Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ ترتیب جدید
تمہید
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
حرمت سود
ایجابی پہلو
جدید بینکنگ
سُود کے متعلق اسلامی احکام
سود کے متعلقات
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
اصلاح کی عملی صورت
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
قولِ فیصل
مصادر ومراجع (Bibliography)

سود

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)

مجھ کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رائے سے جن جن امور میں اختلاف تھا، ان کا اظہار مختصر طور پر حواشی میں کر دیا گیا ہے لیکن جن اصولی مسائل پر مولانا نے اپنے استدلال کی بنا رکھی ہے ان پر روشنی ڈالنے کے لیے محض اشارات کافی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ مفصل تنقید لکھی جا رہی ہے۔ مولانا کے استدلال کی بنا حسب ذیل امور پر ہے:
مولانا کے دلائل کا خلاصہ
(۱) اُن کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف تحریم ربوٰ کا حکم بلکہ تمام عقود فاسدہ اور ناجائز معاشی وسائل کی ممانعت کے احکام بھی صرف ان معاملات سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہوں۔ بالفاظ دیگر غیر قوموں کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں، اُن میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں۔
(۲) اُن کے نزدیک شریعت نے تمام ان غیر مسلموں کو مباح الدَّم و الاموال قرار دیا ہے جو ذمی نہ ہوں‘ لہٰذا ایسے غیر مسلموں کا مال جس طریقے سے بھی لیا جائے، جائز ہے عام اس سے کہ وہ سود ہو، یا قمار ہو، یا ان کے ہاتھ شراب اور لحم خنزیر اور مردار فروخت کیا جائے یا اور دوسرے وہ طریقے اختیار کیے جائیں جنھیں اسلام نے ’’مسلمانوں کے معاملے میں‘‘ اختیار کرنے کو حرام ٹھیرایا ہے۔ مسلمان جس طرح بھی ان کا مال لیں گے‘ اس کی حیثیت مالِ غنیمت یا فَے کی ہوگی۔ اور وہ اُن کے لیے حلال و طیب ہے۔
(۳) اُن کی رائے میں ہر وہ ملک جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے دارالحرب ہے اور اس کے غیر مسلم باشندے حربی ہیں۔ وہ دارالکفر کو دارالحرب کا اور کافر غیر ذمی کو حربی کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک تمام وہ ممالک جن پر غیر اسلامی سلطنتیں قابض ہیں پورے معنوں میں دارالحرب ہیں اور وہاں علیٰ الدَّوام وہی احکام مسلمانوں پر جاری رہنے چاہییں جو دارالحرب کے متعلق کتب فقہیہ میں مذکور ہیں۔
(۴) دارالحرب کی جو تعریف فقہائے متقدمین نے کی ہے وہ مولانا کی رائے میں ہندوستان پر چسپاں ہوتی ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کی فقہی پوزیشن ان کی رائے میں ’’مستا ٔمن‘‘ کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان اس دارالحرب میں اس حیثیت سے رہتے ہیں کہ انھوں نے یہاں کی حربی سلطنت سے امان لی ہے۔
(۵) مستا ٔمن کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اس غیر اسلامی سلطنت کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا جس سے امان لے کر وہ اس کے ملک میں رہتا ہو۔ لہٰذا مولانا کی رائے میں ہندوستان کے مسلمانوں پر غیر اسلامی حکومت کے قانون کی اطاعت تو ایسی فرض ہے کہ اگر یک سرِ مُواُس سے انحراف کریں گے تو عذاب جہنم کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اسلام کے اکثر احکام اور قوانین کی اطاعت سے وہ با لکل آزاد ہیں، اس لیے کہ وہ دارالحرب میں مقیم ہیں۔ قتل ، غارت گری، چوری، ڈکیتی، رشوت ، ٹھگی اور ایسے ہی دوسرے ذرائع سے حربی کفار کو نقصان پہنچانا اور ان کا مال لینا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ ملکی قانون اس کو ناجائز کہتا ہے، نہ اس لیے کہ یہ افعال بجائے خوداسلامی شریعت میں حرام ہیں کیونکہ تمدن اور معیشت اور اخلاق کے بیشتر معاملات میں ہندوستان کے اندر اسلامی شریعت اس وقت تک منسوخ ہے جب تک یہاں غیر اسلامی حکومت قائم ہے۔ اب شریعت کے قوانین میں سے صرف قانونِ معاہدہ کا اطلاق یہاں کے مسلمانوں پر ہوتا ہے اور اس کی رو سے لین دین اور کسب مال کے جو ذرائع ملکی قانون میں ناجائز ہیں ان کو اختیار کرنا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شرعاً حرام ہے۔ بخلاف اس کے جن ذرائع کو شریعت نے حرام ٹھیرایا ہے اور ملکی قانون حلال ٹھیراتا ہے وہ سب کے سب قانوناً بھی حلال ہیں اور شرعاً بھی حلال ، نہ دنیا میں ان پر کوئی تعزیر، نہ آخرت میں کوئی مواخذہ۔
دلائل مذکورہ پر مجمل تبصرہ
میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ خود حنفی قانون بھی جس کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا نے یہ تمام تقریر فرمائی ہے‘ ان بیانات کی تائید نہیں کرتا۔ اس مضمون میں مولانا نے اسلامی قانون کی جو تصویر پیش کی ہے وہ صرف غلط ہی نہیں‘ بدنما بھی ہے۔ اس کو دیکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہرگز کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی ناواقف شخص اس تصویر کو دیکھے گا تو وہ اسلام کو دنیا کا بدترین مذہب اور مسلمانوں کو ایک نہایت خطرناک قوم سمجھے گا اور خدا کا شکر ادا کرے گا کہ غیر مسلم حکومت کے قانون نے ان ’’مستا ٔمنوں‘‘ کے ہاتھ سے دوسری قوموں کی جان و مال اور آبرو کو بچا رکھا ہے۔ دوسری طرف اگر شریعت کی اسی تعبیر کو قبول کر کے ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں زندگی بسر کرنا شروع کر دیں تو شاید پچاس برس کے اندر ان میں برائے نام بھی اسلام باقی نہ رہے بلکہ اگر خدا نہ کردہ کفار کے تسلط کے آغاز سے ہندوستان میں انھی اصولوں پر عمل درآمد کیا گیا ہوتا تو آج جو کچھ رہی سہی اسلامیت ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آتی ہے یہ بھی نہ ہوتی اور ڈیڑھ سو برس کے اندر ہندوستان کے مسلمان بالکل مسخ ہو چکے ہوتے … البتہ یہ ضرور ممکن تھا کہ ان کی جائیدادوں کا ایک حصہ محفوظ رہ جاتا اور ان میں بھی مار واڑیوں اور بنیوں اور سیٹھوں کا ایک طبقہ پیدا ہو جاتا۔
حاشا وکلاّ، میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مولانا نے بالقصد اسلام کی غلط نمائندگی کی ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ انھوں نے قانونِ اسلامی کو جیسا کچھ سمجھا ہے غایت درجہ دیانت اور نیک نیتی کے ساتھ ویسا ہی ظاہر فرما دیا ہے۔ مگر مجھے اعتراض دراصل ان کے مفہوم اور ان کی تعبیر ہی پر ہے۔ میں نے قانونِ اسلامی کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ خاص ان مسائل کی حد تک جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، مولانا نے شریعت کے اصول اور احکام کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا ہے۔ اس غلط فہمی کے دو وجوہ قرین قیاس ہیں۔
اولاً، ائمہ مجتہدین نے جس زمانے میں سلطنت اسلامی کے دستوری قانون (constitutional law) اور بین الاقوامی معاملات کے متعلق کتاب و سنت کی ہدایات اور خود اپنے اجتہاد سے یہ احکام مدوّن کیے تھے‘ اس زمانے میں فقہا کی حیثیت محض اصحاب درس و تدریس ہی کی نہ تھی بلکہ وہی سلطنت کے قانونی مشیر اور عدالتوں کے صدر نشین بھی تھے۔ رات دن اسلامی سلطنت میں نئے نئے دستوری اور بین الاقوامی مسائل پیش آتے تھے اور ان میں انھی بزرگوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ ہمسایہ قوموں سے جنگ و صلح کے معاملات ہوتے رہتے تھے۔ اسلامی سلطنتوں کی رعایا کے درمیان معاملات اور تعلقات کی گو ناگوں صورتیں پیش آتی تھیں اور ان سے جو قانونی مسائل پیدا ہوتے تھے ان کا تصفیہ کرنے والے یہی حضرات تھے۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں اور تجویزوں میں جو قانونی اصطلاحات و عبارات استعمال کرتے تھے، ان کے مفہومات کا تعین محض لفظی تشریحات پر منحصر نہ تھا بلکہ ان کی اصلی شرح وہ واقعی حالات تھے جن پر یہ اصطلاحات و عبارات منطبق ہوتی تھیں۔ پس اگر کسی اصطلاح یا عبارت میں کوئی ابہام رہ جاتا، یا ایک چیز کے مختلف مدارج پر ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی اور ظاہر الفاظ میں فرقِ مدارج پر دلالت کرنے والی کوئی چیز نہ ہوتی، یا ایک وسیع مفہوم پر ایک لفظ بولا جاتا اور صرف موقع و محل کے لحاظ سے اس کے مختلف مفہومات میں تمیز ہوتی، تو اس سے عملاً قانون کے انطباق اور استعمال میں کوئی قباحت واقع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا۔ نہ یہ اندیشہ تھا کہ کوئی قانون داں شخص کسی حکم کو محض الفاظ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے بالکل مختلف صورتِ حال پر چسپاں کر دے گا۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی قانون کی اصطلاحات اور مخصوص قانونی عبارات کی حیثیت رائج الوقت سکوں کی سی تھی۔ عملی دنیا میں ان کا چلن تھا۔ ان کے مفہومات کو سمجھنے اور ٹھیک موقع پر استعمال کرنے اور ہر ایک کی صحیح حد معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ ہر قانون داں شخص کو شب و روز ان حالات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دوچار ہونا پڑتا تھا جن میں یہ زبان برتی جاتی تھی۔
مگر اب ایک مدت سے وہ صورتِ حال مفقود ہے۔ دستوری مسائل اور بین الاقوامی معاملات سے بالفعل علما کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اسلامی سلطنتیں مٹ گئیں اور جو سلطنتیں باقی ہیں ان میں بھی یہ مسائل علمائے شریعت سے متعلق نہیں ہیں۔ عملی دنیا میں اسلامی قانون کی اصطلاحات و عبارات کا چلن بھی مدتوں سے بند ہو چکا ہے۔ اب یہ پرانے تاریخی سکے ہیں جن کی قیمت کا وہ حال نہیں کہ رواج کی وجہ سے بازار میں ہر آدمی کے لیے وہ ایک جانی پہچانی چیز ہو بلکہ ان کی پرانی قدرِ رائج … (market value) معلوم کرنے کے لیے پرانے ریکارڈوں کی چھان بین کرنا اور زمانۂ حال کے عملی برتاؤ پر قیاس کرکے اس زمانے کے واقعی حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک مسائل سیاسی و دستوری کا تعلق ہے فقہ اسلامی کے احکام کو سمجھنا، مسائل نکاح و وراثت وغیرہ کو سمجھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔ خصوصاً جہاں ہماری کتب فقہ میں عبارات مبہم رہ گئی ہیں یا اصطلاحات میں توسع پایا جاتا ہے وہاں علما کے لیے قانون کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی صحیح تعبیر کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا{ FR 2316 } ہے۔ کیونکہ اب ان کے صرف الفاظ ہی الفاظ رہ گئے ہیں، کتابوں کے متون بھی لفظی ہیں اور ان کی شروح بھی لفظی۔
دوسری وجہ جس کی طرف خود مولانا نے بھی اشارہ کر دیا ہے، یہ ہے کہ گزشتہ صدی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں پر جو معاشی تباہی مسلط ہوگئی ہے اور جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کروڑوں اور اربوں روپے کی جائیدادیں کوڑیوں کے مول نکلی ہیں اور جس طرح مسلمانوں کے بڑے بڑے خوش حال گھرانے روٹیوں کو محتاج ہوگئے ہیں، اس کو دیکھ دیکھ کر ہر درد مند مسلمان کی طرح مولانا کا دل بھی دُکھا ہے اور انھوں نے غایت درجہ دل سوزی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ شریعت میں اس مصیبت کا کوئی حل تلاش کریں۔ اس جذبے کے اثر سے اکثر مقامات پر ان کا قلم اعتدال اور فقیہانہ احتیاط سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ ہندوستان میں سود نہ لینا گناہ ہے یا یہ بیان کہ عقود فاسدہ کی ممانعت کے جملہ احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود ہیں۔ جہاں تک مسلمانانِ ہند کے موجودہ رُوح فرسا حالات کا تعلق ہے کون مسلمان ایسا ہوگا جس کا دل ان کو دیکھ کر نہ دُکھتا ہو۔ اور کون اس کا خواہش مند نہ ہوگا کہ ان مصائب سے مسلمان نجات پائیں۔ اس باب میں ہمارے اور ان کے درمیان ذرّہ برابر بھی اختلاف نہیں۔ مگر میں یہ ماننے سے قطعی انکار کرتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی تباہی کسی حیثیت سے بھی، بالواسطہ یا بلا واسطہ سود نہ کھانے کی وجہ سے ہے اور اس حالت کا بدلنا سود کی تحلیل پر موقوف ہے بلکہ میں یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ تحریم سود کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں بھی مسلمانوں کی معاشی ترقی میں مانع ہے جو شخص یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰو وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ پر ایمان رکھتا ہو اور جو اس ارشاد ربانی کو معاش اور معاد دونوں میں ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہو، اس کو کبھی اس قسم کے شبہات میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ اگر مولانا غور فرمائیں گے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ مسلمانوں کی معاشی تباہی کا اصلی سبب سود نہ کھانا نہیں ہے، بلکہ سود کھلانا اور ادائے زکوٰۃ سے جی چرانا اور اسلامی نظم معیشت کو بالکل معطل کر دینا ہے جن گناہوں کی سزا مسلمانوں کو مل رہی ہے وہ دراصل یہی ہیں۔ اگر وہ ان گناہوں پر قائم رہے اور اس پر سود خواری کا اضافہ اور ہوگیا تو ممکن ہے کہ چند افراد قوم پر مالی آماس چڑھ جائے اور اس سے چند سیدھے سادے مسلمان دھوکہ کھا جائیں لیکن درحقیقت اس سے بحیثیت مجموعی قوم کی معاشی حالت میں کوئی اصلاح نہ ہوگی اور دوسری طرف مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کی باہمی الفت و موانست اور ان کے تعاطف و تراحم اور تعاون و تناصر میں شدید انحطاط رونما ہوگا یہاں تک کہ ان کی قومیت مضمحل ہو جائے گی۔
آپ سود کا نام ’’پھاؤ‘‘ رکھ دیجیے یا اسے مائدۃ من السماء کہہ کر پکاریئے، اس کی حقیقت اور فطری خاصیت میں بال برابر بھی تغیر واقع نہ ہوگا۔ سود اپنی عین فطرت کے لحاظ سے زکوٰۃ کی ضد ہے اور اس نفسیاتی حقیقت میں کسی ملک کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی معاشی زندگی میں یہ دونوں جمع ہو جائیں۔ ایک وہ ذہنیت ہے جس کو روپیہ گننے اور گن گن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے بڑھانے اور اس کو بڑھوتری کا حساب لگانے میں مزا آتا ہے۔ دوسری وہ ذہنیت ہے جس کو قوتِ بازو سے کمانے اور کما کر کھانے اور کھلانے اور راہِ خدا پر لٹا دینے میں مزا آتا ہے۔ کیا کوئی عاقل یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ دونوں ذہنیتیں ایک ہی دل و دماغ میں جمع ہو سکیں گی؟ یا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمان کو سود پر روپیہ لگانے اور یوماً فیوماً اس کے نشوونما پر نظر رکھنے کا چسکا لگ جائے گا تو اس کے بعد بھی اس کی جیب سے زکوٰۃ و صدقات کے لیے ایک پیسہ نکل سکے گا؟ کیا اس کے بعد بھی کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قرضِ حسن دینا گوارا کرے گا؟ کیا اس کے بعد مسلمانوں کی حالت بھی اس قوم کی سی نہ ہو جائے گی جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَہِىَ كَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً { FR 2317 } (۝۰ البقرہ 74:2 ) اوروَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوۃٍ۝۰ۚۛ ؟ { FR 2318 } (البقرہ 96:2 ) چند قارون اور چند شاملاک پیدا کرنے کے لیے پوری قوم آخر کیوں خودکشی کرے؟ اور اس خودکشی کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا اور رسولؐ کے قانون کی غلط تاویل کیوں کی جائے؟ اور امام اعظم ابوحنیفہؒ النعمان جیسے بزرگ کو اس ذمہ داری میں کیوں شریک کیا جائے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو تیرہ سو برس سے نظامِ سرمایہ داری کی مخالفت پر قائم ہے اور جس نے عملاً اس فاسد نظام کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کو جو چیز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظامِ سرمایہ داری کی عداوت پر قائم رکھنے والی اور اس میں جذب ہونے سے بچانے والی ہے وہ زکوٰۃ کی فرضیت اور سود کی تحریم ہی ہے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اور نہلسٹ سب سرمایہ دار سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں، مگر جب تک یہ دوزبردست رکاوٹیں قائم ہیں، مسلمان کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام وہ قومیں نظام سرمایہ داری میں جذب ہوگئیں جن کے مذہب نے سود سے منع کیا تھا، مگر مسلمان تیرہ صدیوں سے اس کے مقابلے میں جما ہوا ہے۔ اب کہ خود دنیا والوں میں بھی بصارت پیدا ہو رہی ہے اور وہ اس نظام کو مٹانے کے لیے فوج در فوج جمع ہو رہے ہیں، یہ کیسی بدبختی ہوگی کہ مسلمان خود میدانِ مقابلہ سے ہٹ جائے اور اپنے ہاتھوں اپنے قلعے کے مستحکم برجوں کو مسمار کرکے نظامِ سرمایہ داری کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے لگے۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اصل قانونی بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کیا عقود فاسدہ صرف مسلمانوں کے درمیان ممنوع ہیں؟
مولانا کے پہلے دعوے کی بنا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کسب مال کے ناجائز ذرائع سے روکا گیا ہے وہاں ’’بینکم‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان آپس میں عقود فاسدہ پر معاملات نہ کیا کریں۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۝۰ۣ (النساء29:4 ) اب یہ ظاہر ہے کہ سود بھی کسب مال کے ناجائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہی ہے۔ لہٰذا قرآن میں اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو(البقرہ2: 275) جو فرمایا گیا ہے، یہ بھی اگرچہ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے عام حکم ہے، مگر جس اصل کی فرع ہے اس کے ساتھ بالتبع اس کو بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو مکحول نے نبیa سے روایت کی ہے کہ ’’لَارِبَا بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَ الْحَرْبِی‘‘{ FR 2460 } یعنی مسلم اور حربی کافر کے درمیان تفاضل کے ساتھ جو لین دین ہو اس پر لفظ ’’سود‘‘ کا اطلاق ہی نہ ہوگا۔ بالفاظ دیگر لا ربوٰ کے معنی یہ ہیں کہ غیر ذمی کافر سے جو سود لیا جائے وہ سود ہی نہیں۔ پھر وہ حرام کیسے ہوا؟
یہ مولانا کے استدلال کا خلاصہ ہے۔ اس میں پہلی اور بنیادی غلطی یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد سے قطع نظر کرکے صرف ظاہر الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کا عام اندازِ بیان یہ ہے کہ وہ اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنی ہدایتیں دیتا ہے ان میں صرف اہل ایمان کو مخاطب کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم آپس میں ایسا کیا کرو یا نہ کیا کرو۔ اس طرزِ بیان میں کچھ دوسری حکمتیں ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کے اندازِ بیان میں اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنے احکام اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں، اُن کو فقہائے اُمت میں سے کسی نے بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود قرار نہیں دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان جو افعال حرام ہیں مسلمان اور کافر کے درمیان وہی حلال یا مستحب ہیں۔ اگر ایسا ہو تو درحقیقت اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قانون تمدن کی جڑ ہی کٹ جائے۔ مثلاً:
ارشاد باری ہے: وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ (النحل94:16)کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ مسلمان صرف مسلمان سے جھوٹی قسم نہ کھائے؟ رہے غیر مسلم تو ان سے دروغ حلفی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں؟
فرمان الٰہی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ (انفال27:8 )کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان صرف ان امانتوں کی حفاظت کریں جو مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہوں؟ باقی رہی کافر کی امانت تو اس میں بے تکلف خیانت کر ڈالی جائے؟
پھر یہ جو فرمایا: فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۝۰ۭ (البقرہ283:2 )کیا اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ مسلمان کے بجائے کوئی کافر اگر کسی مسلمان پر بھروسہ کرکے بغیر لکھا پڑھی کیے اپنا کچھ مال اس کے پاس رکھوا دے تو وہ ’’پھاؤ‘‘ سمجھ کر اس کو کھا سکتا ہے؟
پھر یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ اور وَلَا يَاْبَ الشُّہَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا۝۰ۭ (البقرہ2: 282) اوروَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ َ (البقرہ2: 283) اور وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ۝۰۠ وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَہِيْدٌ۝۰ۥۭ (البقرہ 282:2 ) تو کیا یہ سب احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات ہی کے لیے ہیں؟ کیا کافر کے حق میں شہادت دینے سے انکار کرنا، یا سچی شہادت چھپا کر جھوٹی شہادت دینا یا دستاویز کے غیر مسلم کاتب یا گواہ کو خوفزدہ کرنا یہ سب جائز افعال ہیں؟
اس کے بعد یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ (النور19:24 ) تو کیا اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ غیر قوموں کے اندر فحش اور بدکاری پھیلانا مسلمان کے لیے جائز ہے؟
اور یہ جو فرمان ہوا اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰۠ ( النور23:24 ) تو کیا اس کی یہی تاویل کی جائے گی کہ کفار کی عورتوں پر جھوٹی تہمتیں دل کھول کر لگاؤ۔
اور یہ جو ارشاد ہوا کہ وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ (النور33:24 ) تو اس کو یہ معنی پہنائے جائیں گے کہ کافر عورتوں کو حرام کاری پر مجبور کرنا اور ان کی خرچی کھانا جائز ہے؟ کیا اس طرح کی تاویل کرکے کسی مسلمان کے لیے حلال ہوگا کہ پیرس میں سرکاری لائسنس لے کر ایک قحبہ خانہ کھول دے؟
پھر یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ۭ ( الحجرات 12:49 )تو کیا اس کی یہ تاویل ہوگی کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے؟ باقی رہا کافر تو اس کی غیبت کرنے میں کوئی برائی نہیں؟
اگر اسی اصول پر قرآن اور سنت کے احکام کی تاویل کی جائے اور مسلمان اسی کا اتباع شروع کر دیں تو اندازہ فرمایئے کہ یہ قوم کیا سے کیا بن کر رہے گی۔
بالفرض اگر بلا دلیل یہ مان لیا جائے کہ صرف لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرہ2: 188)ہی کا حکم مسلمانوں کے باہمی معاملات کے لیے مخصوص ہے اور یہ قاعدہ دوسرے احکام میں جاری نہ ہوگا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ذمی کافروں کو سودی لین دین سے کیوں روکا گیا؟ اور نبیa نے غیر مسلم جماعتوں سے اس قسم کے معاہدات کیوں کیے کہ وہ سودی کاروبار چھوڑ دیں ورنہ معاہدہ کالعدم ہو جائے گا؟ اور کتب فقہیہ میں یہ تصریح کیوں ہے کہ اگر کوئی حربی کافر دارالاسلام میں امان لے کر آئے تو اس سے بھی سود پر معاملہ کرنا حرام ہے؟
رہی حدیث لا ربوبین المسلم و الحربی تو اولاً اس میں لفظ حربی سے مراد محض غیر ذمی کافر نہیں بلکہ برسر جنگ قوم کافرد ہے جیسا کہ خود فقہائے حنفیہ کی تصریحات سے آگے چل کر ثابت کیا جائے گا۔
ثانیاً لا ربٰو کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حربی کافر سے جو سود لیا جائے گا وہ سود ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گو وہ صورۃ ً و حقیقتاً سود ہی ہے لیکن اس قانون میں حرمت سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے اور اس کی حیثیت ایسی ہوگئی ہے کہ گویا وہ سود نہیں ہے۔ ورنہ کسی سود کو یہ کہنا کہ وہ سود ہے ہی نہیں، اس قدر مہمل اور بے معنی بات ہے کہ نبی a کی طرف اسے منسوب کرنے کو میں گناہ سمجھتا ہوں۔ یہ بالکل ایک معقول بات ہے کہ کسی خاص حالت میں سود کو تعزیر اور حرمت سے مستثنیٰ کر دیا جائے، جس طرح خود قرآن نے اضطرار کی حالت میں مردار اور سور اور ایسی ہی دوسری حرام چیزیں کھا لینے کو مستثنیٰ کیا ہے لیکن یہ ایک نہایت غیر معقول بات ہے کہ سود کی حقیقت جوں کی توں باقی ہو اور ہم ایک جگہ اس کو رِبا کہیں اور دوسری جگہ سرے سے اس کے رِبا ہونے ہی سے انکار کر دیں۔ اس طرح تو دنیا کے ہر فعل حرام کو محض تغیر اسم سے حلال کیا جا سکتا ہے۔ جس خیانت کو جی چاہے کہہ دیجیے کہ یہ خیانت ہی نہیں۔ جس جھوٹ کو جائز کرنا ہو کہہ دیجیے کہ اس پر لفظ جھوٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ جس غیبت اور فحش اور حرام خوری کی طرف طبیعت مائل ہو، اس کا نام بدل کر سمجھ لیجیے کہ اس کی حقیقت بدل گئی۔ سرکار رسالت مآبa کا مرتبہ اس سے بہت بلند تھا کہ آپ اس قسم کے لفظی حیلے اپنی اُمت کو سکھاتے۔
ثالثاً اس حدیث میں جو حکم بیان ہوا ہے اس کی حیثیت محض ایک رخصت اور رعایت کی ہے، نہ یہ کہ اس کو مسلمانوں کا عام دستور العمل بنانا مقصود ہو … میں اس بحث کو بالکل غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے کیونکہ حدیثوں کے ردّو قبول میں فقیہ کے اُصول محدث کے اُصول سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ امام اعظمؒ اور امام محمدؒ جیسے آئمہ مجتہدین نے جس حدیث کو قابل استناد سمجھا ہو اس کو بالکل ناقابل اعتبار قرار دینا درست نہیں مگر اس مختصر اور غیر واضح اور مختلف فیہ{ FR 2319 } خبر واحد کو اتنا پھیلانا بھی درست نہیں کہ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ کی متفقہ شہادت ایک طرف ہو اور دوسری طرف یہ حدیث ہو اور پھر اس ایک حدیث کی تاویل ان سب کے مطابق کرنے کے بجائے، ان سب کو اس ایک حدیث پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن اور تمام احادیث صحیحہ میں مطلقاً ربوٰ کو حرام کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان نہ آپس میں اس کا لین دین کر سکتے ہیں نہ غیر قوموں کے ساتھ ایسا کاروبار کرنا ان کے لیے جائز ہے۔ نبیؐ نے اہل نجران سے جو معاہدہ کیا تھا اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف خود سودی لین دین سے پرہیز کریں گے بلکہ جن جن غیر مسلموں پر ان کا بس چلے گا ان کو بھی بَجَرَ اس فعل سے روک دیں گے۔ تحریم رِبا کے بعد ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ نبی کے علم و اجازت سے کسی مسلمان نے کسی ذمی یا غیر ذمی کافر کے ساتھ سودی معاملے کیا ہو۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی اور یہ بات صرف سود ہی پر موقوف نہیں ، عقود فاسدہ میں سے کوئی ایک عقد فاسد بھی ایسا نہیں جس کی تحریم کا حکم نازل ہو جانے کے بعد نبیؐ نے اس کے انعقاد کی کسی مسلمان کو اجازت دی ہو۔ نظری اور اصولی اہل حرب تو درکنار، جو لوگ عملاً برسر جنگ تھے، انھوں نے عین معرکۂ جنگ میں رسول اللہ ؐ سے ایک عقد فاسد پر معاملہ کرنا چاہا اور کافی رقم پیش کی مگر آپؐ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا۔{ FR 2320 } ایک طرف آیت قرآنی اور نبیؐ کے متعدد صریح و صحیح اقوال اور عہد نبوی کا ثابت شدہ عمل درآمد ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نہ صرف سود بلکہ تمام عقود فاسدہ مطلقاً ناجائز ہیں اور اس میں مسلم و غیر مسلم یا حربی یا ذمی کا کوئی امتیاز نہیں۔ دوسری طرف صرف ایک مرسل حدیث ہے جو ان سب کے خلاف حربی اور مسلم کے درمیان صرف سود کو حلال ثابت کر رہی ہے۔ آپ نے اس حدیث کو اتنی اہمیت دی کہ اس کی بنیاد پر نہ صرف سود کو بلکہ تمام عقود فاسدہ کو تمام غیر ذمی کفار کے ساتھ عمومیت کے ساتھ حلال کر ڈالا۔ مگر ہم اس کو صحیح تسلیم کرکے اس سے صرف اتنی اجازت نکالتے ہیں کہ جنگ کی اضطراری حالتوں میں اگر کوئی مسلمان دشمن سے سود لے لے یا کسی اور عقد فاسد پر معاملہ کر لے تو اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔
یہ محض ایک رخصت ہے اور ایسی رخصت ہے جس سے او لو العزم مسلمانوں نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسلامی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کسی حال میں بھی حرام کی کمائی لینے پر آمادہ نہ ہو۔ خصوصاً کفار اور دشمنوں کے مقابلے میں تو اس کو اپنے قومی اخلاق کی بلندی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ ظاہر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ مسلمان کی لڑائی دراصل تیرو تفنگ کی نہیں اصول اور اخلاق کی لڑائی ہے۔ اس کا مقصد زر و زمین حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ دنیا میں اپنے اصول پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر اس نے اپنے مکارم اخلاق ہی کو کھو دیا، اور خود ہی ان اصولوں کو قربان کر دیا جن کو پھیلانے کے لیے وہ کھڑا ہوا ہے تو پھر دوسری قوموں پر اس کی فوقیت ہی کیا باقی رہی؟ کس چیز کی بنا پر اس کو دوسروں پر فتح حاصل ہوگی اور کس طاقت سے وہ دلوں اور روحوں کو مسخر کر سکے گا؟
دارالحرب کی بحث
اب ہمیں دوسرے سوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دارالحرب اور دارالاسلام کے فرق کی بنیاد پر سود اور تمام عقود فاسدہ کے احکام میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اور اس بیان کی کیا اصلیت ہے کہ تمام غیر ذمی کافر مباح الدم و الاموال ہیں۔ اس لیے ہر ممکن طریقے سے ان کا مال لے لینا جائز ہے؟ اور اس تجویز کے لیے شریعت میں کیا گنجائش ہے کہ جس ملک پر کسی معنی میں اصطلاح دارالحرب کا اطلاق ہوتا ہو وہاں کے باشندوں پر دائماً وہ تمام احکام جاری ہونے چاہییں جو دارالحرب سے تعلق رکھتے ہیں؟
قانون اسلامی کے تین شعبے
اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ شریعت یعنی قانونِ اسلامی کے تین شعبے ہیں:
(۱) اعتقادی قانون جو علی الاطلاق تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔
(۲) دستوری قانون جس کا تعلق صرف سلطنت اسلامی سے ہے۔
(۳) بین الاقوامی قانون یا صحیح الفاظ میں تعلقات خارجیہ کا قانون جو مسلمانوں اور غیر قوموں کے تعلقات سے بحث کرتا ہے۔
ہماری کتب فقہیہ میں ان قوانین کو الگ الگ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ان کو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے‘ لیکن قرآن و حدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جن سے قدرتی طور پر اسلامی قوانین کا ارتقا تین الگ الگ راستوں پر ہوا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جس فقیہ اعظم کی قانونی بصیرت اور فقیہانہ دقیقہ سنجی نے سب سے بڑھ کر ان اشارات کو سمجھا اور ان کی بنا پر قانون کے ان تینوں شعبوں کی حدود میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کیا اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل میں اس امتیاز کو ملحوظ رکھا وہ امام ابوحنیفہ رحمہٗ اللہ تعالیٰ ہیں۔ فقہائے اسلام میں سے کوئی بھی اس معاملے میں ان کا ہمسر نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ امام ابویوسفؒ جیسے بالغ النظر فقیہ کی رسائی بھی اس مقام تک نہ ہو سکی۔ امام اعظم کے کمال کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ۱۲ سو سال پہلے انھوں نے قرآن اور سنت سے استنباط کرکے دستوری اور بین الاقوامی قوانین کے جو احکام مدوّن کیے تھے، آ ج تک دنیا کے قانونی افکار کا ارتقا ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ دراصل یہ ارتقا ہوا ہی ان خطوط پر ہے جو ۱۲ صدی قبل کوفہ کے ایک پارچہ فروش نے کھینچ دیے تھے۔ فقہ حنفی کی بہ نسبت جدید زمانے کے قوانین میں بظاہر جو ترقی نظر آتی ہے وہ کسی حد تک تمدنی احوال کے تغیر کا اور زیادہ تر بین الاقوامی معاہدات کا نتیجہ ہے۔ تاہم اصولی حیثیت سے جدید زمانے کے قوانین بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہیں اور ان کے مطالعے سے حنفی فقہ کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔
اِعتقادی قانون
اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو مِلتّوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔ اسلام کو ماننے والے سب کے سب اسلامی قومیت کے افراد ہیں اور اُخوتِ دینی کی بنا پر سب کو ایک دوسرے پر حقوق حاصل ہیں فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ { FR 2321 } (التوبہ11:9 ) مسلمان کی جان، اس کا مال اس کی عزت ہر چیز مسلمان کے لیے حرام ہے۔ إِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَ أَعْرَضْکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ{ FR 2322 } اسلام کے جملہ احکام کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بستا ہو۔ جو کچھ فرض کیا گیا ہے وہ سب کے لیے فرض ہے، جو کچھ حلال کیا گیا ہے سب کے لیے حلال ہے اور جو کچھ حرام ٹھیرایا گیا ہے سب کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ جملہ احکام کے مخاطب الذین امنوا ہیں، کسی حال اور مقام کی قید اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت{ FR 2323 } کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے۔ الایہ کہ اس پر صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت عارض ہو جائے۔ پس اسلام اور کفر اور مسلم اور کافر کے درمیان صلح اصل نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے۔ مگر یہ جنگ بالفعل نہیں بِالقوّہ ہے، عملی نہیں نظری اور اصولی ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ہم میں اور ان میں حقیقی و دائمی صلح اور دوستی نہیں ہو سکتی۔ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ ( الممتحنہ60:4 ) { FR 2324 }
اس مضمون کو نبی a نے ایک مختصر حدیث میں بتمام و کمال بیان فرما دیا ہے:
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَنْ یَّسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنْ یَّاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنْ یُّصَلّوْا صَلٰوتَنَا فإِذًا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حرْمَتْ عَلَیْنَا دِمَاؤُہُمْ وَاَمْوَالُہُمْ اِلاَّ بحقِّہَا لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔{ FR 2461 }
مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو ہمارے اوپر ان کے خون اور ان کے اموال حرام ہو جائیں گے بجز اس کے کہ کسی حق کے بدلے میں ان کو لیا جائے۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر فرائض وہی عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہیں۔
اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے، مگر یہ جنگ محض نظری (theoretical) ہے۔ ہر کافر حربی (enemy) ہے، مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے ہمارے اور اس کے درمیان بنائے نزاع قائم ہے۔ ہر دارالکفر محلِ حرب ہے یا بالفاظِ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلافِ قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدئہ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمت عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق و واجبات اور جنگ و صلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔
دستوری قانون
دستوری قانون کی رو سے اسلام دنیا کو دو حصوں پر تقسیم کرتا ہے۔ ایک دارالاسلام۔ دوسرے دارالکفر۔ دارالاسلام وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور اس حکومت میں اسلامی قانون بالفعل نافذ ہو، یا حکمرانوں میں اتنی قوت ہو کہ اس قانون کو نافذ کر سکیں۔{ FR 2325 } اس کے مقابلے میں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں اور اسلامی قانون نافذ نہیں وہ دارالکفر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تمام وہ ممالک جن میں انگریزی حکومت ہے انگریزی علاقہ کہلائیں گے اور جو علاقے ان حدود سے باہر ہوں گے ان کو علاقہ غیر کہا جائے گا۔ اسلامی حکومت اسلام کے احکام کو صرف ان لوگوں پر نافذ کر سکتی ہے جو اس کے اپنے حدودِ عمل (jurisdiction) میں رہتے ہوں۔ اسی طرح وہ صرف انھی اموال اور اعراض اور نفوس کی حفاظت کر سکتی ہے جو اس کے اپنے حدودِ اختیار یا علاقۂ مقبوضہ (territory) میں واقع ہوں۔ ان حدود کے باہر کسی چیز کی حفاظت کی وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
اس قانون کے لحاظ سے ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’معصوم (protected)‘‘ ہے جو دارالاسلام میں اسلامی حکومت کی حفاظت کے اندر واقع ہو، عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ اور ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’غیر معصوم‘‘ ہے جو دارالکفر میں ہو اور جس کی محافظ اسلامی حکومت نہ ہو، عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ غیر معصوم ہونے کا مآل صرف اس قدر ہے کہ اگر اس کی جان و مال یا عزت پر کسی قسم کا حملہ کیا جائے تو اسلامی حکومت اس پر کوئی مؤاخذہ نہ کرے گی، کیونکہ یہ فعل اس کے حدودِ عمل سے باہر واقع ہوا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ خدا کے نزدیک وہ فعل گناہ ہو یا نہ ہو اور خدا کے ہاں اس پر مواخذہ ہو یا نہ ہو۔ پس کسی چیز کا غیر معصوم ہونا اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ مباح بھی ہے، نہ اس کی عدم عصمت کو اس معنی میں لیا جا سکتا ہے کہ اسے نقصان پہنچانا یا اس پر قبضہ کر لینا عند اللہ بھی جائز اور حلال ہے۔ اسی طرح دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے اگر کسی ایسے فعل کو جائز ٹھیرایا جائے جس کا ارتکاب دارالکفر میں کیا گیا ہو تو اس کا مفہوم صرف اس قدر ہوگا کہ اسلامی حکومت کو اس سے کوئی تعرض نہیں، وہ اس پر کوئی سزا نہیں دے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعل حرام پر خدا کے ہاں بھی کوئی گرفت نہ ہوگی۔
یہاں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کے حدود الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ اعتقادی قانون جس مسلمان کو بھائی کہتا ہے اور جس کی جان و مال کو حرام ٹھیراتا ہے وہ دستوری قانون کی نگاہ میں غیر معصوم ہے، اس لیے کہ وہ سلطنت اسلامی کے حدودِ اختیار سے باہر رہتا ہے اور جس کافر کو اعتقادی قانون دشمن قرار دیتا ہے دستوری قانون اسے معصوم ٹھیراتا ہے صرف اس بنا پر کہ وہ اسلامی سلطنت کی حفاظت میں آ گیا ہے۔ جس فعل کو اعتقادی قانون سخت گناہ اور جرم ٹھیراتا ہے، دستوری قانون اس پر کوئی گرفت نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے حدود عمل سے باہر ہوا ہے۔ دونو ںمیں کھلا ہوا فرق یہ ہے کہ اعتقادی قانون کا تعلق آخرت سے ہے اور دستوری قانون کا تعلق صرف دنیا اور اس کے معاملات سے‘ لیکن امام ابوحنیفہؒ کے سوا تمام فقہا نے کم و بیش ان دونوں میں خلط ملط کیا ہے اور وہ ان کے حدود میں پوری طرح تمیز نہیں کر سکے ہیں۔
چند مثالوں سے ہم اس پیچیدہ مسئلے کی توضیح کریں گے۔
(۱) فرض کیجیے کہ ایک مسلمان تاجر امان لے کر دارالحرب میں جاتا ہے اور وہاں سے کچھ مال چرا لاتا ہے۔ یہ فعل اعتقادی قانون اور بین الاقوامی قانون کی رو سے حرام ہے کیونکہ اس شخص نے عہد شکنی کی ہے۔ لیکن دستوری قانون اس شخص کو اس مال کا جائز مالک قرار دیتا ہے اور اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتا۔{ FR 2462 }
(۲) فرض کیجیے کہ دارالاسلام کی رعایا کا ایک شخص دارالحرب میں قید تھا۔ وہ وہاں قید سے چھوٹ گیا یا چھوڑ دیا گیا۔ اب وہ وہاں خواہ چوری کرے، شراب پیے، زنا کرے، سب کچھ دستوری قانون کی رو سے ناقابل مواخذہ ہے{ FR 2463 } یعنی اسلامی حکومت اس پر نہ اس کا ہاتھ کاٹے گی، نہ حد زنا و شراب جاری کرے گی نہ قصاص{ FR 2326 } لے گی۔ مگر اعتقادی قانون کی رو سے وہ خدا کے ہاں گنہگار ہوگا۔
(فرض کیجیے کہ ایک شخص دارالحرب میں مسلمان ہوا اور وہاں سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں نہیں آیا۔ اعتقادی قانون کی رو سے وہ مسلمان کا بھائی ہو چکا ہے۔ اس کا خون اور مال حرام ہو چکا ہے۔ مگر دستوری قانون کی رو سے وہ چونکہ اسلامی سلطنت کے حدودِ عمل سے باہر ہے اس لیے اس کی کوئی چیز معصوم نہیں۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو دشمن سلطنت کی رعایا کی ہے۔ اگر کوئی مسلمان دارالاسلام کے حدود سے باہر اس کو قتل کر دے تو اسلامی عدالت نہ اس پر قصاص لے گی نہ خوں بہا دلوائے گی … بطور خود وہ کفارہ ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اس سے سود لے یا اس کے مال پر کسی دوسرے ناجائز طریقے سے قبضہ کر لے تو دستوری قانون کی رو سے یہ ناقابل گرفت ہے کیونکہ اس کا مال غیر معصوم ہے۔ اس باب میں فقہا کی تصریحات نہایت معنی خیز ہیں:
وَإِذْ اَسْلَمَ رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ الْحَرْبِ فَقَتَلَہٗ رَجُلٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَبْلَ اَنْ یَّخْرُجَ اِلٰی دَارالإِسْلاَمِ خَطَائً فَعَلَیْہِ الْکَفَّاَرۃُ وَلاَدِیَۃَ عَلَیْہِ وَ فِی الإِمْلاءِ عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ اَیْضًا لِاَنَّ وُجُوْبَہَا بِاِعْتِبَارِ تَقَوّمِ الدَّمِ لابِاعْتِبَارِ حُرْمَۃِ الْقَتْلِ … وَتَقَّوُّمُ الدَّمِ یَکُونَ بِالْإِ حْرَازِ بِدَارِ الإِسْلَامِ۔{ FR 2464 }
اگر اہل حرب میں سے کوئی شخص مسلمان ہو چکا ہو اور قبل اس کے کہ وہ ہجرت کرکے دارالاسلام میں آئے، کسی مسلمان نے اسے بلا ارادہ قتل کر دیا تو اس پر کفارہ ہے مگر خوں بہا واجب نہیں اور ابوحنیفہ رحمہٗ اللہ سے املاء میں یہ مسئلہ منقول ہے کہ اس پر کفارہ بھی نہیں ہے کیونکہ کفارے کا وجوب خون کے با قیمت ہو جانے کے اعتبار سے ہے نہ کہ حرمت قتل کے اعتبار سے … اور خون صرف اس وقت با قیمت ہوتا ہے جب کہ وہ دارالاسلام کی حفاظت میں آ چکا ہو۔
وَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا قَدَّمْنَا اَنَّہٗ لَا قِیْمَۃَ لِدَمِ الْمُقِیْمِ فِیْ دَارِالْحَرْبِ بَعْدَ اِسْلَامِہٖ قَبْلَ الْھِجْرَۃَ اِلَیْنَا … أَجْرَوْہُ أَصْحَابُنَا مُجْرَی الحَرْبیِّ فِیْ اِسْقَاطِ الضَّمَانِ عَنْ مُتْلِفِ مَالِہٖ … وَاَنْ یَّکُوْنَ مَا لُہ کَمالِ الْحَرْبِیّ مِنْ ہٰذا الْوَجْہِ وَلِذٰلِکَ اَجَازَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ مُبَایَعَتَہُ عَلٰی سَبِیْلِ مَا یَجُوْز مُبَایَعَۃَ الْحَرْبِیِّ مِنْ بَیْعِ الدِّرْھَمِ بالدِّرْہَمَیْنِ فِی دَارِالْحَرْبِ۔ { FR 2465 }
اور جب ہماری پچھلی تقریر سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو شخص مسلمان ہو کر ہجرت نہ کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔{ FR 2327 }… تو اسی بنا پر ہمارے اصحاب (حنفیہ) نے ایسے مسلمان کی حیثیت حربی ہی کی قرار دی ہے یعنی اس کے مال کو تلف کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں … اس حیثیت سے اس کا مال گویا حربی کا مال ہے اور اس بنا پر ابوحنیفہ نے اس کے ساتھ بھی اسی طرح خریدوفروخت کرنا جائز ٹھیرایا ہے جس طرح حربی کے ساتھ جائز ہے۔ یعنی دارالحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا۔
وَقَالَ الْحَسَنُ بنُ صَالِحٍ إِذَا أسْلَمَ الْحَرْبِیّ فَأَقَامَ بِبَلَادِھُمْ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلٰی الْخُرُوْجِ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ یُحْکَمُ فِیِہِ یُحْکُمْ عَلٰی أھْلِ الْحَرْبِ فِی مَالِہِ وَنَفْسِہِ۔{ FR 2466 }
حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب دارالحرب کا ایک باشندہ مسلمان ہونے کے بعد دارالحرب ہی میں رہا۔ در آنحالیکہ وہ ہجرت کی قدرت رکھتا تھا تو اس کی حیثیت مسلمان کی نہیں۔{ FR 2328 } اس کی جان و مال کا وہی حکم ہے جو اہل حرب کی جان و مال کا ہے۔
وَاِذَا اَسْلَمَ الْحَرْبِیُ فِیْ دَارِالْحَرْبِ فَقَتَلَہٗ مُسْلِمٌ عَمْدًا اَوْخَطَأً وَلَہٗ وَرَثَۃُ مُسْلِمُوْنَ ہُنَاک فلَاَ شَیْئٍ عَلَیْہِ اِلاَّ الْکُفَّارَۃِ فِی الْخَطَائِ۔ { FR 2467 }
جب کوئی حربی دارالحرب میں مسلمان ہو چکا ہو اور کوئی مسلمان اسے عمداً یا خطائً قتل کر دے اور اس کے مسلمان ورثا بھی دارالحرب میں موجود ہوں تو اس پر کوئی قصاص یا دیت نہیں ہے۔ خطا کی صورت میں محض کفارہ ادا کر دے۔
وَحُکْمُ مَنْ اَسْلَمَ فِیْ دَارِالْحَرْبِ وَلَمْ یُہَاجِرْ کَالْحَرَبِیّ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ لِاَنَّ مَالَہٗ غَیْرُ مَعْصُوْمٍ عِنْدَہُ۔ { FR 2468 }
اور جو شخص دارالحرب میں مسلمان ہو اور ہجرت نہ کرے اس کی حیثیت ابوحنیفہؒ کے نزدیک حربی کی ہے کیونکہ اس کا مال ان کی رائے میں غیر معصوم ہے۔
(۴) فرض کرو کہ ایک مسلمان امان لے کر دارالحرب میں گیا اور وہاں اس نے کسی حربی سے قرض لیا یا اس کا مال غصب کر لیا۔ پھر وہ دارالاسلام واپس آ گیا اور وہ حربی بھی دارالاسلام میں امان لے کر آیا۔ یہاں وہ حربی مستامن اس قرض یا اس مال مغصوبہ کے لیے دارالاسلام کی عدالت میں دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اسلامی عدالت اس کو ایک پیسہ واپس نہ دلائے گی۔ اسی طرح اگر دارالحرب میں حربی نے مسلمان کا قرض مار لیا ہو اس کا مال غصب کر لیا ہو، پھر وہ حربی امان لے کر دارالاسلام میں آئے تب بھی اسلامی عدالت اس حربی کے خلاف اس مسلمان کی کوئی داد رسی نہ کرے گی … { FR 2469 }
(۵) اگر باپ دارالاسلام میں ہو اور اس کی نابالغ اولاد دارالحرب میں ہو تو اس اولاد پر سے باپ کی ولایت ساقط ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر مال کا مالک دار الاسلام میں ہو اور مال دارالحرب میں ہو تو مالک کی جان معصوم ہوگی مگر مال معصوم نہ ہوگا۔ { FR 2470 }
(۶) دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان امان لے کر دارالحرب میں چلے گئے اور وہاں ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اگر قاتل دارالاسلام میں واپس آئے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا۔ صاحب ہدایہ نے اس کی جو وجہ بیان کی ہے وہ قابل غور ہے:
وَاِنَّمَا لَا یَجِبُ الْقِصَاصُ لِاَنَّہٗ لَا یُمْکُنُ اِسْتِیْفَائِ ہٗ اِلَّا بِمَنْعَۃٍ وَلاَ مَنْعَہٗ دُوْنَ الْاِمَامِ وَجَمَاعَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَمْ یُوْجَ دُ ذٰلِکَ فِیْ دَارِالْحَرْبِ۔{ FR 2471 }
اس پر قصاص اس لیے واجب نہیں کہ قصاص بغیر حفاظت (protection) کے واجب نہیں آتا اور حفاظت بغیر امام اور جماعت مسلمین کے نہیں ہوتی۔ اور یہ چیز دارالحرب میں موجود نہیں ہے۔
(۷) دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان دارالحرب میں قید تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ یا کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب گیا اور وہاں اس نے کسی مسلمان اسیر کو قتل کر دیا۔ دونوں صورتوں میں قاتل پر نہ قصاص ہے نہ خون بہا۔ علامہ ابن ہمامؒ نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز ہے۔ فرماتے ہیں:
فَلاَ شَیْئَ علی القَاتِلِ مِنْ اَحْکَامِ الدُّنْیَا اِلاَّ الْکَفَّارَۃَ فِی الْخَطَائِ عِنْدَ اِبْی حَنِیْفَۃَ وَاِنَّمَا عَلَیْہِ عِقَابُ الْاٰخِرَۃِ فِی الْعَمَدِ …أَنَّ بِالأَسْرِ صَارَ تَبعًا لَہُمْ … وَصَارَ کَالْمُسْلِمِ الَّذِیْ لَمْ یُہَاجِرُ اِلَیْنَا فِیْ سُقُوطِ عِصْمَتِہِ الدُّنْیَوَیَّۃِ۔ { FR 2472 }
ابو حنیفہؒ کے نزدیک قاتل پر احکام دنیا میں سے کچھ نہیں بجز اس کے کہ وہ خطا کی صورت میں کفارہ ادا کر دے۔ رہا قتل عمد (تو اس پر کفارہ بھی نہیں، البتہ آخرت کا عذاب ہے … قصاص اور دیت کے ساقط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قید ہونے کی وجہ سے وہ اہل حرب کا تابع ہوگیا … اور اس کی حیثیت اس مسلمان کی سی ہوگئی جس نے ہماری طرف ہجرت نہ کی ہو اور اس حیثیت سے اس کی دنیوی عصمت ساقط ہوگئی۔
دیکھیے ان مثالوں میں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کا فرق کس قدر نمایاں ہے۔ اعتقادی قانون مسلمانوں کو ایک قوم اور کفار کو دوسری قوم قرار دیتا ہے اور اس کا اقتضا یہ ہے کہ مسلمان کی جان، مال اور عزت کو کافر کی جان و مال اور عزت پر ترجیح دی جائے لیکن دستوری قانون اس عالمگیر تقسیم کے بجائے اپنے حدود عمل (Jurisdiction) کو حدود ارضی (territorial limits) تک محدود کرتا ہے۔ سلطنت اسلامیہ کے حدود میں جو جان ہے، جو مال ہے جو شے ہے وہ ’’معصوم‘‘ ہے، خواہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی، کیونکہ سلطنت کا قانون اس کی حفاظت کا ذمہ لے چکا ہے اور ان حدود کے باہر جو چیز ہے ’’غیر معصوم‘‘ ہے، خواہ وہ مسلم کی ہو یا کافر کی۔ اسلامی حدود کے اندر کوئی چوری کرے گا تو ہم ہاتھ کاٹیں گے، قتل کرے گا تو ہم قصاص یا دیت وصول کریں گے، ناجائز ذرائع سے مال لے گا تو واپس دلائیں گے۔ اور ان حدود کے باہر کوئی مسلمان یا ذمی ایسا فعل کرے جو ہمارے قانون کی رو سے جرم ہو تو ہم نہ علاقہ غیر میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتے ہیں نہ اپنے علاقے میں واپس آنے کے بعد، اس لیے کہ فعل ان حدود میں ہوا ہے جہاں قیام امن اور حفاظت جان و مال کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی حیثیت سے ہے۔ حدودِ اسلامی سے باہر جو گناہ کیا جائے گا وہ دنیوی حکومت کے حدود و عمل سے باہر ہونے کے باعث صرف دنیوی مواخذے سے چھوٹ جائے گا۔ البتہ اللہ کے مواخذے سے نہ چھوٹے گا، کیونکہ اللہ کی عمل داری حدود ارضی سے نا آشنا (ultra territorial) ہے، اس نے جو کچھ حرام ٹھیرایا ہے وہ ہر جگہ حرام ہے۔
یہ امام ابوحنیفہؒ کا من گھڑت قانون نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہی قرآن جو ایک طرف فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ (التوبہ11:9) اوروَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا (النسائ 93:4 ) کہتا ہے، دوسری طرف وہی قرآن حدود اسلامی کے اندر رہنے والے مسلمان اور علاقہ غیر میں رہنے والے مسلمان کے خون میں فرق بھی کرتا ہے۔ اول الذکر کو دانستہ قتل کرنے والے پر کفارہ بھی ہے اور دیت بھی … اور موخر الذکر کے قاتل پر صرف کفارہ { FR 2329 }ہے۔
نبیؐ اسامہ بن زیدؓ کو ایک سریہ کا افسر بنا کر حرقات کی طرف بھیجتے ہیں۔ وہاں ایک شخص لا الٰہ الا اللّٰہ کہہ کر جان بچانا چاہتا ہے۔ مگر مسلمان اس کو قتل کر دیتے ہیں۔ حضورؐ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے تو اسامہؓ کو بلا کر آپ بار بار فرماتے ہیں: مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ قیامت کے روز تجھے لا الٰہ الا اللّٰہ کے مقابلے میں کون بچائے گا۔‘‘{ FR 2473 } مگر اس مقتول کی دیت ادا کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر حدود اسلامی سے باہر رہنے والے چند مسلمان مارے جاتے ہیں تو حضورؐ فرماتے ہیں ’’انا بری من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین‘‘ { FR 2474 }میں ہر ایسے مسلمان کی حفاظت سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ خود قرآن میں بھی ایسے مسلمان کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیا گیا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ ﴾ (الانفال72:8)
اور جو لوگ ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آ گئے ان سے تمھارا ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آ جائیں۔{ FR 2332 }
اس طرح قرآن اور حدیث نے خود ہی دنیوی عصمت کو دینی عصمت سے الگ کر دیا ہے اور دونوں کے حدود بتا دیے ہیں۔ تمام فقہائے اسلام میں صرف امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے فقیہ ہیں جنھوں نے اس نازک اور پیچیدہ قانونی مسئلے کو ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے۔ امام ابویوسفؒ، امام محمد امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدر مجتہدین بھی ان دونوں قسم کی عصمتوں میں پوری پوری تمیز نہیں کر سکے۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر دارالکفر میں اسلامی رعایا کا ایک فرد دوسرے کو قتل کر دے تو یہ سب حضرات بالاتفاق فرماتے ہیں کہ قاتل سے قصاص لیا جائے گا کیونکہ اس نے ایک شخص کو قتل کیا جو ’’معصوم بالاسلام‘‘ تھا۔{ FR 2333 } پس جب اتنے بڑے بڑے ائمہ اس مسئلے میں مختلط ہوگئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ فقہ حنفی کے متا ٔخر شارحین کو بھی امام ابوحنیفہؒ کی بات سمجھنے میں یہی خلط پیش آیا ہو۔
دارالحرب اور دارالکفر کا اصطلاحی فرق
امام اعظم کے متعلق ہم کو تحقیق ہے کہ اوپر جتنے مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں اور اسی قبیل کے دوسرے مسائل میں انھوں نے دارالحرب کے بجائے ’’دارالکفر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، کیونکہ دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے دارالاسلام کا مقابل دارالکفر بمعنی علاقہ غیر (foreign territory) ہی ہو سکتا ہے، حرب اور غیر حرب کا اس میں کوئی دخل نہیں جو ممالک اسلامی سلطنت سے صلح رکھتے ہوں وہ بھی دارالکفر ہیں اور ان سے بھی وہ سب احکام متعلق ہیں جو اوپر بیان ہوئے‘ لیکن چونکہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جتنے دارالکفر اسلامی سلطنت سے متصل تھے وہ عموماً دارالحرب ہی رہتے تھے۔ اس لیے بعد کے فقہا نے دارالکفر کو بالکل دارالحرب کا ہم معنی سمجھ لیا اور ان دونوں اصطلا حوں کے باریک قانونی فروق کو نظر انداز کر گئے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے کلام میں ہم کو کسی جگہ کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ ’’غیر معصوم‘‘ کو ’’مباح‘‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔ وہ حدود اسلام سے باہر کی اشیا کو ’’غیر معصوم‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں اور ایسی اشیا پر دست درازی کرنے والے کے لیے صرف اتنا کہتے ہیں لا شیء علیہ یا لم یقض علیہ وغیرہ۔ یعنی اس پر کوئی گرفت نہیں، یا اس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ صادر نہ کیا جائے گا لیکن بعد کے فقہا نے اکثر مقامات پر ’’عدم عصمت‘‘ اور ’’اباحت‘‘ کو خلط ملط کر دیا جس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ حدودِ اسلامی سے باہر جتنے ممنوع افعال کیے جائیں ان پر جس طرح حکومت اسلامی باز پرس نہیں کرے گی۔ اسی طرح خدا بھی باز پرس نہیں کرے گا۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ آپ ہندوستان میں کسی کا مال چرا لیجیے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان کی عدالت میں آپ پر مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔ دارالاسلام کے قانون کی رو سے آپ بری الذمہ ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی کب ہیں کہ خدا کی عدالت سے بھی آپ چھوٹ گئے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتب فقہ میں دا رالحرب کے اندر سود اور قمار اور دوسرے عقود فاسدہ کی اباحت کا جو مسئلہ اس بنا پر لکھا گیا ہے کہ حربی کے لیے کوئی ’’عصمت‘‘ (protection) نہیں تو اس کے دو پہلو ہیں:۔
ایک یہ کہ دارالحرب سے مراد محض ’’علاقہ غیر‘‘ ہو۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ دستوری قانون سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہے کہ ’’حربی‘‘ (بمعنی رعیت غیر) کے مال کی حفاظت کا ذمہ چونکہ ہم نے نہیں لیا ہے اس لیے ہمارے حدودِ عمل سے باہر ہماری سلطنت کا کوئی شہری اگر اس سے سود لے کر یا جوا کھیل کر یا کسی اور ناجائز ذریعے سے مال لے کر ہمارے علاقے میں آ جائے تو ہم اس پر کوئی مقدمہ قائم نہ کریں گے، قطع نظر اس سے کہ دین واعتقاد کے نقطۂ نظر سے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ دارالحرب سے مراد وہ ملک لیا جائے جس سے بالفعل ہماری جنگ برپا ہو یعنی (دشمن ملک) (enemy country)۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ تعلقاتِ خارجیہ کے قانون سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہم آگے بیان کرتے ہیں۔
تعلقات خارجیہ کا قانون
اسلامی قانون کا یہ شعبہ ان لوگوں کے جان و مال کی قانونی حیثیات سے بحث کرتا ہے جو اسلامی حکومت کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے چند امور کی توضیح ضروری ہے۔
فقہی اصطلاح میں لفظ ’’دار‘‘ قریب قریب انھی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جن میں انگریزی لفظ (territory) بولا جاتا ہے۔ جن حدود ارضی میں مسلمانوں کو حقوق شاہی حاصل ہوں وہ ’’دارالاسلام ہیں اور جو علاقہ ان حدود سے خارج ہو وہ ’’دارالکفر یا دارالحرب ‘‘ ہے۔ تعلقات خارجیہ کا قانون تمام تر انھی مسائل سے بحث کرتا ہے جو اس ارضی تفریق یا اختلافِ دارین سے نفوس اور اموال کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں اعتقادی حیثیت سے تو تمام مسلمان اسلامی قومیت کے افراد (national) ہیں لیکن اس شعبۂ قانون کی اغراض کے لیے ان کو تین اقسام پر منقسم کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دارالاسلام کی رعایا (citizens) ہوں۔ دوسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں، تیسرے وہ جو رعایا تو دارالاسلام ہی کی ہوں مگر مستا ٔمن کی حیثیت سے عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں جائیں اور مقیم ہوں۔ ان سب کے حقوق اور واجبات الگ الگ متعین کیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کفار اگرچہ سب کے سب اعتقاداً اسلامی قومیت سے خارج ہیں مگر قانوناً ان کو بھی ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد اقسام پر منقسم کیا گیا ہے ایک وہ جو پیدائشی ذمی (natural born subjects) ہوں یا وضع جزیہ و خراج کے ذریعے سے جن کو ذمی بنا لیا گیا ہو (naturalised subjects) دوسرے وہ جو دارالاسلام کی رعایا نہ ہوں بلکہ مستامن کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں اور رہیں (domiciled aliens) تیسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں اور امان کے بغیر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں۔ چوتھے وہ جو اپنے ہی دار میں ہوں۔ پھر اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہیں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو چوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔
اس طرح حدود ارضی یعنی دار (territory) کے لحاظ سے اشخاص اور املاک کی حیثیات میں جو فرق ہوتا ہے اور اس فرق کے لحاظ سے ان کے درمیان احکام میں جو تمیز کی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھنا قانونِ اسلامی کی صحیح تعبیر کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جب کبھی ان فروق اور امتیازات کا لحاظ کیے بغیر محض قانونی عبارت کے الفاظ کی پیروی کی جائے گی تو صرف ایک سود کے مسئلے ہی میں نہیں بلکہ بکثرت فقہی مسائل میں ایسی غلطیاں پیش آئیں گی جن سے قانون مسخ ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کے خلاف استعمال کیا جانے لگے گا۔
ان ضروری توضیحات کے بعد ہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ دارالحرب کا اطلاق دراصل کن علاقوں پر ہوتا ہے، کن مراتب کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر مرتبے کے احکام کیا ہیں، حربیت کے کتنے مدارج ہیں اور ہر درجے کے لحاظ سے اباحت نفوس و اموال کی نوعیت کس طرح بدلتی ہے پھر اختلاف دارین کے لحاظ سے خود مسلمان کی حیثیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور ہر حیثیت سے ان کے حقوق و واجبات کس طرح بدلتے ہیں۔
کفار کی اقسام
کفار کی جو اقسام ہم نے اوپر بیان کی ہیں ان میں سے اہل ذمہ کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ بجز خمر و خنزیر اور نکاح محارم اور عبادت غیر اللہ کے اور تمام معاملات میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔ اسلام کے ملکی قوانین ان پر جاری ہوتے ہیں، وہ ان سب چیزوں سے روکے جاتے ہیں جن سے مسلمان روکے جاتے ہیں اور ان کو عصمت جان و مال و آبرو کے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مستا ٔمن کافروں کا معاملہ بھی ذمیوں سے مختلف نہیں ہے۔ کیونکہ ان پر بھی اسلامی حکومت کے احکام نافذ ہوتے ہیں اور دارالاسلام میں ہونے کی وجہ سے ان کو بھی عصمت جان و مال حاصل ہوتی ہے۔ ان کو الگ کرنے کے بعد اب ہمیں صرف ان کفار کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جو دارالکفر میں مقیم ہوں۔
۱۔ باج گزار
وہ کفار جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں اور جن کو اپنے ملک میں احکام کفر جاری کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ ان کا ملک اگرچہ دارالکفر ہے مگر دارالحرب نہیں۔ اس لیے کہ جب مسلمانوں نے ادائے خراج پر انھیں امان دے دی تو حربیت مرتفع ہوگئی۔ قرآن میں آیا ہے کہفَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ وَاَلْقَوْا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ۝۰ۙ فَمَا جَعَلَ اللہُ لَكُمْ عَلَيْہِمْ سَبِيْلًاo (النساء90:4 ) یعنی ’’اگر وہ جنگ سے باز آ جائیں اور صلح پیش کریں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی سبیل نہیں رکھی۔‘‘ اسی بنا پر فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان کے اموال اور نفوس اور اعراض سے تعرض نہیں کیا جا سکتا:
وَاِنْ وَقَعَ الصُّلْحُ عَلَی اَنْ یؤدُّوْا اِلَیْہِمْ کُلَّ سَنَۃ مِأَۃ رَأْسٍ فَإِنْ کَانَتْ ہٰذِہِ الْمَأَۃُ الرأْسُ یُؤَدُّونَہَا مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَوْلاَدِہِمْ لَمْ یَصِحَّ ہٰذَا لِاَنَّ الصُّلْحَ وَقَعَ عَلٰی جَمَاعَتِہِمْ فَکَانُوْا جَمِیْعًا مُسْتَأمِنِیْنَ وَاِسْتِرْقَاقُ الْمُسْتَأْمِنِ لَایَجُوزُ۔ { FR 2475 }
اور اگر ان سے اس بات پر صلح ہوئی ہو کہ وہ ہر سال سو غلام دیں گے تو یہ سو غلام اگر خود انھی کی جماعت میں سے ہوں یا ان کی اولاد ہوں تو ان کا لینا درست نہ ہوگا۔ کیونکہ صلح کا اطلاق ان کی پوری جماعت پر ہوا ہے اور وہ سب مستا ٔمن ہیں اور مستامن کو غلام بنانا جائز نہیں۔
وَلَوْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْہُمْ دَارَ حَرْبِ أُخْرٰی فَظَہَر الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہِمْ لَمْ یَتَعَرَّضُوْا لہ لِاَنَہ فِیْ اَمَانِ الْمُسْلِمِیْنَ۔{ FR 2476 }
اگر ان میں سے کوئی شخص کسی دوسرے دارالحرب میں مقیم ہو اور اسلامی فوجیں اس ملک میں داخل ہوں تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا کیونکہ وہ مسلمانوں کی امان میں ہے۔
وَاِنْ کَانَ الَّذِیْنَ سَبَوْہُمْ قَوْمٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَدَرُوْا بِاَہْلِ الْمُوَادَعَۃِ لَمْ یَسِعِ الْمُسْلِمُونَ اَنْ یَشْتَرو۔۔۔ارُدّتِ الْبَیْع لٰأِنَّھُمْ کَانُوا فِی أَمانِ الْمُسْلِمِیْنَ۔ { FR 2477 }
اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ان کے ساتھ غدر کرکے ان کے آدمیوں کو غلام بنا لے تو مسلمانوں کے لیے ان غلاموں کا خریدنا جائز نہ ہوگا اور اگر انھوں نے خرید لیا تو اس بیع کو ردّ کر دیا جائے گا کیونکہ وہ مسلمانوں کی امان میں تھے۔
اس قسم کے کفار اگرچہ نظری حیثیت سے اہل حرب ضرور رہتے ہیں۔لأِنَّھُمْ بِھٰذِہِ الْمُوَادَعۃِ لَایَلْتَزِمُونَ أَحْکَامَ الِأسْلَامِ وَلَایَخْرُجُونَ مِنْ أَنْ یَکُونُوا أَھْلَ حَرْبٍ{ FR 2334 } لیکن ان کے اموال مباح نہیں اور ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ سود خوار ہی کیوں نہ ہوں بلکہ اگر وہ اپنے دار میں بھی نہ ہوں، کسی ایسے دار میں ہوں جہاں بالفعل جنگ ہو رہی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے ان سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔
۲۔ معاہدین
وہ کفار جن سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو۔ ان کے متعلق قرآن کی تصریحات حسب ذیل ہیں
﴿اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰى مُدَّتِہِمْ۝۰ۭ ﴾
(التوبہ9:4)
مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کر لیا اور انھوں نے تمھارے ساتھ وفائے عہد میں کمی بھی نہ کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کو مدد دی، تو ان کے ساتھ تم معاہدے کی مدت مقرر تک عہد پورا کرو۔
﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ ﴾ (التوبۃ9:7)
پھر جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔
﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۝۰ۭ ﴾ (الانفال 72:8)
اور جو مسلمان دارالکفر میں رہتے ہوں وہ اگر دین کے حق کی بنا پر تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرو مگر کسی ایسی قوم کے خلاف ان کی مدد نہ کرو جس سے تمھارا معاہدہ ہو۔
﴿مُّؤْمِنَۃٍ۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ ﴾ (النساء92:4)
اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس کے اور تمھارے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے گی۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معاہد کفار اگرچہ نظری حیثیت سے حربی ہیں اور ان کے ملک پر دارالحرب کا اطلاق ہو سکتا ہے، مگر جب تک اسلامی حکومت نے ان سے معاہدانہ تعلقات قائم رکھے ہیں، وہ مباح الدم و الاموال نہیں ہیں اور ان کی جان و مال سے تعرض کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کا خون بہائے گا تو دیت لازم آئے گی اور اگر ان کے مال سے تعرض کر ے گا تو ضمان دینا ہوگا۔ پس جب ان کے اموال مباح ہی نہیں ہیں تو ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر معاملے کیسے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کا جواز تو اباحت ہی کی اصل پر مبنی ہے۔
۳۔ اہل غدر
وہ کفار جو معاہدے کے باوجود معاندانہ رویہ اختیار کریں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم یہ ہے کہ:
﴿وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ﴾
(الانفال8:58)
اور اگر تمھیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔{ FR 2335 }
شمس الائمہ سرخسیؒ اس صورت مسئلے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَلٰکِنْ یَنْبَغِیْ اَنْ یَنْبِذَ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوآئٍ ایْ عَلٰی سَوَائٍ مِنْکُمْ وَمِنْھُمْ فِی الْعِلْمِ بِذالِکَ فَعَرَ فْنَا أَنَّہٗ لَایَحِلُّ قِتَالُھُمْ قَبْلَ الَّبْذِ وَقَبْلَ أَنْ یَعْلَمُوا بَذَالِکَ۔ { FR 2478 }
(ایسی صورت میں معاہدے کو توڑ دینا جائز ہے) مگر لازم ہے کہ نقض معاہدہ برابری کے ساتھ ہو، یعنی تمھاری طرح ان کو بھی معلوم ہو جائے کہ تم نے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حکم سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اعلان و اطلاع سے پہلے ان کے ساتھ جنگ کرنا حلال نہیں ہے۔
یہ آیت اور اس کی مذکورہ ٔ بالا قانونی تعبیر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ معاہد قوم اگر بدعہدی بھی کرے تب بھی اعلانِ جنگ سے پہلے اس کے نفوس و اموال مباح نہیں ہیں۔{ FR 2336 }
۴۔ غیر معاہدین
وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی تعلقات کا انقطاع (rupture of diplomatic relations) دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے آدمیوں کو قتل کر دے یا لوٹ لے تو کوئی دیت یا ضمان واجب نہ ہوگا۔ اس معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں قوموں کے لیے ایک دوسرے کے نفوس و اموال مباح ہیں۔ مگر کوئی مہذب حکومت باقاعدہ اعلان جنگ کیے بغیر کسی انسانی جماعت کا خون بہانا یا مال لوٹنا پسند نہیں کر سکتی۔ اسلامی قانون اس باب میں یہ ہے:
وَلَوْ قَاتَلُوْہُمْ بِغَیْرِ دَعْوَۃٍ کَانُوْا اٰثِمِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَلٰـکِنَّہُمْ لَا یَضْمِنُوْنَ شَیْئًا مِمَّا اَتْلَفْوا مِنَ الدِّمَائِ وَالْأَ مْوَالِ عِنْدَنَا۔{ FR 2479 }
اگر مسلمانوں نے دعوت{ FR 2337 }کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گار ہوں گے لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان و مال کا جو اتلاف وہ کریں گے اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوں پر لازم نہ آئے گا۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ضمان لازم آئے گا کیونکہ جب تک وہ دعوت کو ردّ نہ کریں ان کی جان و مال کی حرمت و عصمت باقی ہے۔ { FR 2480 }
مگر حنفیہ کہتے ہیں:
وَلٰکِنَّا نَقُولُ اْعِصْمَۃُ الْمُقَوِّمَۃُ تَکُونُ بِالْاحَرَازِ وَذٰلِکَ لَم یُوْجَدْ فِی حَقِّھِمْ۔۔۔ وَلٰکِنَ شْرطُ الْاِبَاحَۃِ تَقْدِیْمً الدعوۃِ فَبِدُوَنِہِ لَاَ یَثْبُتُ وَمُجَرَّدُ حُرْمَۃِ اِلْقَتْلِ لَا یَکْفِی بِوُجُوْبِ الضَّمَانِ۔ { FR 2481 }
جس عصمت کی بنا پر جان و مال کی قیمت قائم ہوتی ہے تو وہ دارالاسلام کی حفاظت میں ہونے پر موقوف ہے اور یہ چیز ان کے حق میں موجود نہیں ہے … یہ ضرور ہے کہ اباحت کے لیے تقدیم دعوت شرط ہے، اس کے بغیر اباحت ثابت نہیں ہوتی، لیکن محض حرمت قتل، وجوب ضمان کے لیے کافی نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حربی کفار جو ذمی نہیں ہیں، جن سے کوئی معاہدہ نہیں ہے، جن کا دار ہمارے دار سے مختلف ہے جن کی عصمت ہمارا قانون تسلیم نہیں کرتا، ان کے نفوس و اموال بھی ہم پر اس وقت تک حلال نہیں ہیں جب تک کہ اتمام حجت نہ ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان باقاعدہ اعلانِ جنگ نہ ہو جائے۔ نبیa نے اس باب میں حضرت معاذؓ بن جبل کو جو ہدایات دی تھیں وہ قابل غور ہیں:
لَا تُقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی تَدْعُوْہُمْ فإِنْ اَبَواْ فَلَا تُقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی یَبْدَؤُکُمْ فإِنْ بَدَؤُوْکُمْ فَلاَ تُقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی یَقْتُلُوْا مِنُکْم قَتِیْلًا ثُمَّ أَرھُمْ ذٰلِکَ الْقَتِیْلَ وَقُوْلُوْا لَہُمْ ہَلْ اِلٰی خَیْرٍ مِنْ ہٰذَا سَبِیْلِ ؟ فَلأَنْ یَہْدِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلی یَدَیْکَ خَیْرٌ لَکَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشًّمْسُ وَغَرَبَتْ۔{ FR 2482 }
ان سے جنگ نہ کرنا جب تک کہ ان کو دعوت نہ دے لو۔ پھر اگر وہ انکار کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک وہ ابتدا نہ کریں۔پھر اگر وہ ابتدا کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک کہ وہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کر دیں۔ پھر اس مقتول کو دکھا کر ان سے کہنا کہ کیا اس سے زیادہ بہتر کسی بات کے لیے تم آمادہ نہیں ہو سکتے؟ اے معاذ! اس قدر صبر و تحمل کی تعلیم اس لیے ہے کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ پر لوگوں کو ہدایت بخش دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تیرے قبضے میں مشرق سے مغرب تک کا سارا ملک و مال آجائے۔
۵۔ محاربین
اب صرف وہ کفار باقی رہ جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو۔ اصلی حربی یہی ہیں۔ انھی کے دار کو تعلقات خارجیہ کے قانون میں ’’دارالحرب‘‘ کہا جاتا ہے انھی کے نفوس اور اموال مباح ہیں اور انھی کو قتل کرنا، گرفتار کرنا، لوٹنا اور مارنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے لیکن حربیت (enemy character) تمام حاربین میں یکساں نہیں ہے اور نہ تمام اموال حربیہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ حربی کافروں کی عورتیں، ان کے بچے، ان کے بیمار، ان کے بوڑھے اور اپاہج وغیرہ بھی اگرچہ حربی ہیں مگر شریعت نے ان کو مباح الدم نہیں ٹھیرایا ہے بلکہ اباحت قتل کو صرف مقاتلین (combatants) تک محدود رکھا ہے۔ إِنَّمَا یُقْتَ مَنْ یُقَاتِلُ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَاتِلُوھُمْ وَالْمُفَاعِلَۃُ تَکُونُ مِنَ الْجَانِبَیْنِ{ FR 2338 } اسی طرح اموال حربیہ میں بھی شریعت نے فرقِ مدارج کیا ہے اور ہر درجے کے احکام الگ ہیں۔
اموال حربیہ کے مدارج اور احکام
اگرچہ اُصولی حیثیت سے تمام وہ اموال و املاک جو دشمن کے علاقے میں ہوں، مباح (confiscable) ہیں، لیکن شریعت اسلامی نے ان کو دو اقسام پر منقسم کیا ہے ایک غنیمت دوسرے فَے۔
غنیمت
وہ اموال منقولہ (moveable properties) جن پر رقبہ جنگ میں اسلامی فوج اپنے اسلحے کی طاقت سے قابض ہو، اموال غنیمت ہیں۔ ان کا 5 / 1حصہ (یعنی خمس) حکومت کا حق ہے اور4 / 5 ان لوگوں کا حق جنھوں نے ان کو لوٹا ہو۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ کتاب الخراج میں غنیمت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
فَہٰذَا فِیْمَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ عَسَاکِرِ اَہْلِ الشِّرْکِ وَمَا اَجْلَبْوَا بِہٖ مِنَ الْمَتَاعِ وَ السَّلاَحِ وَالْکَرَاعِ۔ { FR 2483 }
خمس ان اموال میں ہے جو مسلمانوں کو اہل شرک کے لشکروں سے ہاتھ لگیں اور جو سازوسامان اور جانوروں کی قسم سے ہوں (یعنی اموال منقولہ)
دوسری جگہ پھر فرماتے ہیں:
فَمَا اَصَابَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ عَسَاکِرِ اَہْلِ الشِّرْکِ وَمَا اَجْلَبُوْا بِہٖ مِنَ الْمَتَاعِ وَ الْکَرَاعِ وَالسَّلاَحِ وَ غَیْرَ ذٰلِکَ۔{ FR 2516 }
اس سے ظاہر ہوا کہ غنیمت کا اطلاق صرف ان اموال منقولہ پر ہوتا ہے جو جنگی کارروائی (war-like operations) کے دوران میں غنیم کے لشکروں سے حاصل ہوں اور غنیم کے لشکروں کے حدود سے باہر عام آبادیوں کو لوٹتے مارتے پھر ناشریعت کی نگاہ میں درست نہیں۔ اگرچہ دارالحرب کے تمام اموال مباح ہیں اور اگر کوئی شخص غیر مقاتلین کے اموال سے تعرض کرے تو اس پر نہ کو ئی ضمان لازم ہوگا، نہ لوٹے ہوئے اموال واپس کیے جائیں گے، لیکن اس قسم کی لوٹ مار پسندیدہ نہیں ہے۔ امام مسلمین ہر ممکن طریقے سے اپنی فوجوں کو ایسی حرکات سے روکے گا کیونکہ نبی a کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِیَائً وَ سَمْعَۃَ عَصَی الْاَمَامَ وَأَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ فَاِنَّہٗ لَمْ یَرْجِعْ بِالکفَّافِ { FR 2339 }
فَے
دوسری قسم ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کی ہے جو غنیم کے لشکر سے لڑ کر حاصل نہ کیے گئے ہوں، بلکہ نتیجہ، فتح کے طور پر حکومت کے زیر تصرف آئیں، عام اس سے کہ وہ غنیم کی رعایا کے املاک ہوں یا دشمن سلطنت کے ہوں۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے اموال کو ’’فَے‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ غنیمت سے بالکل مختلف چیز ہے۔ وَغَنِیْمَۃُ الْعَسْکَرِ مُخَالَفَۃُ لِمَا أَفَائَ اللّٰہُ مِنْ أَھْلِ الْقُریٰ وَالْحُکْمُ فِی ھٰذَا غَیْرَ الْحُکُمِ فِی تِلْکَ الْغَنَائِمِ۔{ FR 2340 } اس کے متعلق سورۂ حشر میں تشریح کر دی گئی ہے کہ یہ کسی شخص کی ملکیت میں نہ دی جائے گی بلکہ اس کا تعلق بیت المال سے ہوگا اور اسے مصالح عامہ میں خرچ کیا جائے گا۔ وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo (الحشر59:6)
لفظ ’’فَے‘‘ کا کوئی اور مفہوم اس کے سوا نہیں ہے اور کتب فقہیہ میں ہم کو کہیں بھی کسی ایسی فَے کا نشان نہیں ملا جس کو ہر شخص بطور خود حاصل کرے اور اپنی ہی جیب میں رکھ لے۔ جگہ جگہ فیٌٔ لِلْمُسْلِمِیْنَ، فِیٌٔ یُوْضَعُ فِی بِیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَیٌ لجِمَاَعَۃِ الْمُسْلِمِینَ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین صرف اس فَے سے واقف تھے جو جماعت کی مِلک ہوتی ہے اور حکومت اسلامی کے زیر تصرف ہوا کرتی ہے۔
غنیمت اور لوٹ میں امتیاز
غنائم حاصل کرنے کا شرعی حق صرف انھی لوگوں کو دیا گیا ہے جو اسلامی سلطنت کے زیر حفاظت ہوں اور جن کو امام مسلمین کی اجازت نصاً یا حکماً ہو۔ ان کے سوا اگر عام مسلمان فرداً فرداً یا جماعت بنا کر بطور خود لوٹ مار کرنے لگیں تو ان کی حیثیت لٹیروں کی ہوگی۔ ان کی غنیمت ’’غنیمت‘‘ نہ ہوگی، لوٹ ہوگی۔ اس لیے اس میں سے اللہ کا حصہ (یعنی خمس) قبول نہ کیا جائے گا۔ البتہ وہ انھی کے پاس رہنے دیا جائے گا کیونکہ دشمن کو واپس دلانا تو بہرحال ممکن نہیں ہےفإِنْ کَانَ دُخُولُ الْقَومِ الَّذِیْنَ لَاَمْنعَۃَ لَھُمْ بِغَیرِ اِذْن اِلإِمِ عَلیٰ سَبِیْلِ التَّلَصَّصِ فَلَاخُمْسَ فِیْمَا أَصَابُوا عِنْدَ نَا ولکِنْ مَنْ أَصَابَ مِنْھُمْ شَیْئًا فَھُوَلَہُ خَاصَّہۃٗ۔{ FR 2341 } اس کی وجہ جو کچھ علامہ سرخسیؒ نے لکھی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
وَالْمَعنٰی مَا بَیَّنَّا أَنَّ الْغَنِیْمَۃَ اسْمٌ لِمَالٍ مُصَابٍ بِأَشْرَفِ الْجِھَاتِ وَھُوَ أَنْ یَکُونَ فِیہِ اِعْلائُ کَلِمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَإِعْزَازُ الدِّیْنِ وَلِھٰذَا جُعِلَ الْخُمْسُ مِنْہُ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَ ھٰذَا الْمَعْنٰی لَا یَحْصُلُ فِیْمَا یأَخُذُہٗ الْوَاحِدُ عَلٰی سَبِیْلِ التَّلَصَّصِ فَیَتَمَحَضُّ فِعْلُہٗ اِکْتِسَاً بِالِلْمَالِ۔{ FR 2484 }
بات دراصل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ غنیمت اس مال کا نام ہے جو انتہا درجے کے پاک اور اشرف طریقے سے ہاتھ آئے اور وہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کے کلمے کا اعلاء اور اس کے دین کا اعزاز ہو۔ اسی لیے اس میں اللہ کا پانچواں حصہ مقرر کیا گیا۔ یہ بات اس مال میں نہیں ہوتی جس کو ایک شخص چوروں کی طرح حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کا مقصد تو محض اکتساب مال ہے۔
اس کی نظیر میں امام سرخسیؒ وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ مشرکین ایک مسلمان لڑکے کو پکڑ لے گئے تھے۔ کچھ مدت بعد وہ لڑکا ان کے قبضے سے بھاگ نکلا اور ان کی کچھ بکریاں بھی پکڑ لایا۔ حضورؐ نے یہ بکریاں اسی کے پاس رہنے دیں اور ان میں سے خمس لینا قبول نہ کیا۔{ FR 2485 } مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اسی کی تائید میں ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کا مال لوٹ کر مدینہ حاضر ہوئے اور اسلام پر ایمان لائے جب انھوں نے لوٹ کا مال حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمھارا اسلام مقبول ہے مگر یہ مال مقبول نہیں۔{ FR 2486 }
دارالحرب میں کفار کے حقوق ملکیت
غنیمت پر تیسری قید یہ لگائی گئی ہے کہ غانمین جب تک دارالحرب میں مقیم ہیں اس وقت تک وہ اموال غنیمت سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس قید سے صرف سامان خوردونوش اور جانوروں کا چارہ مستثنیٰ ہے۔ یعنی دورانِ جنگ میں جس قدر آذوقہ اور چارہ فوجوں کے ہاتھ لگے گا اس میں سے ہر مجاہد بقدر حاجت لے سکتا ہے۔ اس کے سوا باقی تمام اموالِ غنیمت سردار لشکر کے پاس جمع کر دیے جائیں گے اور ان کو غانمین میں اس وقت تک تقسیم نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ دار الاسلام کی طرف منتقل نہ کر دیے جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اموال غنیمت جب تک دارالحرب میں ہوں غانمین کی مِلک ان پر مکمل نہیں ہوتی۔ امام شافعیؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محاربین کا مال مباح ہے اس لیے جس وقت مجاہدین اسلام ان پر قابض ہوئے اسی وقت ان کے مالک بھی ہوگئے۔ مگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب فرماتے ہیں کہ یہ مِلک ضعیف ہے۔ گو ہمارا قبضہ ہو چکا ہے لیکن دار تو ان کا ہے۔ جب تک مال ان کے دار سے ہمارے دار میں نہ چلا جائے ہم پوری طرح اس کے مالک نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ تکمیل مِلک کے لیے محض استیلا (occupation) کافی نہیں ہے۔ امام سرخسیؒ اس مسئلے میں حنفیہ کے مسلک کی توضیح اس طرح کرتے ہیں:
فَأَمَّا عِنْدَنَا الْحَقَّ یَثْبُتُ بِنَفْسِ الْأَخْذِ وَیَتَأَ کَّدُ بِالْإِحْرَازِ یَتَمَکَّنُ بِالْقِسْمَۃِ کَحَقِ الشَّفِیْعِ یَثْبُتُ بِالْبَیْعِ وَیَتَأَ کَّدُبالطَّلَبِ وَیَتِمَّ الْمِلْکَ بِالأَخْذِ وَمَادَامَ الْحَقُّ ضَعِیْفًا لَا تَجُوزُ القِسْمَۃُ۔۔۔ بِالْاُ خْذِیَمْلُکُ الَأَرَاضِیَ کَمَا یَمْلُکُ الأَمْوَالَ ثُمَّ لَایَتَأَ کَّدُ الْحَقَّ فِی الْأَرْضِ الَّتِی نَزَلُوا فِیْھَا إِذَا لَمْ یُصَیِّرْھَا دَارَ الْإِسْلامِ{ FR 2487 }
ہمارے نزدیک نفس قبضہ سے حق صرف ثابت ہوتا ہے، دارالاسلام میں لے جانے سے مضبوط ہو جاتا ہے اور تقسیم غنیمت سے مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال شفعہ کی سی ہے کہ شفیع کا حق بیع سے ثابت ہوتا ہے، طلب سے موکد ہوتا ہے اور قبضے کے ساتھ مکمل ہوتا ہے پس جب تک حق ضعیف رہے تقسیم جائز نہیں ہوتی۔ جس طرح اموال (جائیداد منقولہ) پر نفس قبضہ سے مِلک ثابت ہوتی ہے اسی طرح اراضی (جائیداد غیر منقولہ) پر بھی قبضے سے مِلک ثابت ہو جاتی ہے، مگر جس سرزمین میں مسلمانوں کے لشکر اترے ہوں اس پر حق اس وقت تک پوری طرح قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے۔
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ نہ صرف غنیمت، بلکہ فَے میں بھی اسلامی حکومت اس وقت تک تصرف کا پورا حق نہیں رکھتی جب تک کہ علاقہ مقبوضہ۔(occupied territory) کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے ،یا باصطلاح جدید اپنے مقبوضات کے ساتھ اس کے الحاق (annexation) کا باقاعدہ اعلان نہ کر دیا جائے۔ نبی a کا طرزِ عمل اسی مسلک کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ مکحولؒ کا بیان ہے کہ مَاقَسَمَ رَسُولُ اللّـہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ الْغَنَائِمَ اِلاَّ فِی دَارِالْاِسْلامِ { FR 2488 }(رسول اللہa نے کبھی غنائم کو دارالاسلام کے سوا کہیں تقسیم نہیں فرمایا) محمد بن اسحاقؒ اور قلبیؒ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے حنین کے غنائم واپسی پر جعرانہ میں تقسیم فرمائے تھے جو اس زمانے میں دارالاسلام کی سرحد پر تھا۔ راستے میں اعراب نے تقسیم کا سخت مطالبہ کیا اور حضورؐ کو اس قدر پریشان کیا کہ آپؐ کی چادر پھٹ گئی، مگر اس ہنگامے کے باوجود آپؐ نے دارالاسلام کے حدود میں پہنچنے سے پہلے مال غنیمت کا ایک حبہ تقسیم نہ فرمایا۔{ FR 2489 }
رسولؐ خدا کے اس طرز عمل اور فقہا کی ان توجیہات پر غور کیجیے۔ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون جس طرح اسلامی مقبوضات پر اہل اسلام کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح غیر اسلامی مقبوضات پر اہل حرب تک کے حقوقِ مالکانہ کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ جنگ ان کے اموال کو ہمارے لیے مباح کر دیتی ہے۔ مگر شریعت نے ہم کو اس اباحت سے فائدہ اٹھانے کی عام اور غیر مشروط اجازت نہیں دے دی ہے بلکہ ان کی ملک سے ہماری مِلک میں اموال کے منتقل ہونے کی چند باضابطہ قانونی شکلیں مقرر کی ہیں اور وہ ایسی شکلیں ہیں جن میں ہمارے اور اہلِ کفر کے درمیان پوری مساوات ہے۔ حنفی قانون کہتا ہے کہ ہم ان کے اموال کے مالک اس وقت ہوں گے جب باقاعدہ جنگ میں ان پر قبضہ کرکے انھیں اپنے ’’دار‘‘ میں لے آئیں۔ اسی طرح وہ بھی جب ہمارے اموال پر جنگ کے ذریعے سے قابض ہو کر اپنے دار میں انھیں لے جائیں گے تو ان کے مالک ہو جائیں گے اور ان کے دار میں ان کے حقوق مالکانہ کا احترام کرنا ہم پر لازم ہوگا۔ اس بارے میں فقہا کی مزید تصریحات قابل غور ہیں:
نَفْسُ الْأَخْذِ سَبَبٌ لِمِلْکِ الْمَالِ إِذَا تَمَّ بِالْاِ حْرَازِ وَبَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ مُسَاوَاۃٌ فِی أَسْبَاِ إِصَابَۃِ الدُّنْیَابَلْ حَظُّھُمْ أَوْفَرُ مِنْ حَظِّنَا لِأَنَّ الدُّنْیَا لَھُمْ وَلِأَنَّہٗ لَا مَقْصُوْد لَھُمْ فِی ھٰذِہِ الْأَخْذِسِوٰی اکْتِسَابِ الْمَالِ وَنَحْنُ لَانَقْصُدُ بِالْأَخْذِ اِکْتِسَابَ الْمَالِ۔{ FR 2490 }
جب مال پر قبضہ کرکے اس کو دار میں پہنچا دیا گیا ہو تو یہ اس مال پر حق ملکیت کا پورا سبب ہے اور دنیا حاصل کرنے کے اسباب میں ہمارے اور کفار کے درمیان کامل مساوات ہے بلکہ دنیا میں ان کا حصہ ہمارے حصّے سے کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ ان کے لیے تو دنیا ہی ہے اور اخذ ِمال سے ان کا مقصد بجز اکتساب مال کے اور کچھ نہیں بخلاف اس کے ہمارا مقصد اکتسابِ مال نہیں ہے۔
وَ إِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِأَنٍ وَلَہٗ فِی أَیْدِیْھِمْ جَارِیَۃٌ مَأْسُوْرَۃٌ کَرِھَتْ لَہٗ غَصْبُھَا وَطُیْئُھَا لِأَنَّھُمْ مَلَکُوْھَا عَلَیْہِ وَالْتَحَقَتْ بِسَائِرِ أمْلَاکِھِمْ۔{ FR 2491 }
اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں امان لے کر داخل ہو اور وہاں خود اسی کی لونڈی اس کے ہاتھ آئے جسے کفار پکڑ لے گئے تھے تو اس کے لیے اس لونڈی پر قبضہ کرنا اور اس سے وطی کرناجائز نہیں کیونکہ اب کفار اس کے مالک ہیں اور وہ لونڈی ان کے املاک میں داخل ہو چکی ہے۔
وَلَوْ خَرَجَ إِلَیْنَا بِأَمَانٍ وَمَعَہٗ ذالِکَ الْمَالُ فَإِنَّہٗ لَا یَتَعَرَّضُ لَہٗ فِیْہِ۔ { FR 2492 }
اور اگر کافر حربی ہمارے دار میں امان لے کر آئے اور اس کے ساتھ خود ہم ہی سے لوٹا ہوا مال ہو تو ہم اس سے وہ مال نہیں چھین سکتے۔
فإِنْ غَلَبَ الْعَدُّوُ عَلٰی مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَأَحْرَزُوہُ وَھُنَاکَ مُسْلِمٌ تَاجِرٌ مُسْتَأمِنٌ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَشْتَرِیَہُ مِنْھُمْ فَیَاکُلُ الطَّعَامَ مِنْ ذٰلِکَ وَیَطَائُ الْجَارِیَۃَ لِأَنَّھُمْ مَلَکُوھَا بِالاِحْرازِ فَالْتَحَقَتْ بِسَائِر أَمْلَاکِھِمْ وَھٰذَا بِخِلَافِ مَالَوْ دَخَلَ إِلَیْھِمْ تَاجِرٌ بِأَمَانِ فَسَرَقَ مِنْھُمْ جَارِیَۃٌ وَ أَخْرَ جَھَا لَمْ یَحِلُّ لِلمُسْلِمِ أَنْ یَشْتَرِیَھَا مِنْہٗ لِأَنَّہٗ أَحْرَزَھَا عَلٰی سَبِیْلِ الْغَدْرِوَھُوَ مَأَمُورٌ بِرَدِّھَا عَلَیْھِمْ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَبّہِ وَإِنْ کَانَ لَایُجْبِرُہٗ الْاِ مَامَ عَلٰی ذَالِکَ۔{ FR 2493 }
اگر دشمن مسلمانوں کے مال پر قابض ہو کر اسے اپنے دار میں لے جائے اور وہاں کوئی مسلمان تاجر مستامن ہو تو اس کے لیے اس مال کو خریدنا اور کھانا حلال ہے اور وہ ان سے خریدی ہوئی لونڈی سے وطی بھی کر سکتا ہے۔ کیونکہ اپنے دار میں لے جانے کے بعد وہ اس کے مالک ہوگئے اور اب وہ ان کے املاک میں شامل ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی تاجر امان لے کر دارالحرب میں جائے اور ان کے قبضے سے کسی لونڈی کو چرا کر دارالاسلام میں لے آئے تو مسلمان کے لیے اس لونڈی کو خریدنا حلال نہیں کیونکہ وہ غدر کرکے اسے لایا ہے اور فیما بینہ و بین اللّٰہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے۔ اگرچہ امام اس کو واپس کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
یہ مسلک ٹھیک ٹھیک حدیث کے مطابق ہے۔ فتح مکہ کے روز جب حضرت علیؓ نے آنحضرت a سے عرض کیا کہ آپؐ اپنے اس مکان میں کیوں نہیں قیام فرماتے جو ہجرت سے پہلے آپؐ کا تھا تو حضورa نے جواب دیا کہ ہَلْ تَرَکَ لَنَا عَقْیِلُ مِنْ رِبَا۔{ FR 2494 } عقیل نے ہمارے لیے چھوڑا ہی کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپؐ اسے چھوڑ کر نکل گئے تھے اور عقیل بن ابی طالب نے اس پر قبضہ کر لیا تھا تو اس پر سے آپؐ کی مِلک ساقط اور عقیل کی ملکیت ثابت ہوگئی۔ اب باوجود اس کے کہ آپؐ نے مکہ فتح کر لیا تھا، آپ نے اپنے سابق حقوق ملکیت کی بنا پر اس مکان کو اپنا مکان قرار دینے سے خود انکار فرما دیا۔
مباحث گزشتہ کا خلاصہ
یہ تمام قانونی تصریحات آپ کے سامنے ہیں ان پر غور کرنے سے حسب ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں:
(۱) دارالحرب اگر مطلقاً دارالکفر (foreign territory) کے معنی میں لیا جائے تو اس کے اموال مباح نہیں بلکہ صرف غیر معصوم ہیں اور عدم عصمت کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ اسلامی حکومت اس دار میں کسی جان یا مال کے تحفظ کی ذمہ دار نہیں ہے۔ وہاں اگر کوئی مسلمان کسی مسلم یا غیر مسلم کو جان و مال کا نقصان پہنچائے گا یا اس کی مِلک سے کوئی چیز حرام طریقے سے نکال لے گا تو یہ اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ اسلامی حکومت اس سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گی۔
(۲) دارالحرب سے مراد اگر ایسے کفار کا دار لیا جائے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں تو اس معنی میں ہر دارالکفر دارالحرب نہیں ہے، بلکہ صرف وہ علاقہ دار الحرب ہے جس سے بالفعل دارالاسلام کی جنگ ہو۔ اس خاص نوع کے دارالکفر کے سوا کسی دوسرے دارالکفر کے باشندے نہ مباح الدم ہیں اور نہ مباح المال‘ اگرچہ وہ ذمی نہیں ہیں اور ان کے نفوس و اموال غیر معصوم ہیں۔
(۳) جس ملک سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو اس کے نفوس و اموال بھی مطلقاً ایسے مباح نہیں ہیں کہ ہر شخص وہاں لوٹ مار کرنے اور کفار کی املاک پر قبضہ کرنے کا مختار ہو بلکہ اس کے لیے بھی کچھ شرائط اور قیود ہیں:
(الف) امام مسلمین باقاعدہ اعلانِ جنگ کرکے اس ملک کو دارالحرب قرار دے اور
(ب) وہاں جنگ کرنے والوں کو امام کا ’’اذن‘‘ اور اس کی ’’حمایت‘‘ حاصل ہو۔
(۴) غنیمت صرف اس جائیداد منقولہ کو کہتے ہیں جو دشمن کے عساکر سے لڑ کر حاصل کی جائے۔ یا بالفاظ دیگر اشرف جہات سے حاصل ہو اور جس میں دین کا اعزاز ہو۔ اس مال میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔
(۵) فَے ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کو کہتے ہیں جو نتیجۂ فتح کے طور پر حکومت اسلامی کے قبضے میں آئیں۔ خراجِ اور مال صلح وغیرہ کا شمار بھی فَے ہی میں ہے‘ لیکن یہ بالکلیہ اسلامی حکومت کی مِلک ہے اور کسی شخص خاص کو اس پر حقوقِ ملکیت حاصل نہیں ہو سکتے۔
(۶) فَے اور غنیمت کے اموال پر فاتحین کو پورے حقوقِ ملکیت صرف اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ وہ ان کو دارالحرب سے دارالاسلام منتقل کر لائیں یا دارالحرب کو دارالاسلام بنا لیں۔ اس سے پہلے ان اموال میں تصرف کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا مکروہ ہے۔
(۷) اسلامی قانون حربی کفار کے اموال پر ان کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی ملک سے کوئی مال مسلمانوں کی مِلک میں جائز طور پر انھی صورتوں سے منتقل ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور رسولؐ نے حلال کیا ہے ، یعنی بیع یا صلح یا جنگ۔
مسلمانوں کی حیثیات بلحاظ اختلافِ دار
اِن اُمور کے متحقق ہو جانے کے بعد اب ایک نظر یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اسلامی قانون کے مطابق اختلاف دار کے لحاظ سے خود مسلمانوں میں کیا اختلافات واقع ہوتے ہیں۔ اس باب میں تمام قوانین کی بنیاد حسب ذیل آیات و احادیث پر قائم ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا﴾ (الانفال72:8)
اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام) آ نہیں گئے، ان سے تمھارا ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں تاوقتیکہ وہ (دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف) ہجرت نہ کریں۔
﴿فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ﴾
(النساء89:4)
اُن کو ولی نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔
﴿وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا۝۰ۭ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَمُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۝۰ۚ﴾ (النساء92:4)
اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے، اور مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دے، الایہ کہ وہ خوں بہا معاف کر دیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمھاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا بَرِیُٔ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْہَرِالْمُشْرِکِیْنَ۔{ FR 2495 } وَعن النَّبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیْضًا مَنْ اَقَامَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْہُ الذِّمَۃ ۔{ FR 2496 }
نبی ؐ نے فرمایا میں ہر اس مسلمان کی ذمہ داری سے بری{ FR 2342 }ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔ اور حضورؐ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ جس نے مشرکین کے ساتھ قیام کیا اس سے مَیں بری الذمہ ہوں۔ یا فرمایا اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں۔
ابو داؤد کی کتاب الجہاد میں ہے کہ جب حضور a کسی کو لشکر کا سردار مقرر کرکے بھیجتے تو اس کو منجملہ دوسری ہدایات کے ایک یہ ہدایت بھی فرماتے تھے:
اُدْعُہُمْ اِلَی الْاِسْلاَمِ فإِنْ اَجَابُوْکَ فَأَقْبلْ مِنْھُمْ وَکُفَّ عَنْھُمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی التَّحَوَّلَ مِنْ دَارِھُمْ إِلٰی دَارِ الْمُھَاجِریْنَ وَأَعْلِمْھُمْ أَنَّھُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَالِکَ أَنَّ لَھُمْ مَالِلْمُھَا جِرِیْنَ وَ أَنَّ عَلَیْھِمْ مَا عَلَی الْمُھَاجِرِیْنَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوْا دَارَھُمْ فَأَ عَلِمْھُمْ أَنْھَّمُمْ یَکُوْنُوْنَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِیْنَ یَجْرِیْ عَلَیْھِمْ حُکْمُ اللّٰہِ الَّذِیْ یَجْرِ عَلَی الْمُومِنِیْنَ وَلَا یَکُوْنُ لَھُمْ فِی الْفَی ئِ وَالْغَنِیْمَۃِ نَصِیْبٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاھِدُوْا مَعَ الْمُسْلِمِیْنِ۔{ FR 2497 }
ان کو پہلے اسلام کی طرف دعوت دینا اگر وہ قبول کر لیں تو ان سے ہاتھ روک لینا۔ پھر ان سے کہنا کہ اپنے دار کو چھوڑ کر مہاجرین کے دار یعنی دارالاسلام میں آ جائیں اور انھیں بتا دینا کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں‘ اور وہی واجبات ان پر عائد ہوں گے جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ انکار کریں اور اپنے ہی دار میں رہنا اختیار کریں تو انھیں آگاہ کر دینا کہ ان کی حیثیت اعراب مسلمین کی سی ہوگی ان پر اللہ کے وہ تمام احکام جاری ہوں گے جو مومنین پر جاری ہوتے ہیں مگر فَے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ الایہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
ان آیات و احادیث سے فقہائے حنفیہ نے جو احکام مستنبط کیے ہیں ان کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ دارالاسلام کے مسلمان
جو نفوس و اموال دارالاسلام{ FR 2343 } کی حدود میں ہوں صرف انھی کی حفاظت حکومت اسلامی کے ذمے ہے اور جو مسلمان دارالاسلام کی رعایا ہوں دینی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ دنیوی حیثیت سے بھی اسلام کے تمام قوانین ان پر نافذ ہوں گے اور وہی کلی طور پر احکام کے ملتزم ہوں گے۔ یہ قاعدہ اسلامی قانون کے قواعد کلیہ میں سے ہے اور اس پر بہت سے مسائل متفرع ہوتے ہیں۔
(۱) اسی قاعدے کی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ عصمت نفوس واموال و اعراض صرف انھی مسلمانوں کو حاصل ہے جو دارالاسلام کی حفاظت میں ہوں۔ ان کے سوا دوسرے مسلمانوں کی عصمت محض دینی عصمت ہے، عصمت مقومہ نہیں ہے جس کی بنا پر قضا شرعی لازم آتی ہے کما قال السرخسی فی کتابہ المبسوط اَلْعِصْمُۃ الْمُقَوَّمَۃُ تَکُونُ اِلاْحْرَازِ{ FR 2498 } وَالْعِصْمَۃُ بِالْاحْرَازِ والٔاِحْرَازُ بِالدَّارِ لَابالدِّیْنِ۔{ FR 2499 }
(۲) اسی قاعدے سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اسلامی قانون جن افعال کو حرام قرار دیتا ہے ان سے دارالاسلام کے مسلمان دیناً و قضائً دونوں حیثیتوں سے روکے جائیں گے، مگر جو مسلمان دارالاسلام میں نہیں ہیں ان کا معاملہ ان کے اور خدا کے درمیان ہے، دین کا احترام دل میں ہو تو باز رہیں اور نہ ہو تو جو چاہیں کریں، اس لیے کہ اسلام کو ان پر نفاذِ احکام کا اقتدار حاصل نہیں ہے۔
(۳) یہی قاعدہ اس مسئلے کا ماخذ بھی ہے کہ جو نفوس و اموال دارالاسلام کی حفاظت میں ہوں وہ سب معصوم ہیں اس لیے ان پر حق شرعی کے سوا کسی دوسرے طریقے سے تعدی کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اس بارے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ تعدی کرنے سے ہر اس شخص کو روکا جائے گا جو احکام اسلام کا تابع ہو چکا ہو عام اس سے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ اور ہر اُس شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی جو دارالاسلام کی حفاظت میں ہو خواہ مسلمان ہو یا کافر۔
لِأَنَّ الدِّیْنَ مَانِعٌ لِمَنْ یَعْتَقِدُہٗ حَقًا لِلشَّرْعِ دُوْنَ مَنْ لَا یَعْتَقِدُہٗ وَبِقُوَّۃِ الدَّارِیَمْنَعُ عَنْ مَالِہِ مَنْ یَعْتَقِدُ حُرْمَتَہٗ وَمَنْ لَمْ یَعْتَقِدُہٗ۔{ FR 2500 }
اسی بنا پر دارالاسلام میں کوئی مسلمان مسلمان سے اور کوئی مسلمان ذمی سے اور کوئی ذمی مسلمان سے اور کوئی ذمی ذمی سے اور کوئی حربی مستا ٔمن دوسرے مستا ٔمن سے سود پر یا عقود فاسدہ میں سے کسی عقد فاسدہ پر معاملہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ سب کے اموال سب کے لیے معصوم ہیں اور ان کو صرف انھی طریقوں سے لیا جا سکتا ہے جو اسلامی قانون میں جائز ہیں۔
فَإِنْ دَخَلَ تُجُارُّ أَھْلِ الْحَربٍ دَارَ الْاِسْلَامِ بِأَمَانٍ فَاسْتَرٰی أَحَدُھُمْ مِنْ صَاحِبِہِ دِرْھَمًا بِدَرْھَمَیْنِ لَمْ أَجِرْ ذَالِکَ إِلاَّ مَا أجِیْزُہٗ بَیْنَ أَھْلِ الْاِسْلَامِ وَ کَذَالِکَ أَھْلُ الذَّمَۃِ إِفَعَلُوا ذَالِکَ لِأَنَّ مَالَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ مَعْصُوْمٌ مُتَقَوِّمٌ۔ { FR 2501 }
اسی طرح اگر دارالکفر سے کوئی کافر دارالاسلام میں آئے یا دارالحرب سے کوئی حربی کافر امان لے کر اسلامی ملک میں داخل ہو تو اس سے بھی سود لینا یا عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہیں کیونکہ حکومت اسلامی کی امان نے اس کو معصوم الدم و مال کر دیا ہے اور حکومت اسلامی کی امان کا احترام اس کی تمام رعایا پر واجب ہے۔ البتہ اگر کوئی حربی بغیر امان لیے دارالاسلام میں آ جائے تو اس کو پکڑنا، لوٹنا، مارنا اور اس سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا سب کچھ امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک جائز ہے، کیونکہ وہ مباح الدَّم و مال ہے لیکن امام ابویوسفؒ اس سے بھی عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کو جائز نہیں رکھتے۔ (اس پر تفصیلی بحث آگے آتی ہے)
۲۔ مستا ٔمن مسلمان دارالکفر اور دارالحرب میں
دارالاسلام کی رعایا سے جو شخص عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں امان لے کر جائے اس کو اسلامی اصطلاح میں ’’مستامن‘‘ کہتے ہیں، یہ شخص اگرچہ اسلامی حکومت کے حدود قضا (Jurisdiction) سے باہر ہو جانے کی بنا پر ہمارے قانونِ ملکی کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے، مگر پھر بھی اس کو ایک حد تک اسلامی حکومت کا تحفظ حاصل رہتا ہے اور التزامِ احکام اسلامی کی ذمہ داری اس پر سے بالکل ساقط نہیں ہو جاتی۔ ہدایہ میں ہے:
اَلْعِصْمَۃُ الثَّابِتَۃُ بِالإِحْرَازِ بِدَارِ الْإِسْلَامِ لَاتُبْطَلُ بِعَارضِ الدُّخُوْلِ بِالْأَمَانِ۔{ FR 2502 }
دارالاسلام کی حفاظت سے جو عصمت ہوتی ہے وہ عارضی طور پر امان لے کر داخل ہونے سے باطل نہیں ہو جاتی۔
اس قاعدے پر حسب ذیل مسائل متفرع ہوتے ہیں:
(۱) جس دارالکفر سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو، وہاں مستامن مسلمان کے لیے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہاں کے کفار مباح الدم و الاموال ہی نہیں ہیں، اور جب عقود فاسدہ کے جواز کی بنا اِباحت پر رکھی گئی ہے تو اباحت کے مرتفع ہونے سے وہ چیز آپ سے آپ مرتفع ہو جاتی ہے جو اس پر مبنی ہے۔
(۲) اگر کوئی مستا ٔمن مسلمان ایسے دارالکفر میں عقود فاسدہ پر معاملہ کرے یا بدعہدی یا غصب اور سرقہ سے کوئی چیز لے کر آ جائے تو اسلامی حکومت اس پر نہ کوئی مقدمہ قائم کرے گی اور نہ اس پر کوئی ضمان لازم{ FR 2344 } ہوگا۔ البتہ دینی حیثیت سے اس کو ان تمام افعال سے رجوع کا مشورہ دیا جائے گا جو اس نے شریعت کے خلاف کیے ہیں:
(۳) عقود فاسدہ کو مستثنیٰ کرکے باقی تمام معاملات میں اس مستامن کے لیے بھی حنفی فقہ کے یہی احکام ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ میں امان لے کر داخل ہوا ہو۔
لَوْدَخَلَ إِلَیْھِمْ تَاجِرٌ بِأَمَانٍ فَسَرَقَ مِنْھُمْ جَارِیَۃً وَأَخْرَجَھَا۔۔۔ فُھُوَا مَأْمُورٌ بِرَدِھَا عَلَیْھِمْ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَبِّہٖ وَإِنْ کَانَ لَا یُجْبِرُہٗ الْإِمَامُ عَلیٰ ذَالِکَ۔{ FR 2503 }
اگر کوئی تاجر دارالحرب میں امان لے کر جائے اور ان کے ہاں سے کوئی لونڈی چرا لائے … تو فیما بینہ و بین اللّٰہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے اگرچہ امام اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے گا۔
وَإِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِأمَانٍ فَدَایَنَھُمْ أَوْدَایَنُوہٗ أَوْغَصَبَھُمْ أَوْ غَصَبُوہٗ لَمْ یُحْکُمْ فِیْمَا بَیْنَھبمْ بِذَالِکَ۔۔۔ وَإِنَّمَا ضَمِنَ الْمُسْتَأْمِنُ لَھُمْ أَنْ لَا یَخُوْ نَھُمْ وَإِنَّمَا غَدَرَ بِأَمَانِ نَفْسِہِ دُوْنَ الْإِمَامِ فَیُفْتٰی بِالرَّدِ وَلَایُجَبَرُ عَلَیْہِ فِی الْحُکْمِ۔{ FR 2504 }
اگر مسلمان دارالحرب میں امان لے کر داخل ہو اور ان سے قرض لے یا وہ اس سے قرض لیں یا وہ ان کا مال غصب کر لے یا وہ اس کا مال غصب کر لیں تو ان کے درمیان دارالاسلام میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا …مستا ٔمن نے بطور خود ان سے خیانت نہ کرنے کا ذمہ لیا تھا، اور اب جو اس نے غدر کیا تو یہ امام کے معاہدے میں نہیں بلکہ خود اپنے ذاتی معاہدے میں غدر کیا ہے اس لیے اس کو واپس کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا مگر حکماً اس پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
(امام ابویوسفؒ کو اس سے اختلاف ہے کیونکہ وہ مسلمان کو ہر جگہ ملتزم احکامِ اسلام قرار دیتے ہیں۔)
اگر کوئی مستا ٔمن مسلمان دارالحرب میں کسی کو قتل کر دے یا اس کے مال کو نقصان پہنچائے تو دارالاسلام میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی، البتہ اس کے دین کے لحاظ سے ایسا کرنا اس کے لیے ناجائز ہے۔ (وَأَکْرَہُ لِمْمُسلِمِ الْمُسْتَأَمِنِ إِلَیْھِمْ فِی دِیْنِہِ أَنْ یَغْدِرَ رَبَّھُمْ لِأَنَّ الْغَدْرَ حَرَامٌ۔){ FR 2505 }
اگر مستا ٔمن مسلمان دارالحرب سے غصب کرکے یا چرا کر کوئی مال لے آئے تو مسلمان کے لیے اس کو خریدنا مکروہ ہے لیکن اگر وہ خرید لے تو یہ بیع ردّ نہ کی جائے گی کیونکہ قانوناً نفس بیع و شرا میں کوئی نقص نہیں ہے، البتہ اصلاً چونکہ یہ مال غدر ہے اس لیے وہ مسلمان اپنے دین کے لحاظ سے اس کو واپس کرنے پر مامور ہے۔ (وَالنَّھْیُ عَنِ الشِّرائِ مِنْہٗ لَیْسَ لِمَعَنیً عَیْنَ الشِّرَائِ فَلَایُمْنَعُ جَوَازُہٗ۔۔۔ وَھٰھُنَا الْکَرَاھَۃُ لِمَعْنیَ الْغَدْرِ وَکَانَ مَأَمُوراً بِرَدِّھَا عَلَیْھِمْ دِینًا۔{ FR 2506 }
(۴) مستامن مسلمان ’’دارالحرب‘‘ میں اہل حرب سے سود لے سکتا ہے، جوا کھیل سکتا ہے خمر اور خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ بیچ سکتا ہے اور تمام ان طریقوں سے ان کا مال لے سکتا ہے جن پر خود اہل حرب راضی ہوں۔ یہ امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ کا مذہب ہے۔ امام ابویوسفؒ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ فریقین کے دلائل جو امام سرخسیؒ نے نقل کیے ہیں لائق غور ہیں:
’’مستا ٔمن کے لیے اہل حرب سے سود پر نقد یا قرض معاملہ کرنا یا خمر یا خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ فروخت کرنا، ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے، مگر ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ناجائز ہے۔ امام ابویوسف کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان ملتزم احکام اسلام ہے خواہ کہیں ہو اور اس نوع کے معاملے کی حرمت اسلام کے احکام میں سے ہے، کیا نہیں دیکھتے کہ حربی مستأمن سے ہمارے دار میں ایسا معاملے کیا جائے تو جائز نہ ہوگا، پس جب یہاں یہ ناجائز ہے تو دارالحرب میں بھی ناجائز ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں مقدم الذکر دونوں امام فرماتے ہیں کہ یہ تو دشمن کے مال کو اس کی مرضی سے لینا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ ان کے اموال ہمارے لیے مباح ہیں۔ مستأمن نے ذمہ داری صرف اس قدر لی تھی کہ ان سے خیانت نہ کرے گا مگر جب اس نے ان عقود کے ذریعے سے اس کی رضا کے ساتھ یہ مال لیا تو غدر سے تو یوں بچ گیا اور حرمت سے اس طرح بچا کہ یہ مال اس نے عقد کے اعتبار سے نہیں بلکہ اباحت کی بنا پر لیا ہے ۔ رہا دارالاسلام میں حربی مستأمن کا معاملہ تو وہ اس سے مختلف ہے کیونکہ اس کا مال امان کی وجہ سے معصوم ہوگیا ہے۔ اس لیے اباحت کی بنا پر اس کو نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ { FR 2507 }
امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے لیے اہل حرب کے اموال کو لوٹنا اور چھین لینا حلال ہے تو ان کی مرضی سے لینا بدرجہ اولیٰ حلال ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام کے حدود سے باہر ان کے لیے کوئی امان نہیں ہے، مسلمانوں کے لیے ہر ممکن طریقے سے ان کا مال لینا جائز ہے۔‘‘{ FR 2508 }
’’امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ مسلمان چونکہ اہل دارالاسلام میں سے ہے اس لیے وہ حکم اسلام کی بنا پر ہر جگہ ربوٰ سے ممنوع ہے۔ اس کے فعل کی یہ توجیہہ درست نہیں کہ وہ کافر کے مال کو بطیب نفس لے رہا ہے، بلکہ وہ اس کو دراصل اس خاص صورت معاملے کی بنا پر لیتا ہے، کیونکہ اگر وہ خاص صورت معاملہ (یعنی عقد فاسد) نہ ہو تو کافر اس کو کسی دوسری صورت سے اپنا مال دینے پر راضی نہ ہوگا … اگر دارالحرب میں ایسا کرنا جائز ہو تو مسلمانوں کے دارالاسلام میں بھی اس طرح کا معاملہ جائز ہوگا کہ ایک شخص ایک درہم کے بدلے دو درہم لے اور دوسرے درہم کو ہبہ کے نام سے موسوم کر دے۔‘‘ { FR 2509 }
ہمارا مقصود دونوں اقوال میں محاکمہ کرنا نہیں ہے۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود امام ابوحنیفہؒ کے مذکورہ بالا اقوال سے اور ان کے مذہب کے دوسرے مسائل سے جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں چار باتیں صاف طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
اولاً: یہ معاملہ صرف اس مسلمان کے لیے جائز ہے جو دارالاسلام کی رعایا ہو اور امان لے کر دارالحرب میں جائے۔
ثانیاً: یہ معاملہ صرف ان حربی کافروں سے کیا جا سکتا ہے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں۔
ثالثاً :اس طریقے سے جو مال لیا جائے گا وہ غنیمت نہ ہوگا۔ اس لیے کہ نہ تو وہ اشرف الجہات سے ہے، نہ اس میں دین کا اعزاز ہے، نہ اس میں خمس ہے، بلکہ وہ مجرد اکتساب مال ہے د اسی طرح وہ فَے بھی نہیں ہے کیونکہ فَے حکومت اسلام کی مِلک ہوتی ہے اور یہ مال وہ شخص خود لیتا ہے، بیت المال میں داخل نہیں کرتا۔
رابعاً :اس طریقے سے کفار کا مال لینا صرف جواز قانونی کے درجے میں ہے، بلکہ جواز کی آخری حد پر ہے اور اس کی قانونی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کرے گا تو امام صاحب کی رائے میں دیناً بھی اس کو یہ مال واپس کرنے کا فتویٰ نہ دیا جائے گا، بخلاف مال غدر کے کہ اگرچہ قضائً اسے واپسی پر مجبور نہ کیا جائے گا مگر دیناً اس کو واپس کر دینے کا حکم دیا جائے گا۔
خامساً: مستا ٔمن مسلمان جس طرح دارالحرب کے کافروں سے عقود فاسدہ پر معاملہ کر سکتا ہے اسی طرح وہ وہاں کے مسلمان باشندوں سے بھی ایسا کرنے کا مجاز ہے، کیونکہ ان کے اموال بھی مباح ہیں۔ اس کے حوالے ہم اس سے پہلے درج کر چکے ہیں اور آگے بھی یہ بحث آ رہی ہے۔
۳۔ دارالکفر اور دارالحرب کی مسلم رعایا
وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہیں اور دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں اسلام کی حفاظت سے خارج ہیں۔ اگرچہ اسلام کے تمام احکام اور حدودِ حلال و حرام کی پیروی مذہباً اُن پر لازم ہے، لیکن اسلام ان کی ذمہ داری سے بری ہے۔ جیسا کہ خود نبیa نے فرما دیا ہے۔ غنیمت اور فَے میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں جیسا کہ بصراحت حدیث میں مذکور ہے اور دنیوی حیثیت سے ان کے نفوس اموال غیر معصوم ہیں، کیونکہ عصمت ’مقوّمہ ان کو حاصل نہیں۔
اگر ایسے مسلمان ’’حربی‘‘ قوم سے ہوں تو گویا مباح الدَّم و الاموال ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قاتل پر قصاص کیا معنی دیت بھی نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں کفارہ تک نہیں۔ اس باب میں فقہا کے چند اقوال ہم بے کم و کاست نقل کر دیتے ہیں جن سے دارالحرب کی مسلمان رعیت کا قانونی مقام آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔
لَا قِیْمَۃَ لِدَمِ الْمُقِیْمِ فِی دَارالْحَرْبِ بَعْدَ إِسْلَامِہِ قَبْلَ الْھِجْرَۃِ إِلَیْنَا۔۔۔ أَجْرَوْہُ أَصْحَابُنَا مُجْرَی الْحَرَبِیّ فِی إِسْقَاطِ الضَّمَانِ عَنْ مُتْلِفِ مَالِہِ۔۔۔ کَمَالِ الْحَرْبِیّ مِنْ ھٰذَا الْوَجْہِ وَلِذَالِکَ أَجَازَأبُوْ حَنِیْفَۃُ مُبَایَعَتَہُ عَلَی سَبِیْلِ مَایَجُوُز مُبَایَعَۃَ الْحَرْبِیِّ مِنَ بَیْعِ الدِّرْھَمِ بِالدِّرْ ھَمَیْنِ فِی دَارِ الْحَربِ۔{ FR 2510 }
جو شخص مسلمان ہونے کے بعد ہجرت نہ کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں … ہمارے اصحاب نے اس کو حربی کے درجے میں قرار دیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کے مال کو نقصان پہنچانے والے پر کوئی ضمان نہیں … اس کا مال اس لحاظ سے حربی کے مال کی طرح ہے۔ اسی لیے ابوحنیفہؒ نے اس کے ساتھ بھی خریدوفروخت کی وہ صورت جائز رکھی ہے جو حربی کے ساتھ جائز رکھی ہے، یعنی دارالحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا، یعنی سود۔
مَنْ فِی دَارِ الْحَرْبِ فِی حَقّ مَنْ ھُوَ فِی دَارِ الإِسْلَامِ کَاْلْمَیِتِ۔{ FR 2511 }
جو شخص دارالحرب میں ہے وہ دارالاسلام والے کے لیے گویا مردہ ہے۔
إِنْ تَتْرُسُوا بِأَطْفَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَا بَأسَ بِالرَّمْیِ إِلَیْھِمْ وَإِنْ کَانَ الرَّامِی یَعْلَمُ أَنَّہُ یُصُیْبُ الْمُسْلِمَ۔۔۔ وَلَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ وَلَادِیَۃً۔{ FR 2512 }
اگر اہل حرب مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنائیں تو ان پر نشانہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ نشانہ لگانے والا جانتا ہو کہ مسلمان کو نشانہ بنا رہا ہے … اس پر نہ دیت ہے نہ کفارہ۔
وَاِذَ اَسْلَمَ الْحَرْبِیُّ فِی دَارِ الْحَرْبِ ثُمَّ ظَھَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی تِلْکَ الدَّارِ تُرِکَ لَہُ مَا فِی یَدَیْہِ مِنْ مَالِہِ وَرَقِیْقِہِ وَوَلَدِہِ الصّغَار۔۔۔ فَأَمَّا عِقَارُہُ فَانَّھَا تَصِیْرُ غَنِیْمَۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ فِی قَوْلِ أَبِ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ وَقَالَ أَبُویُوْسُفُ أَسْتَحْسِنُ فَأَجْعَلُ عِقَارَہُ لَہُ۔{ FR 2513 }
اگر حربی دارالحرب میں مسلمان ہو پھر اس دار پر مسلمان فتح پائیں تو اس کا مال اور اس کے غلام اور اس کے نابالغ بچے چھوڑ دیئے جائیں گے … مگر اس کی غیر منقولہ جائیداد مسلمانوں کے لیے غنیمت قرار دی جائے گی۔ یہ ابوحنیفہؒ اور محمدؒ کا قول ہے۔ ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ میں احسان کے طور پر غیر منقولہ جائیداد بھی اس کے پاس رہنے دوں گا۔
وَأکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَطَأَ أَمَتَہُ أَوْإِمْرأَتَہُ فِی دَارِ الْحَرْبِ مَخَافَۃً أَنْ یَکُونَ لَہُ فِیْھَا نَسْلٌ لِأَنَّہُ مَمْنُوْعٌ مِنَ التَّوَطَّنِ فِی دَارِ الْحَربِ۔۔۔ وَإِذَا خَرَجَ رُبَّمَا یَبْقٰی لَہُ نَسْلٌ فَیَتَخَلَّقُ وَلَدُہُ بِأَخْلَاقِ الْمُشْرِکِیْنَ۔{ FR 2514 }
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے لیے اس کو بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ وہ دارالحرب میں اپنی لونڈی یا بیوی سے مباشرت کرے ، خوف ہے کہ کہیں وہاں اس کی نسل نہ پیدا ہو کیونکہ مسلمانوں کے لیے دارالحرب کو وطن بنانا ممنوع ہے … اور اس لیے کہ اگر وہ وہاں سے نکل آیا اور اپنی نسل وہاں چھوڑ آیا تو اس کی اولاد مشرکین کے اخلاق اختیار کرے گی۔
آخری بات جو اس سلسلے میں ڈرتے ڈرتے ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام اعظمؒ کی رائے میں دارالحرب کے مسلمان باشندوں کے لیے ایک دوسرے سے سود کھانا مکروہ ہے، لیکن اگر وہ ایسا معاملہ کریں تو اس کو ردّ نہ کیا جائے گا۔ اس رائے سے امام محمدؒ نے بھی اختلاف کیا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں مسلمانوں کا مال معصوم عن التملک بالاخذ{ FR 2345 } ہے، جب مسلمان اس ملک پر فتح پانے کی صورت میں ان کے مال کو غنیمت قرار نہیں دے سکتے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کا مال غنیمت کے طور پر لینے کا کیا حق ہے‘ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے اپنی رائے کی تائید میں جو قانونی استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قانونی حیثیات کے پیچیدہ اور نازک فروق کو سمجھنے میں امام صاحب کا تفقہ کس قدر بڑھا ہوا تھا۔ ہم اس بیان کو لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں کیونکہ اس سے اصول قانون کے ایک اہم مسئلے پر روشنی پڑتی ہے۔ فرماتے ہیں:
بِألإِسْلاَمِ قَبْلَ الإِحَرَازِ تَثْبُتُ الْعِصْمَۃُ فِی حَقِّ الْاِمَامِ دُوْنَ الْأَ احْکَامِ الَٔاَتَرَیَ أَنَّ أَحَدَھُمَا لَوْأَتْلَفَ مَالَ صَاحِبِہٖ أَوْ نَفْسِہٖ یَضْمَنْ وَھُوَ اٰثِمٌ فِی ذَالِکَ وَإِنَّمَا تَثْبُتُ الْعِصْمَۃَ فِی حَقِّ الْأَحْکَامِ بِالإِحْرَازِ وَالْإِحْرَازِ بِالدَّار لَا بِالدِّیْن لِأَنَّ الّدِیْنَ مَانِعٌ لِمَنْ یَعْتَقِدُہُ حُقًّا لِشَّرْعِ دُوْنَ مَنْ لَا یَعْتَقِدُہُ وَبِقُوَّۃِ الدَّار یَمْنَعُ عَنْ مَالِہٖ مَنْ یَعْتَقِدُ حُرْمَتَہُ وَمَنْ لَمْ یَعْتَقِدُہُ فَلِثَبُوتِ الْعِصْمَۃِ فِی حَقِّ الْآثِمِ قُلْنَا یُکْرَہُ لَھُمَا ھٰذَا الصَّنْیِع وَلِعَدَمِ الْعِصْمَۃِ فِی حَقُ الْحُکْم قُلْنَا لَایُؤْمُرأَنْ یَرُدَّمَا أَخَذَہُ لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا إِنَّمَا یَمْلِکُ مَالَ صَاحِبِہِ بِاْلْأَخِذِ۔{ FR 2515 }
(المبسوط ج ۱۴ ص ۵۸)
دارالاسلام کی حفاظت میں آنے سے پہلے محض اسلام سے جو عصمت ثابت ہوتی ہے وہ صرف امام کے حق میں ہے مگر احکام میں نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں ہو اگر ان دونوں مسلمانوں میں سے ایک شخص دوسرے کا مال یا جان تلف کر دے تو اس پر ضمان نہ ہوگا حالانکہ وہ ایسا کرنے میں گناہ گار ہوگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ احکام میں عصمت صرف حدود دارالاسلام کے اندر ہونے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ حفاظت دار کے سبب سے ہے نہ کہ دین کے سبب سے۔ دین تو حق شرع کے لحاظ سے صرف ان لوگوں کو روکتا ہے جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوں اور ان کو نہیں روکتا جو اسے نہ مانتے ہوں۔ بخلاف اس کے دار کی قوت سے آدمی کے مال کی حفاظت اس کے مقابلے میں بھی کی جاتی ہے جو اس کی حرمت کا اعتقاد رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں بھی جو ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔ پس گناہ ہونے کی حیثیت سے جو عصمت ثابت ہے، اس کی بنا پر ہم نے کہا کہ ان کے لیے یہ فعل مکروہ ہے اور قانون کے لحاظ سے عدمِ عصمت کی بنا پر ہم نے یہ کہا کہ اس کا لیا ہوا مال واپس کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مال جب لیتا ہے تو محض لے لینے ہی کی وجہ سے اس کا مالک ہو جاتا ہے۔
یہاں امام صاحب نے اسلامی قانون کے تینوں شعبوں کی طرف اشارات کر دیے ہیں۔ اعتقادی قانون کے لحاظ سے مسلمان کا مال بلا لحاظ اس کے کہ وہ دارالاسلام میں ہو یا دارالکفر میں یا دارالحرب میں بہر حال معصوم ہے اور اس عصمت کا مآل یہ ہے کہ اس کی بنا پر خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق کے خلاف لینے والا گناہ گار ہوگا۔ دستوری قانون کے لحاظ سے دارالاسلام میں رہنے والے کافر کے مال کو جو عصمت حاصل ہے وہ دارالکفر میں رہنے والے مسلمان کو حاصل نہیں اس لیے اگر دارالکفر کا کوئی دوسرا مسلمان اس کو حرام طریقے سے لے لے تو خدا کے ہاں گناہ گار ہوگا مگر دنیا میں اس پر اسلامی حکم جاری نہ ہوگا۔ تعلقات خارجیہ کے قانون کی نگاہ میں کفار کے درمیان رہنے والا مسلمان اپنے تمدنی حقوق اور واجبات کے لحاظ سے انھی کافروں کا شریک حال ہے اس لیے وہ بھی اسی طرح نفس اخذ سے مال کا مالک ہوتا ہے جس طرح خود کفار مالک ہوتے ہیں۔ پس اگر اس بنیاد پر دارالکفر میں مسلمان مسلمان سے سود کھائیں یا مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے سود کھائیں تو وہ ان اموال کے مالک تو ہو جائیں گے اور ان کو واپس کرنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سود کھانے اور کھلانے والے مسلمان گناہ گار نہ ہوں گے۔
٭…٭…٭

شیئر کریں