یہ خلفاء اپنی ذات کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھتے تھے بلکہ قانون کی نگاہ میں اپنے آپ کو اور مملکت کے ایک عام شہری ( مسلمان ہو یا ذِمی ) کو مساوی قرار دیتے تھے ۔قاضیوں کو اگرچہ رئیس مملکت ہونے کی حیثیت سے وہی مقرر کرتے تھے ، مگر ایک شخص قاضی ہوجانے کے بعد خود ان کے خلاف فیصلہ دینے میں بھی ویسا ہی آزاد تھا جیسا کسی عام شہری کے معاملے میں ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ایک معاملے میں اختلاف ہوگیا ، اور دونوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ بٹھانا چاہا ، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ۔ پھر حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اپنا دعوی پیش کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعوے سے انکار کیا ۔قاعدے کے مطابق حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے قسم لینی چاہیے تھی، مگر انھوں نے ان سے قسم لینے میں تامل کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود قسم کھائی ، اور اس مجلس کےخاتمے پر کہا :”” زید قاضی ہونے کے قابل نہیں ہوسکتے جب تک عمر اور ایک عام مسلمان ان کے نزدیک برابر نہ ہو ۔”” [34] ایسا ہی معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یک عیسائی کے ساتھ پیش آیا جس کو انھوں نے کوفہ کے بازار میں اپنی گم شدہ زرہ بیجتے ہوئے دیکھا تھا ۔ انھوں نے امیر المومنین ہونے کی حیثیت سے اپنی زرہ اس سے چھین نہیں لی ، بلکہ قاضی کے پاس استغاثہ کیا ۔اور چونکہ وہ کوئی شہادت پیش نہ کرسکے ، اس لیے قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔[35] ابن خلکان کی روایت ہے کہ ایک مقدمے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک ذمی فریقین کی حیثیت سے قاضی شریح کی عدالت میں حاضر ہوئے ، قاضی نے اٹھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا ۔ اس پر انھوں نے فرمایا :”” یہ تمہاری پہلی بے انصافی ہے ۔””[36]