصول گزشتہ صفحات مٰیں بیان کیے گئے ہیں ، حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ تھی ، بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی ۔ یعنی اس کاکام صرف اتنا نہ تھا کہ ملک کا نظم ونسق چلائے ، امن قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے ، بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلم ، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی جو نبی ﷺ اپنی حیات طیبہ میں انجام دیا کرتے تھے ،او ر اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دین حق کے پورے نظام کو اس کی اصلی شکل وروح کے ساتھ چلائے ، اور دنیا میں مسلمانو ں کی پوری اجتماعی طاقت اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگا دے ۔ اس بنا پر یہ کہنا زیاد صحیح ہوگا کہ وہ صرف خلافت راشدہ ہی نہ تھی بلکہ خلافت مرشدہ بھی تھی ۔ خلافت علی منہج النبوۃ کے الفاظ اس کی انھی خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں ، اور دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اسلام میں اصل مطلوب اسی نوعیت کی ریاست ہے کہ محض ایک سیاسی حکومت۔ اب ہم اختصار کے ساتھ ان مراحل کا جائزہ لیں گے جن سے گزرتے ہوئے یہ خلافت آخر کار ملوکیت میں تبدیل ہوئی ، اور یہ بتائیں گے کہ اس تغیر نے مسلمانوں کی ریاست کو اسلام کے اصول حکمرانی سے کس قدر ہٹایا اور اس کے کیا اثرات مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر مترتب ہوئے۔