رسول اللہﷺ کو اپنے آخری زمانہ میں سب سے زیادہ خطرہ جس چیز کا تھا وہ یہی تھی کہ کہیں مسلمانوں میں جاہلی عصبیتیں پیدا نہ ہوجائیں اور ان کی بدولت اسلام کا قصرِ ملّت پارہ پارہ نہ ہوجائے، اسی لیے حضوؐر بار بار فرمایا کرتے تھے کہ:
لَا تَرْجِعُوْنَ بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (بخاری، کتاب الفتن)
’’کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم پھر کفر کی طرف پلٹ کر آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
اپنی زندگی کے آخری حج حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے تو عرفات کے خطبہ میں عام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا:
’’سن رکھو کہ اُمورِ جاہلیت میں سے ہر چیز آج میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ تم سب آدم کی اولاد سے ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ جاہلیت کے سب دعوے باطل کر دیئے گئے۔ اب تمھارے خون اور تمھاری عزتیں اور تمھارے اموال ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی حرام ہیں جیسے آج حج کا دن تمھارے اس مہینا، تمھارے اس شہر میں حرام ہے‘‘۔
پھر منیٰ میں تشریف لے گئے تواس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ اس تقریر کو دُہرایا اور اس پر یہ اضافہ کیا:
’’دیکھو میرے بعد پھر گمراہی کی طرف پلٹ کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگنا۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملنے والے ہو۔ وہاں تمھارے اعمال کی تم سے بازپُرس ہوگی۔ سنو! اگر کوئی نکٹا حبشی بھی تمھارا امیر بنا دیا جائے اور وہ تم کو کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا‘‘۔
یہ ارشاد فرما کر پوچھا کہ ’’کیا میں نے تم کو یہ پیغام پہنچا دیا؟‘‘
لوگوں نے کہا: ہاں یارسولؐ اللہ!
فرمایا: ’’اے خدا تو گواہ رہیو‘‘۔اور لوگوں سے کہا کہ ’’جو موجود ہے وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں‘‘۔
حج سے واپس ہوکر شہدائے اُحد کے مقام پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا:
’’مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے مگر ڈرتا اس سے ہوں کہ کہیں تم دنیا میں مبتلا نہ ہوجائو اور آپس میں لڑنے نہ لگو۔ اگر ایسا کرو گے تو ہلاک ہوجائو گے جس طرح پہلی اُمتیں ہلاک ہوچکی ہیں‘‘۔