(از جناب مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی مرحوم)
(سود کی بحث میں علما کے ایک گروہ نے یہ پہلو بھی اختیار کیا ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور دارالحرب میں حربی کافروں سے سود لینا جائز ہے۔ جناب مولانا مناظر احسن صاحب نے ذیل کے مضمون میں اس پہلو کو پوری قوت کے ساتھ پیش فرمایا ہے اور ہم یہاں اسے اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ یہ پہلو بھی ناظرین کے سامنے آ جائے۔ اس مضمون پر مفصل تنقید ہم نے بعد کے باب میں کی ہے لیکن بعض اُمور کا جواب برسر موقع حواشی میں بھی دے دیا ہے۔ اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ یہ بحث ۳۷۔۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی۔)
غیر اسلامی مقبوضات کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر
غیر اسلامی مقبوضات کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اس ملک میں اسلامی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی، یا ہوئی، لیکن بین الاقوامی کش مکش کے سلسلے میں اس ملک پر غیر اسلامی قوتوں کا قبضہ ہوگیا۔ پہلی صورت میں تو ایسے ملک کے غیر اسلامی مقبوضہ اور غیر مسلم مملکت ہونے میں کیا شبہ ہے۔ غیر اسلامی حکومت کو اسلامی حکومت کون کہہ سکتا ہے؟ لیکن بحث ذرا دوسری صورت میں پیدا ہو جاتی ہے۔ قاضی القضاۃ للدولۃ العباسیہ امام ابویوسف اور مدوّن فقہ امام محمد شیبانی کا اس کے متعلق فتویٰ یہ ہے:
إِنَّھَا تَصِیْرُ دَارَالْکُفْرِ بِظُہُوْرِ اَحْکَامِ الْکُفْرِ فِیْہَا۔{ FR 2419 }
دارالاسلام (اسلامی ملک) اس وقت دارالکفر (غیر اسلامی ملک) ہو جاتا ہے جب کہ غیر اسلامی (کفر کے) قوانین کا وہاں ظہور (نفاذ) ہو جائے۔
فتاویٰ عالمگیر یہ میں غیر اسلامی احکام کے ظہور کی شرح یہ کی گئی ہے:
عَلَی سَبِیلِ الْاِشْتِہَارِ وَاَنْ لَا یَحْکُمَ فِیْہَا بِحُکْمِ الْاِسْلاَمِ۔{ FR 2420 }
یعنی علانیہ ظہور ہواور اس ملک میں اسلام کے قوانین سے فیصلے نہ کیے جائیں۔
مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں اللہ کے کلام اور خاتم النبیین کے ارشادات گرامی سے اخذ کردہ قانون نافذ نہ رہے وہی ملک غیر اسلامی ملک اور وہی حکومت غیر اسلامی حکومت سمجھی جائے گی۔ خواہ وہاں کوئی قانون نافذ نہ ہو، یا ہو تو غیر اسلامی دماغوں یا غیر اسلامی مستندات سے ماخوذ ہو۔ بہرحال جس ملک سے اسلامی حکومت کا قانون زائل ہوگیا اور اس میں غیر اسلامی قانون نافذ ہوگیا نہ وہ اسلامی ملک باقی رہتا ہے اور نہ وہ حکومت اسلامی حکومت سمجھی جا سکتی ہے۔ اور یہ تو پھر بھی ایک اجمالی تعبیر ہے۔ امام الائمہ ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے زیادہ وضاحت سے کام لے کر غیر اسلامی ملک کی حقیقی تنقیح ان لفظوں میں فرمائی ہے:
إِنَّھَا لَا تَصِیْرُ دَارَالْکُفْرِ اِلاَّ بِثَلاَتِ شَرَائِطٍ اَحَدُہَا ظُہُوْرُ اَحْکَامِ الْکُفْرِ فِیْہَاوَ اَلثَّانِیْ اَنْ تَکُوْنَ مُلْحِقَۃً بدارِ الْکُفْرِ وَالثَّالِثِ اَنْ لَا یَبْقٰی فِیْہَا مُسْلِمَ وَلَا ذِمِّیٌ اٰمِنَا بِالاَمَانِ الْاَوَّلِ۔ { FR 2421 }
دارالاسلام (اسلامی ملک) دارالکفر (غیر اسلامی ملک) تین شرطوں سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کفر کے احکام (غیر اسلامی قوانین) کا وہاں ظہور و نفاذ ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ کسی دارالکفر (غیر اسلامی ملک) سے متصل ہو۔ تیسرے یہ کہ اس ملک میں کوئی مسلمان یا ذمی اس امان کے ساتھ نہ ہو جو اسے پہلے حاصل تھی۔
یوں تو دنیا میں اس وقت زیادہ تر غیر اسلامی حکومتیں ہیں، لیکن نہ ان کے واقعی حالات میرے سامنے ہیں اور نہ ان کی تمام خصوصیات کے متعلق میرے پاس کوئی شرعی شہادت موجود ہے لیکن ہندوستان{ FR 2280 } ہمارے سامنے موجود ہے۔ بطور مثال اسی ملک کو لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے غیر اسلامی ملک کی جو قانونی تنقیح فرمائی ہے وہ اس پر کس حد تک منطبق ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اس ملک میں شریعت کی نہیں بلکہ انگریزی قانون کی حکومت ہے۔ کلام اللہ اور احادیث نبویہ سے جو اسلامی قانون پیدا ہوتا ہے وہ یہاں قطعاً نافذ نہیں ہے بلکہ غیر اسلامی دماغوں (خواہ وہ ایک ہوں یا چند، ہندی ہوں یا غیر ہندی) کے تجویز کردہ قوانین اس ملک میں نافذ ہیں۔ اس لحاظ سے تو اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ غیر اسلامی احکام کا ظہور ’’نفاذ‘‘ جو امام رحمتہ اللہ علیہ کی تنقیح کی پہلی شرط تھی وہ اس پر بالکلیہ منطبق ہے۔
اسی طرح دوسری شرط کے انطباق پر بھی کون شبہ کر سکتا ہے؟ جغرافیائی طور پر کس کو معلوم نہیں ہے کہ ہندوستان کے اکثر حدود غیر اسلامی ممالک اور حکومتوں سے متصل ہیں اور اس طرح متصل ہیں کہ بیچ میں کوئی اسلامی ملک واقع نہیں ہوتا۔ عالمگیری میں ہے:
بِاَنْ لَا یَتَخَلَّلٌ بَیْنَھُمَا بَلْدَۃٍ مِنْ بِلَادِ الْاِسْلاَمِ۔ { FR 2422 }
کہ دارالکفر اور دارالاسلام کے درمیان کوئی اسلامی شہر واقع نہ ہو۔
شمال اور مشرق تو خشکی کے حدود سے محدود ہیں۔ رہے دریائی حدود تو اوّلاً بالبداہۃ ان دریاؤں پر غیر اسلامی قوتوں کا کامل اقتدار موجود ہے‘ حتیٰ کہ بغیر ان کی اجازت کے ان سمندروں میں کوئی دوسرا اپنا کوئی جہاز بھی چلا نہیں سکتا۔ اور بالفرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو صرف خشکی کا اتصال ہی تکمیل شرط کے لیے کافی ہے۔ نیز فقہائے اسلام کی عام تصریح سمندروں کے متعلق یہ ہے:
إِنَّ بَحْرَ الْمِلْحِ مُلْحَقٌ بِدَارِ الْحَرْبِ۔{ FR 2423 }
دریائے شور کا شمار غیر اسلامی مقبوضات میں ہے۔ { FR 2281 }
بہرحال جس طرح بھی سوچو، اس شرط کی تحقیق میں بھی کوئی دغدغہ باقی نہیں ہے۔ امامؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ایسے ملک پر غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے جو چاروں طرف سے اسلامی حکومت و اقتدار سے محصور ہو تو یہ قبضہ دیرپا اور ایسا نہیں سمجھا سکتا کہ اب اسلامی حکومت کا قیام وہاں مشکل ہے۔ فقہا نے اس کی تصریح بھی کی ہے اور آگے ایک مسئلے کے ذیل میں اس کا کچھ حصہ آئے گا۔
اب رہ گئی تیسری شرط تو ظاہر ہے کہ مختلف قوانین و تعزیرات کے ذیل میں اور قوموں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یہاں آئے دن پھانسی دی جاتی ہے اور اس کی بالکل پرواہ نہیں کی جاتی کہ آیا اسلامی قانون کی رُو سے بھی یہ شخص جانی امان کے دائرے سے نکل چکا ہے یا نہیں۔ اسی طرح یہاں کی عدالتیں عام طور پر موجودہ قوانین کی رو سے مسلمانوں کا مال دوسروں کو دلا رہی ہیں اور اس امر کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ اس شخص کا مال اسلامی قانون کی رُو سے بھی دوسرے کو دلانا جائز ہے یا نہیں۔ روزمرہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کے سود کی ڈگریاں عدالتوں سے جاری ہو رہی ہیں اور ایک سود کیا ایسی بے شمار صورتیں ہیں جن میں اسلامی شریعت کے لحاظ سے ایک شخص کا مال مامون اور محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن ملکی قانون اس کا حقدار دوسروں کو سمجھتا ہے۔
یہ تو جانی اور مالی امان کا حال ہوا۔ اب عزت کی امان کا حال دیکھو! مسلمانوں کو قید کی، عبور دریائے شور کی ، جرمانے کی، تازیانے کی اور مختلف قسم کی سزائیں مختلف قانونی دفعات کے ذیل میں دی جاتی ہیں‘ لیکن کیا اس وقت اس کا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس سزا پانے والے کی عزت اسلامی قانون کی رو سے بھی اس سلوک کی مستحق ہو چکی تھی؟ میں نہیں کہنا چاہتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو امن نصیب نہیں ہے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ انھیں اسلامی امن حاصل نہیں ہے ، کیونکہ امام ابوحنیفہؒ نے خود امان کی تشریح میں جو الفاظ ارشاد فرمایا ہے وہ یہ ہے:
آمناً بِالْاَمَانِ الْاَوَّلِ ہُوَ اَمَانُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔{ FR 2424 }
یعنی وہ امان جو مسلمانوں کے قانون کے لحاظ سے ہو۔
عالمگیری میں اس کی توضیح اور زیادہ کھلے لفظوں میں کر دی گئی ہے:
اَیْ الَّذِیْ کَانَ ثَابِتًا قَبْلَ اِسْتِیْلاَئِ الْکُفَّارِ لِلْمُسْلِمِ بِاِسْلاَمِہٖ وَلِلِذِّمِّیِ بِعَقْدِالذِّمَۃِ۔ { FR 2425 }
یعنی غیر اسلامی حکومت کے تسلط سے پیشتر مسلمانوں کو اپنے اسلام کی وجہ سے اور ذمیوں کو عقد ذمہ کی وجہ سے جو امان تھی وہ باقی نہ رہے۔
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جس ملک میں غیر اسلامی قوتوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور جس ملک میں غیر اسلامی قوانین نافذ ہو چکے ہیں اس کو اسلامی ملک کہنا یا وہاں اسلامی راج ہونے کا دعویٰ کرنا ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ دوسروں کے ملک کو، دوسروں کی حکومت کو زبردستی اسلامی ملک فرض کرنے کی دنیا کی کون سی حکومت مسلمانوں کو اجازت دے سکتی ہے؟ بلکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اسے جرم قرار دے۔
اسلامی فقہا کبھی کبھی اس ملک کی تعبیر دارالحرب سے کرتے ہیں۔ غالباً اسی سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ متقدمین علمائے اسلام زیادہ تر ایسے ممالک کے متعلق دارالاسلام کے مقابلے میں دارالکفر کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ ابھی ابھی صاحب بدائع کی عبارت گزر چکی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں عموماً دارالکفر کی اصطلاح لکھی ہے جس کے سیدھے اور سادے معنی یہ ہیں کہ ’’جہاں اسلامی حکومت نہ ہو۔‘‘ آخر جہاں اسلامی حکومت نہ ہوگی جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں نہ ہوگا، اس کو کیا مسلمان مسلمانوں کی حکومت اور مسلمانوں کا ملک کہہ دیں؟ لفظوں پر چونکنے کا یہ عجیب لطیفہ ہے یہ تو پہلے سوال کا جواب تھا۔ اب دوسرے سوال کی تفصیل سنیے۔
غیر اسلامی حکومتوں میں مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل
اسلام مسلمانوں کو آزاد فرض کرتا ہے اور آزادی کو ان کا فطری اور آسمانی حق قرار دیتا ہے لیکن فقہائے اسلام نے یہ فرض کرکے کہ اگر عارضی طور پر کسی مسلمان کو غیر اسلامی حکومتوں میں کسی وجہ سے جانے اور رہنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت اس حکومت کے باشندوں سے اس کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی‘ اسلامی قانون کی صراحت کر دی ہے۔ ظاہر ہے کہ قانونی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس مسلمان نے اس ملک کی حکومت سے اس امر کا معاہدہ کیا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین نافذہ کی پابندی کرے گا ، یعنی امن و امان میں خلل انداز نہ ہوگا۔ شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں ایسے مسلمان کو ’’مسلم مستامن‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں معاہدے کے متعلق عام قانون یہ ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَo ﴾ (المومنون23: 8)
کامیاب مسلمان وہ ہیں جو اپنے وعدوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
﴿اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ ﴾ (المائدہ5 : 1)
معاہدوں کی پابندی کرو۔
اسلام نے ’’معاہدہ‘‘ کو مسؤلیت اور ذمہ داری کے ساتھ بشدت وابستہ کر دیا ہے۔ اور یہ تو عام معاہدوں کے متعلق تعلیم ہے۔ خصوصیت کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے متعلق ایک واضح قانون ان لفظوں میں مسلمانوں پر عائد کیا گیا ہے:
﴿الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ ﴾ (التوبہ9:4)
جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا پھر انھوں نے اس معاہدہ کے کسی حصّے کو نہیں توڑا اور تمھارے مقابلے میں کسی دوسرے کی انھوں نے مدد نہیں کی تو ان کے عہد کو پورا کرو۔
اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں کہ عدم عہد یا غیر اقوام کے ’’نقض عہد‘‘ پر کیا احکام مترتب ہوتے ہیں۔ یہاں ’’قانونِ معاہدہ‘‘ کی صرف اس دفعہ کو پیش کرنا ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ان کے معاہدوں کی تکمیل لازمی اور ضروری ہو جاتی ہے۔ آنحضرتa نے اس کی بھی تفصیل فرما دی ہے کہ جو مسلمان معاہدے کو توڑے گا مذہبی حیثیت سے اس کا کیا انجام ہوگا۔ارشاد نبوی ہے:
اِنَّ الْغَادِرَیُنْصَبُ لَہٗ لِوَاٌء یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَیُقَالُ ھٰذِہِ غُدْرَۃَ فُلاَنٍ۔ { FR 2426 }
معاہدہ توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا کہ یہ پیمان شکنی کا نشان فلاں شخص کا ہے۔
وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرِ لِوَائٌ یَومَ الَقِیاَمَۃِ بِقَدْرِ غَدْرَتِہِ…یُرْکَزُ عِنْدَ اِسْتِہِ ۔{ FR 2428 }
ایک دوسری روایت میں ہے کہ پیمان شکن کے مقام مخصوص پر اس کی بدعہدی کے بقدر نشان گاڑا جائے گا اور اسی سے وہ قیامت کے روز پہچانا جائے گا۔
جب لشکر کو رخصت فرماتے تو امرائے جیوش کو حضور a یہ وصیت فرماتے:
لَا تَغُلُّوْا وَلاَ تَغْدِرُوْا۔{ FR 2427 }
دیکھنا کسی کے ساتھ خیانت نہ کرنا اور معاہدہ نہ توڑنا۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے ’’نقض عہد‘‘ کی اجماعی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں:
اَلْغَدْرَ حَرَامٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔ { FR 2429 }
عہد شکنی (غدر) کے متعلق اجماع ہے کہ وہ حرام ہے۔
مسلمانوں کی بے نظیر امن پسندی
ظاہر ہے کہ ’’قانون معاہدہ‘‘ کی ان تحقیقوں کے بعد جو مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت سے امن کا معاہدہ کرنے کے بعد اس کی قلم رو میں بحیثیت ’’مستامن‘‘ رہتا ہے اس کی ذمہ داریاں کتنی سخت ہو جاتی ہیں۔ ہدایہ میں ہے:
اِذَا دَخَلَ الْمُسْلَمُ دَارَالْحَرْبِ تَاجِراً فَلاَ یَحِلُّ بِہِ اَنْ یَتَعَرَّضَ لِشَیْء مِنْ اَمْوَالِہِمْ وَلاَ مِنْ دِمَائِہِمْ لِاَنَّہٗ ضَمَنَ اَنَّ لاَ یَتَعَرَّضَ لَھُمْ بِالْاِسْتِمَانِ۔{ FR 2430 }
یعنی مسلمان جب کسی غیر اسلامی ملک (دارالحرب) میں داخل ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہاں کے باشندوں کے مال یا جان سے وہ کوئی تعرض کرے کیونکہ وہ اس کا ضامن ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا اور یہ ذمہ داری معاہدۂ امن کا نتیجہ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی حکومت سے کوئی معاہدہ کرنے کے بعد اس کی سرزمین میں داخل ہو تو اس حکومت نے دوسروں کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جو قوانین نافذ کیے ہوں ان کی خلاف ورزی کرنا اس کے لیے قطعاً ناجائز ہے۔ جس قسم کے افعال کو اس غیر اسلامی حکومت نے خلافِ قانون قرار دیا ہو، اُن کے ارتکاب کی وجہ سے وہ نہ صرف قانوناً ہی مجرم ہوگا بلکہ ’’قانونِ معاہدہ‘‘ کی رو سے وہ غدر کا مرتکب بھی ہوگا۔ اسلام کا، قرآن کا، خدا کا مجرم ہوگا، گناہ گار ہوگا، ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوگا جس کی حرمت، قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ کیا کوئی ہے جو اپنے مذہب میں بھی غیر اقوام کے قانون و آئین کی پابندی کو اس قدر ضروری ثابت کر سکے۔ مسلمانوں پر بدامنی کا الزام ہے لیکن لوگوں کو معلوم نہیں کہ ان سے زیادہ امن پسند اور پابند آئین و قانون قوم دنیا میں کوئی نہیں۔
﴿فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo ﴾ ( الانعام 81:6)
بعض علمائے اسلام نے غالباً اسی بنیاد پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص ڈاک کے خطوں میں مقررہ وزن سے زیادہ وزن بغیر محصول ادا کرنے کے اضافہ کرتا ہے، اور جو ریل پر مقررہ وزن سے زیادہ وزن کا اسباب لے جاتا ہے، صرف قانون وقت ہی کا نہیں بلکہ عند اللہ بھی مجرم ہے، اپنے مذہب کا مجرم ہے۔
بین الاقوامی قانون کا ایک اہم سوال
یہاں بین الاقوامی قانون کا ایک اہم سوال ہے جس کی توضیح کی سخت ضرورت ہے۔ عموماً اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ممکن ہے کہ دوسرے قوانین میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہو لیکن بین الاقوامی قوانین کے ذیل میں اسلامی قانون نے اس سوال کو اٹھایا ہے۔ مختلف اقوام مختلف اوقات میں موقع پا کر ایک دوسرے پر چڑھائیاں کرتی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم کے جان و مال، مملوکات و مقبوضات پر ہلّہ بول دیتی ہے۔ اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ حملہ جائز ہے یا ناجائز اور جائز ہے تو کن صورتوں میں بلکہ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ سوال ہے کہ ایک قوم نے جو دوسری قوم کے مملوکات پر اس طرح قبضہ کر لیا، آیا یہ قبضہ مفید مِلک صحیح ہے؟ یعنی قبضہ کرنے والا کیا قانونی اور مذہبی حیثیت سے اس کا مالک ہوگیا؟ ایک پکے دین دار آئینی مسلمان کو اس سوال کے حل کی ضرورت عموماً اس وقت پیش آ جاتی ہے جس وقت مثلاً فرض کیجیے کہ کسی انگریز کو جنگ میں جرمنی یا اور کسی قوم کا مال ملا اور انگریز اس کو کسی مسلمان کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ دوسری قوموں کو اس سے بحث ہو یا نہ ہو لیکن مسلمان اپنی کسی ملک کو اس وقت صحیح مِلک نہیں سمجھتا جب تک کہ اسلامی قانون اس کی صحت کا فتویٰ نہ دے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنی شریعت سے پوچھے کہ آیا انگریز جرمنی کے اس مال کا مالک ہوا یا نہیں؟ اگر ہوگیا ہے تو اس کا بیچنا اور ہمارا خریدنا اور خرید کر اپنے تصرف میں لانا صحیح ہوگا لیکن اگر انگریز خود ہی ناجائز مالک بنا ہے تو اس کو بیچنے کا حق نہیں اور جب اسی کو بیچنے کا حق نہیں تو میں خریدنے کے بعد اس کا کس طرح مالک ہو جاؤں گا؟ بہرحال یہ بین الاقوامی قانون کا ایک نہایت دلچسپ سوال ہے ۔ فقہائے اسلامی نے اس کے متعلق ابواب قائم کیے ہیں اور اس کے جزئیات کی انھوں نے کافی تفصیل کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس مسئلے کی چند صورتیں ہیں۔
(۱) ایک تو یہ ہے کہ اگر کسی غیر مسلم{ FR 2282 } قوم کے مملوکات پر اس طرح قبضہ کیا گیا ہے تو اسلام اس قبضے کے بعد قبضہ کرنے والے کو مال کا مالک صحیح قرار دیتا ہے۔ فتح القدیر میں ہے:
اِذَا غَلَبَ التَّرْکُ عَلی کُفَّارِ الرُّوْمِ فَسَبُوْہُمْ وَاَخَذَوْا اَمْوَالَہُمْ مَلَکُوْہَا ۔{ FR 2431 }
اگر ترکی کے کفار یورپ کے کافروں پر قبضہ پا لیں اور ان کو ] غلام بنائیں اور[ ان کے مال لے لیں تو وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمان کے مملوکات پر کامل قبضہ حاصل ہوگیا۔ اس صورت میں بھی امام مالکؒ، امام احمدؒ اور ہمارے ائمہ ابوحنیفہؒ وغیرہ رحمہم اللہ کا فتویٰ یہ ہے:
اِذَا غَلَبُوْا عَلٰی اَمْوَالِنَا وَالْعَیَاذُ بِاللّٰہِ وَاَحْرَزُوْہَا بِدَارِہِمْ مَلَکُوْہَا۔ { FR 2432 }
اور اگر کفار ہمارے یعنی مسلمانوں کے مال پر بھی خدانخواستہ قابو پا لیں اور اس کو اپنے ملک میں لے جائیں تو وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
پس یہی نہیں کہ غیر مسلم ایسی صورت میں صرف غیر مسلم ہی کے مملوکات کا جائز اور صحیح مالک ہو جاتا ہے، بلکہ اگر کافر کو مسلمان کے مالوں پر بھی اس طرح کامل قبضہ حاصل ہو جائے تو اسلام اس ملک کی بھی تصحیح کر سکتا ہے اور کافر کو اس مال کا مالک جائز قرار دیتا ہے۔ کیا یہی اسلام کی نارواداری ہے؟
اموالِ معصومہ و غیر معصومہ اور ان کی اباحت و عدم اباحت
چونکہ ثانی الذکر مسئلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دوسرے ائمہ سے اختلاف ہے اس لیے فقہا نے قرآن و حدیث اور مختلف اسلامی مستندات سے اس قانون کے خالص اسلامی قانون ہونے کے نہایت واضح ثبوت پیش کیے ہیں لیکن مضمون طویل ہوتا جاتا ہے اس لیے اس کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اس موقع پر صرف اس قانونی تنقیح کو پیش کرتا ہوں جس کو قرآن و حدیث سے حاصل کیا گیا ہے:
اِنَّ الْاِسْتِیْلاَئِ وَرَدَ عَلٰی مَالٍ مُبَاحٍ فیَغْعَقِدُ سَبَیَاً لِلْمِلٰکِ۔ { FR 2433 }
جائز اور مباح مال پر کفار کا قبضہ ہوا ہے اس لیے یہ قبضہ مِلک کا سبب بن جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان کا مال مسلمان کے لیے تو بلاشبہ معصوم اور محفوظ ہے، ہر مسلمان ذمہ دار ہے کہ دوسرے مسلمان کے مال کو بلا وجہ نہ لے لیکن غیر قوموں پر یہ قانون عائد نہیں ہوتا۔ ان کے لیے تو یہ مباح ہوگا۔ چنانچہ شامی میں ہے:
لاِنَّ الْعِصْمَۃَ مِنْ جُمْلَۃِ الْاَحْکَامِ الْمَشْرُوْعَۃِ وَہُمْ لَمْ یُخَاطِبُوْا بِہَا فَبَقِیَ فِیْ حَقِّہِمْ مَالَا غَیْرَ مَعْصُوْمٍ وَّ یَمْلِکُوْنَہٗ۔ { FR 2434 }
کیونکہ عصمت تو ایک اسلامی قانون ہے۔ غیر اسلامی ملک کے باشندے اس قانون کے محکوم نہیں ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا مال ان کے حق میں معصوم نہیں ہے۔ یعنی وہ ان کے لیے جائز اور مباح ہے پس وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
اب قدرتی طور پر تیسری صورت سامنے آ جاتی ہے کہ اسی طرح اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم مقبوضات و مملوکات پر قبضہ کر لیا تو وہ اس کا مالک ہوگا یا نہیں؟ اس بین الاقوامی قانون کے اصول سے اس کا جواب بالکل ظاہر ہے۔ جب غیر مسلم مسلمان کے مال کا مالک ہو جاتا ہے تو آخر مسلم کو بھی یہ حق مذہباً و دیناً و اخلاقاً و قانوناً کیوں نہ دیا جائے گا؟ بدائع میں ہے:
مَالُ الْحَرٰبِیْ مُبَاحٍ وَھٰذَا لِاَنَّہٗ لَا عِصْمَۃَ لِمَالِ الْحَرْبِیِّ۔{ FR 2435 }
یعنی غیر مسلم جس کی جان و مال کی ذمہ دار کوئی اسلامی حکومت نہیں ہے۔ اس کا مال مباح ہے کیونکہ ایسے غیر مسلم کا مال معصوم نہیں ہے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ جن قوموں نے اپنی جان و مال کی ذمہ داری مسلمانوں کے سپرد نہیں کی ہے۔ اسلام کی حفاظت اور ذمہ داری سے جنھیں انکار ہے، اگر اسلام بھی ان کی ذمہ داریوں سے انکار نہ کرے تو آخر وہ کیا کرے؟ تم اگر خدا سے برأت کا اعلان کرتے ہو تو خدا بھی تمھاری جان و مال کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیوں نہ کرے؟ اس لیے قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ ﴾ (التوبہ9:3)
شرک کرنے والوں سے خدا بری ہے۔
اس کے سوا کوئی اور صورت کیا ہو سکتی تھی؟ جب دنیا کی تمام قومیں موقع اور قوت پا کر مسلمانوں کی جان و مال اور مملوکات پر قبضہ کر لیتی ہیں جیسا کہ قرآن کا خود بیان ہے کہ:
﴿اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَo ﴾ ( الممتحنہ60:2)
اگر تم پر ان کو قابو مل جائے تو وہ تمھارے دشمن بن جائیں، اپنے ہاتھ چھوڑیں، زبان سے برائی پہنچائیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی خدا کے ناشکرے بن جاؤ۔
تو کیا اس قرآنی اور واقعی حقیقت کے بعد یہ ظلم نہ ہوتا اگر مسلمانوں کا مذہب ان کو بھی اس کی اجازت نہ دیتا؟ قرآن نے اگر اس کے بعد یہ حکم دیا ہے کہ:
﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ﴾ ( التوبہ 29:9)
مقاتلہ کرو ان لوگوں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا اور نہ سچے آئین اور دین کو اپنی زندگی کا دستور العمل بناتے ہیں ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی۔
تو کیا اس کا مفاد اس کلیے سے زائد ہے جو ابھی اسلامی فقہا کی تنقیح میں گزر چکا۔ یعنی مسلمانوں کا مال، مسلمانوں کے مملوکات جس طرح غیر مسلم اقوام کے لیے خود اسلامی قانون کی رو سے مباح ہیں اسی طرح وہ اور ان کے اموال بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی شریعت اور قانون کی رُو سے مباح اور حلال ہیں اگر مسلمان اس پر قبضہ کر لیں گے تو اس کے صحیح مالک اور ہر قسم کے تصرفات کے مجاز و مختار ہوں گے۔{ FR 2284 }
عوداِلی المقصود
بہرحال اصلی بحث یہ تھی کہ غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل کیا ہونا چاہیے اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی۔ بیچ میں ایک مسئلے کا ذکر آ گیا۔ بات تو بہت عام تھی لیکن تصحیح خیالات کے لیے مجھے اصل بحث سے تھوڑی دیر کے لیے دور جانا پڑا۔ اب میں پھر اپنے اصلی مدعا کی طرف آتا ہوں۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’مستأمن مسلمان‘‘ کے لیے فرض ہے کہ جس غیر اسلامی حکومت میں وہ امن کی ضمانت لے کر داخل ہوا ہے وہاں کے مروّجہ قوانین کی سختی سے پابندی کرے۔ کسی کے مال و جان، عزت و آبرو پر حملہ کرکے قانونِ وقت کو توڑنا غدر ہے اور غدر قراناً و حدیثاً و اجماعاً حرام ہے۔ الغرض قانون وقت کی پابندی اس کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ قانون ملکی کے خلاف لفافے میں نصف ماشے کا بھی اضافہ یا ریل کے سامان میں پاؤسیر کی زیادتی بھی اس کے لیے ناجائز ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ امن پسند قوم مذہبی حیثیت سے کوئی نہیں ہو سکتی۔
لیکن سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ ’’اسلامی قانون‘‘ کی رو سے ایک فعل ناجائز ہے۔ مثلاً یہی سود کا مسئلہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کسی دوسرے کا مال لینا اسلام میں قطعاً حرام ہے۔ مگر غیر اسلامی قانون میں اس ذریعے سے تحصیل مال کی اجازت ہے بلکہ حکومت بھی بڑے وسیع پیمانے پر مختلف صورتوں میں اس کا کاروبار کرتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان کو کیا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں اگر وہ ’’مستأمن مسلمان‘‘ اس ذریعے سے اس ملک کے غیر مسلم باشندے کا مال حاصل کرتا ہے تو نقض معاہدہ یا قانون شکنی یا غدر کا تو وہ قطعاً مرتکب نہیں ہے اور اس لحاظ سے مذہبی طور وہ قانونِ معاہدہ کا قطعاً مجرم نہیں۔
اب رہ گئی یہ بحث کہ کیا اس نے کسی دوسرے سے ایسے مال کو حاصل کیا ہے جس کے لینے کا گو قانون ملکی نے اسے مجاز گردانا ہے لیکن مذہب یا خدا اس کے لینے سے روکتا ہے؟ یا یوں کہو کہ کیا اس نے ایسا مال حاصل کیا ہے جو قانوناً نہ سہی لیکن اسلام کی رُو سے وہ مباح نہ تھا بلکہ معصوم تھا؟ ابھی شریعت (اسلامی قانون) بلکہ قرآن سے گزر چکا ہے کہ اس قسم کا مال مسلمان کے لیے مذہباً غیر معصوم اور مباح{ FR 2285 } ہے۔ پھر ایک مسلمان کیا کرے؟ قرآن اور مذہب جس کو غیر معصوم اور مباح کہتا ہے کیا وہ اپنے مذہب سے رو گردانی کرکے اس کو معصوم اور غیر مباح کہہ دے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مال کو نہ قانون ناجائز قرار دیتا ہے اور نہ شریعت حرام قرار دیتی ہے بلکہ اس کے لینے کا حکم دیتی ہے، غریب مسلمان آخر اس جائز کو کس طرح ناجائز اور اس حلال کو کس طرح حرام کر دے؟ کیا وہ سلطنت کے قانون سے بغاوت کرے؟ یا شریعت کے حکم کو توڑے؟ کیا اس کے بعد مسلمان کے لیے کہیں بھی پناہ ہے؟
اسلامی قوانین کا یہی وہ اضطراری مقتضا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے سب سے محتاط، بلکہ بقول بعض عوام سخت گیر امام، امام الائمہ، قدوۃ الاتقیاء، قائم اللیل، التابعی المجتہد المطلق امام ابوحنیفہؒ کا یہ فتویٰ نہایت بین اور غیر مبہم واضح لفظوں میں امام محمدؒ نے ’’سیر کبیر‘‘ میں نقل فرمایا ہے:
وَاِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِاَمَانٍ فَلاَ بَأْسَ بِاَنْ یَاْخُذَ مِنْہُمْ اَمْوَالَہُمْ بِطِیْبٍ اَنْفُسِہِمْ بِأَیِّ وَجْہٍ کَانَ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا اَخَذَ الْمُبَاحَ عَلٰی وَجْہٍ عَرَی عَنِ الْغَدْرِ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ طَیبًا لَّہٗ۔ { FR 2436 }
جب مسلمان دارالحرب{ FR 2286 } (غیر اسلامی ملک) میں ان کا معاہدہ کرکے داخل ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہاں کے باشندوں (غیر مسلم) کی مرضی سے ان کا مال لے خواہ ذریعہ کوئی بھی ہو،{ FR 2287 }کیونکہ اس نے ایک مباح مال کو لیا ہے اور ایسے ذریعے سے لیا ہے جو قانون شکنی (غدر) سے پاک ہے تو یہ مال اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ فتویٰ اس عہد تاریک کا نہیں ہے جس وقت مسلمان محکوم تھے۔ جس زمانے میں امام رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت سے اس قانونی دفعہ کو پیدا کیا تھا، غالباً اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی مسلمانوں کے اعمال و افعال عقائد و رسوم کی وہ ’’زشتی‘‘ نہ تھی جو ’’نادر یورپ‘‘ کی صورت میں یکایک{ FR 2288 } ظاہر ہوگئی، یہاں تک عبادِ صالحین نے قوم عابدین کو عبادت کے کٹہرے کی طرف بھگانے کے لیے اپنی میراثوں میں‘ غوثی و قطبی میراثوں میں، ان شیروں کو کچھاروں سے چھوڑ دیا جو سب پر رحم کر سکتے ہیں، لیکن جن کا فریضہ عبادت تھا ان کے پاس ان کے لیے کوئی رحم نہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔ فقہا جب اس مسئلے کا ذکر کرتے ہیں کہ کسی اسلامی مقبوضہ پر فرض کرو کہ غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے تو بطور جملہ معترضہ کے طور پر عیاذاً باللّٰہ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اس مفروضے کو بھی وہ فرض کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایسی صورت میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام اعظم نے کسی وقت ضرورت کے آگے نہیں بلکہ شریعت کی کتنی مجبوریوں کے آگے گردن جھکا دی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ خود جناب رسالت مآب a سے بھی اس فتویٰ کی عملی تصدیق صحیح روایتوں سے ثابت ہے۔ جس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روم و ایران کی باہمی آویزشوں کے زمانے میں قرآن مجید کی پیش گوئی پر اصرار کرتے ہوئے ایک غیر اسلامی ملک یعنی مکہ مکرمہ میں (جو اس وقت حکومت اسلامیہ کے تحت نہ تھا) قریش سے یہ شرط لگائی کہ قرآن ہی کی پیش گوئی پوری ہوگی۔ تو جب وہ پوری ہوئی تو خود آنحضرت a نے اس شرط کے اونٹ لینے کا حکم دیا اور یہ اونٹ وارثوں سے وصول کیے گئے{ FR 2437 } فقہائے اسلام اس عمل سے اس قانون کی توثیق کرتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ’’شرط‘‘ صریح قمار (جوا) ہے جس کی حرمت قطعی نصوص سے ثابت ہے۔{ FR 2289 }
دارالحرب میں سود حلال نہیں بلکہ فَے حلال ہے
لوگوں میں یہ عجیب بات مشہور ہے کہ غیر اسلامی حکومتوں میں سود حلال ہو جاتا ہے، اور زیادہ تر اصل مسئلے کے سمجھنے میں یہی تعبیر مانع آتی ہے۔ ورنہ مسئلے کی بنیاد جس قرآنی قانون پر ہے اس کے لحاظ سے یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ جو چیز حرام تھی وہ کسی وقت حلال ہوگئی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جو چیز ہمیشہ سے حلال تھی وہی حلال ہوئی۔ خدا جس چیز کو حلالاً طیبًا فرماتا ہے امام اعظم ؒ اسی کو طیب فرماتے ہیں، ورنہ ایک مسلمان کو اس کا کیا حق ہے کہ قرآن جس چیز کو حرام کرے اسے وہ اپنی رائے سے یا کسی معمولی ظنی خبر کی بنیاد پر حلال کر دے۔ خصوصاً وہ جو واحد خبروں سے نص پر اضافے کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ علاوہ ای وجہ کان (قانون وقت کے جس جائز کردہ ذریعے سے بھی وہ مال ملتا ہو) کی عمومیت کے امام ابوحنیفہؒ نے سود ہی کو نہیں بلکہ قمار (جوا) کے ان ذرائع سے بھی تحصیل مال کو طیب قرار دیا ہے جس کی قانون وقت میں ممانعت نہ ہو۔ مثلاً یہی بیمہ ہے یا لائف انشورنش کا ذریعہ{ FR 2290 } ہے۔ علمائے اسلام کے نزدیک قمار اور سود کی یہ مرکب شکل ہے، لیکن سیّرکبیر میں امام محمدؒ، امام اعظمؒ سے ناقل ہیں:
اَوْ اَخَذَ مَالًا مِّنْہُمْ بِطَرِیْقِ الْقِمَارِ فَذٰلِکَ کُلُّہٗ طَیِّبٌ لَہٗ۔ { FR 2438 }
اگر ان سے (غیر مسلموں سے) جوئے کے ذریعے سے مال لے گا تو یہ سب اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔
سود کی شہرت کا سبب غالباً امام مکحولؒ (جو محدثین کے نزدیک ایک ثقہ راوی ہیں) کی وہ مرسل حدیث ہے جو اسی مسئلے کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے:
عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا رِبٰو بَیْنَ الْحَرْبِیْ وَالْمُسْلِمِ۔] لَذا لَارِبَا بَیْنَ أَھْلِ الْحَرْبِ۔۔۔ وَأھْلِ الْاِسْلام[ { FR 2440 }
مکحول سے روایت ہے وہ رسول اللہ a سے راوی ہیں کہ حضور a نے فرمایا حربی (غیر مسلم) اور مسلمان کے درمیان سود نہیں ہے۔
لوگ نہ معلوم اس کا مطلب کیا سمجھتے ہیں ورنہ ظاہر الفاظ سے جو کچھ مستفاد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلم اور غیر ذمی نا مسلمان کے درمیان اگر سود کا معاملہ ہو تو وہ سود، سود ہی نہ ہوگا بلکہ ’’قرآنی قانون اباحت‘‘ کے تحت یہ مال مسلمان کے لیے طیب و حلال ہے۔
بہرحال اسلامی شریعت، قرآن و حدیث، عمل صحابہ کی رو سے یہ ایک ایسا واضح اور صاف قانون ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ مکحول کی حدیث مرسل کے متعلق حجیت و عدم حجیت کا سوال اٹھاتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں تو تائید میں پیش کی جاتی ہیں ، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے اموال کے طیب و حلال ہونے کا حکم تو قرآن کے نصوص صریحہ کی واضح عبارت کا نتیجہ ہے۔ علامہ ابن ہمامؒ نے بالکل صحیح لکھا ہے:
وَفِی التَّحْقِیْقِ یَقْتَضِیْ اَنَّہٗ لَوْ لَمْ یَرِدْ خَبْرُ مَکْحُوْل اَجَازَہٗ اَلنَظْر الْمَذْکُوْر۔ { FR 2441 }
اور تحقیق کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مکحول کی روایت نہ بھی وارد ہوتی تو مذکورہ بالا ’’نظر‘‘ اس کی اجازت دیتی ہے۔
صاحب بدائع نے اسی بنیاد پر امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح تعبیر کی ہے:
وَعَلی ہٰذَا اِذَا دَخَلَ مُسْلِمٌ اَوْ ذِمِّیٌ دَارَالْحَرْبِ بِاَمَانٍ فَعَاقَدَ حَرْبِیًا عَقْد الرِّبَا اَوْ غَیْرِہٖ مِنَ الْعقُود الْفَاسِدَۃِ فِی الْاِسْلاَمِ جَازَ۔{ FR 2442 }
اور اس بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر مسلمان یا ذمی دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں امن کا معاہدہ کرکے داخل ہو اور کسی غیر مسلم سے ربوٰ (سود) کا معاملے کیا یا اس قسم کا کوئی معاملے کیا جو اسلامی قانون کی رُو سے فاسد ہو تو وہ معاملہ جائز ہوگا۔
فَے اور پھاؤ کی اصطلاح
اور اسی لیے میرا ناچیز خیال ہے کہ اس قسم کی تمام ’’آمدنیاں‘‘ جو مسلمانوں کو غیر اسلامی حکومتوں میں قانوناً میسر آ سکتی ہیں ، ان کو بجائے سود یا قمار یا جوا وغیرہ کہنے کے مناسب ہوگا کہ اس کا خاص نام ’’فَے‘‘ رکھ دیا جائے جس کے معنی گویا یہ ہوں گے کہ وہ مال جو بغیر کسی حرب و قتال، جنگ و جدال کے دوسری اقوام سے امن پسندانہ طور پر قانون وقت کی پوری پابندی کے ساتھ مسلمانوں کو ملا{ FR 2291 }… مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ ہندی میں ایک لفظ ’’پھاؤ‘‘ کا ہے جو قریب قریب ’’فَے‘‘ کا ہم پلہ بھی ہے، اور غالباً ایک حد تک اسی معنی کو ادا بھی کرتا ہے۔ خواص توان آمدنیوں کو اپنی ’’فَے‘‘ کی آمدنی کہیں گے۔ عوام کی زبان پر (فے) نہ چڑھے گی تو وہ اس کو ’’پھاؤ‘‘ کہہ دیں گے۔ اس تعین اصطلاح کی ایک بڑی ضرورت وہ وجہ بھی ہے جو بعض ثقات اسلام کی جانب سے اس مسئلے کے متعلق بطور اندیشے یا خطرے کے پیش کیا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس مسئلے کا اعلان کر دیا گیا تو ممکن ہے کہ امتداد زمانے کے بعد مسلمان اس کو بھول جائیں گے کہ سود، قمار اور ازیں قبیل دوسرے ذرائع ان کی شریعت میں حرام بھی تھے یا نہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ان آمدنیوں کا نام ’’فَے‘‘ رکھا جائے کہ اس لفظ سے مسلمانوں کو یہ یاد آتا رہے گا کہ غیر اقوام سے ان کے شرعی تعلقات کیا ہیں اور غیر اسلامی حکومتوں کے معاہدۂ امن کی تکمیل ان پر شرعاً کس حد تک لازم ہے۔{ FR 2292 }آخر جن کاروباری معاملات سے خدا ناراض نہیں ہے، قانون خوش، حکومت خوش، دینے والے خوش، ان کے اختیار کرنے میں مسلمانوں کو کس چیز سے ڈرنا چاہیے۔
فَے سے انکار قومی جرم ہے
سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچے کھچے سرمایہ دار، قلیل البضاعۃ اس حلال بلکہ بالفاظ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ طیب آمدنی کو، جسے میں ’’فَے‘‘ یا ’’پھاؤ‘‘ کہتا ہوں اور جس کے متعلق قرآن کا صریح حکم حلالاً طیبًا ہے، نہ لے کر قومی جرم اور قومی خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کے سرمائے جو بینکوں میں محفوظ ہیں ان کے لاکھوں روپے کا ’’فَے‘‘ صرف یہی نہیں کہ غیر اسلامی قوتوں کی بالیدگی ہے، اور مسلمانوں کے لیے معاشی راہوں کے بدلنے سے ہر مال بیکار ہو جاتا ہے، بلکہ سنا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اس ’’فَے‘‘ کی آمدنی سے مسلمانوں ہی کے بچوں، عورتوں اور غریبوں کو اسلام سے چھڑا چھڑا کر محمد رسول اللہؐ کی صف سے توڑ توڑ کر غیروں کی صف میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ کھلے بندوں یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا (الممتحنہ60:1) کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ یہ اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں تو اور کیا ہے۔{ FR 2293 }ہائے مسلمانوں ہی کی چاندی کی چھری سے مسلمانوں کا ذبح کرنا کس نے جائز قرار دیا؟ کیا خدا نہیں دیکھ رہا ہے؟ امام الدنیا والدین رسول رب العالمین خاتم المرسلینa تک یہ خبریں نہیں پہنچ رہی ہوں گی؟ محمدa کی امت کو دنیا والو! دیکھو! سود کے جالوں میں پھنسا کر پورب، پچھم، اتر، دکھن، کے لوگ دل کھول کر شکار کر رہے ہیں۔ سود دو، یا کھیت دو، یا جائیداد دو، یا مکان دو، یا عرب کے امی لقبa کا آستانہ چھوڑ دو، ان مہروں کی شطرنج پر کیسی دردناک بازیاں کھیلی جا رہی ہیں۔
بینک کا سود
سچ یہ ہے کہ بینک زیادہ تر سود خوروں کی باضابطہ کمیٹیوں کا نام ہے لیکن جب اس کا تنظیمی و اختیاری عملہ وہ نہیں ہوتا جن سے مسلمانوں کو روکا نہیں گیا ہے تو اب اس کمیٹی کی ممبری یا رکنیت نہیں ہے، بلکہ اس کمپنی سے معاملہ ہے جو لوگوں کو سود پر قرض دیتی ہے؟ پس مسلمانوں کو اس طیب ’’فَے‘‘ سے انکار کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہ کمپنی کیا کرتی ہے؟ کس کو قرض دیتی ہے؟کن سے سود لیتی ہے؟ یہ اس کا اپنا معاملہ اور جدید عقد ہے جس سے اس معاملے کو قطعاً نسبت نہیں جو ایک مسلمان نے ارباب بینک سے کیا ہے، بلکہ بین الملی قوانین کے جو دفعات آئین اسلامی سے گزر چکے ان کو سامنے رکھنے کے بعد بینک والوں کے سارے کاروبار جس کسی سے ہوں صحیح ہو جاتے ہیں۔{ FR 2294 } فلیتدبر۔
ہاں میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور ہمیشہ کہوں گا کہ جو ایسا کرتے ہیں وہ وطن کی پاسبانی نہیں کر رہے ہیں۔ وطن والوں کے ساتھ ، وطن کے مزدوروں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں‘ لیکن جو وطن کا محافظ ہے، جس حکومت کو وطن کے باشندوں کی نگرانی سپرد کی گئی ہے، جب وہی ان معاملات کو وطن کی بہبودی اور ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہے اور خود وطن والے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو مسلمان وطن کی وفاداری میں کیا اپنی قوم سے غداری کریں ؟{ FR 2295 }حالانکہ وطن تو وطن ان پر تو خاندانی حقوق کے سلسلے میں بھی قومی غداری حرام ہے۔ قرآن کا عام اعلان ہے۔
﴿لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo ﴾ ( الممتحنہ60:3)
تمھارے رشتے اور تمھارے بچے قیامت کے دن کام نہیں آئیں گے۔ خدا تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہمیں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور خاص وقت تک صبر ہی ہمارے لیے بہتر ہے‘ لیکن کیا قانونِ صبر کے ساتھ ’’مجازاۃ بالمثل‘‘ کی بھی قرآن ہی نے تعلیم نہیں دی ہے؟
﴿وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ۰ۭ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَo ﴾ ( النحل 126:16)
اگر تم پرزیادتی کی جائے تو تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو جتنی تم پر کی گئی اور صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔
لیکن صبر کی کوئی نہایت بھی ہے؟ استقلال کی کوئی حد بھی ہے؟ جس نے صبر سکھایا اسی نے تو
﴿لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۰ۚۖۛ ﴾ ( البقرہ 195:2)
اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو!
بھی سکھایا۔ قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے سونے والے یورپ کے غازی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تہلکہ کی تفسیر فرمائی ہے عوام نہیں تو کیا اس سے خواص بھی جاہل ہیں؟
فَے کا نہ لینا وطنی جرم بھی ہے
بلکہ سوچنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اس فَے کا نہ لینا صرف اپنی قوم کے ساتھ ہی نہیں بلکہ وطن والوں کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔ زہر کھانے والے کو دیکھ کر صرف دل میں افسوس کرنا یہ حقیقی ہمدردی ہے؟ یا آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے زہر کا چھین لینا سچی بہی خواہی { FR 2296 }ہے۔
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیّرہٗ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔{ FR 2445 }
تم میں سے کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ نہ زور رکھتا ہو تو زبان سے اسے پلٹے۔ اس کی بھی مجال نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ بڑے کمزور ایمان والا ہے۔
حدیث کی ساری کتابوں میں سیکھتے ہو‘ لیکن پھر بھی ایمانی ضعف کے دائرے سے نکلنے کی لوگوں میں جرأت نہیں ہوتی۔ خصوصاً جب استطاعت بھی ہو، حکومت کی قوت تمھارے ساتھ ہو، وطن والے اس معاملے میں تمھارے ہمنوا ہوں تو بتاؤ تمھارے لیے کیا عذر باقی رہا؟ کیا جو لوگوں کے گال پر تھپڑ مارتا ہے وہ جرم کے نتائج و آثار کو اس وقت تک سمجھ سکتا ہے جب تک کہ خود اس کے رخساروں کو بھی اسی گزندکی خوراک نہ دی جائے جس کو اب تک اس نے نہیں چکھا ہے۔{ FR 2297 } اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو بیچارے غریب انسانوں کی نازک کھالوں کو اپنی انگلیوں میں قوت پیدا کرنے کی مشق گاہ خیال کر لے گا۔ ’’فَہَل مِنْ مُّدَّکِر‘‘ ہو سکتا ہے کہ جو گزند آج مسلمانوں کو پہنچایا جا رہا ہے جب اس کا احساس دوسروں کو بھی ہوگا تو ممکن ہے کہ حکومت ہی ان معاملات کو قانوناً بند کر دے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس وقت سب سے پہلے اس قانون کی تعمیل کے لیے جن کا سر مذہب جھکا دے گا وہ اس نبی (a) کی اُمت ہوگی جو دنیا میں اعلیٰ اور برتر مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے مبعوث ہوا تھا۔ نحن احق بمکارم الاخلاق۔ ہم مسلمان سب سے پہلے عمدہ اور بلند احکام کے حق دار ہیں۔ اس وقت ہم مذہب کے مجرم ہوں گے۔ اگر قانونِ وقت کے ساتھ غدر کریں گے۔ اگر حکومت نے بھی نہ سنا تو کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جو دکھ مسلمانوں کو پہنچا جب اسی میں دوسرے پڑیں گے تو ’’دہن توپ‘‘ کے اس وعظ سے وطن والے اسی طرح لاپروائی برتیں گے جس طرح وہ زبان و قلم کے واعظوں پر قہقہے لگاتے رہے ہیں۔{ FR 2298 } اگر انھوں نے آگے چل کر ہم سے ان معاملات کے اٹھا دینے کا کبھی معاہدہ کیا تو کیا مسلمانوں کو ان کے خدا نے اس کی اجازت نہیں فرمائی ہے کہ:
﴿لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo ﴾ ( الممتحنہ 8:60)
اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جو دین میں تم سے نہیں جھگڑتے اور تم کو وطن سے بے وطن نہیں کرتے کہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو۔ انصاف کرنے والوں کو خدا پیار کرتا ہے۔
ایسے معاہدوں پر جو اُمت سب سے پہلے دستخط کرے گی وہ وہی ہوگی جو تمام دنیا کے لوگوں کو نفع پہنچانے کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔ ہم دل سے بھی ان معاملات کو برا جانیں گے، زبان سے اس پر اصرار کریں گے، حکومت کو بھی ادھر بار بار توجہ دلائیں گے، وطن والوں سے بھی کہیں گے، جس طرح اب تک کہا ہے آئندہ بھی کہیں گے، زور سے کہیں گے اور مسلسل کہیں گے، ہم کو وطن سے بے وطن اور اپنے گھروں سے بے گھر بنانے پر وہ جس قدر بھی چاہیں اصرار کریں، لیکن ہم ان کی بہی خواہی میں کبھی کمی نہ کریں گے اور اسی بہی خواہی کے سلسلے میں زبان سے آگے بڑھ کر ہم ہاتھ سے بھی اپنے:
’’نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘ ’’بری باتوں سے روکنا‘‘ اور
’’اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ ’’اچھی جانی پہچانی باتوں کا حکم دینا۔‘‘{ FR 2299 }
کے آسمانی فریضے کو ادا کریں گے جس کے لیے ہم بنائے گئے ہیں تاایں کہ وطن کے فرزندوں کا ہمارے پڑوسیوں کا اس کی خرابی و ضرر رسانی پر اتفاق ہو جائے۔ ٹوٹے ہوئے دل یوں ہی ملیں گے، اور وہ تو ان شاء اللہ ایک دن مل کر ہی رہیں گے۔
اسلامی حکومتوں اور ریاستوں کا حکم
مسئلہ ختم کرنے سے پہلے چند باتیں اور بھی قابل ذکر رہ جاتی ہیں، آخر ان کو کیوں چھوڑا جائے۔ جب اسلامی قوانین ہماری رہنمائی ودست گیری کے لیے ہر حال میں تیار ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اسلامی ممالک میں شرعی قانون کسی نہ کسی وجہ سے اٹھ گیا ہے ان کا کیا حکم ہے؟ ہاں وہاں کے حکام دولاۃ سلاطین و ملوک تو مسلمان ہیں۔ شامی میں اس کا فتویٰ موجود ہے کہ اگر سلاطین اسلام ان ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی قوت رکھتے ہیں اور باوجود اس کے نفاذ نہیں کرتے، تو ایسا ملک دارالسلام ہی رہے گا۔ کہتے ہیں:
وَبِھٰذَا ظَھَرَأَنَّ مَا فِی الشَّامِ مِنْ جَبَلٍ تَیْمِ اللّٰہِ الْمُسمّٰیِ بِجَبَلِ الدَّرُ وزِ بَعْضُ الْبِلاَدِ التَّابِعَۃِ کُلُّھَا دَارُالإِسْلامِ لاِّنَّھَا وَإِنْ کَانَتْ لَھَا حُکَّامٌ نَصَارَیٰ وَلَھُمْ قُضَاۃٌ عَلٰی دِیْنِھِمْ وَبَعْضُھُمْ یُعْلِنُونَ بِشَتْمِ اِلْاِسْلاَمِ وَالْمُسْلِمِیْنَ لٰکِنَّھُمْ تَحْتَ حُکْمُ وُلَاۃ أُمُوْرِنَا وَبِلَادُ الْاِسْلَامِ مُحِیْطٌہٌ بِبِلَادِھِمْ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ وَإِذَا أَرَادَ أُولِی الْأَمْرِ تَنْفِیْذُ أَحْکَامِنَا فَیْھِمْ نَقَّذَھَا ۔{ FR 2446 }
اور اس سے معلوم ہوا کہ شام کا علاقہ کوہ تیم اللہ جس کا عام نام جبل دروز ہے اور دوسرے شہر جو اس کے تابع ہیں سب دارالاسلام ہیں کیونکہ اگرچہ وہاں دروزیوں کا یا عیسائیوں کا قانون ہے اور ان کے جج و حکام ان ہی کے مذہب کے ہیں اور ان میں بعض علانیہ مسلمانوں کو اور اسلام کو گالیاں دیتے ہیں لیکن چونکہ اسلامی حکومت کے ماتحت ہیں اور اسلامی ممالک ان کو چاروں طرف سے محیط ہیں اور مسلمانوں کا امیر اگر چاہے تو ان میں ہمارے (یعنی اسلامی) احکام نافذ کر سکتا ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ جن ممالک میں مسلمان سلاطین یا ولاۃ اُمور باوجود ارادے کے اسلامی احکام کے نفاذ پر قادر نہ ہوں وہ دارالاسلام باقی نہیں رہ سکتے۔{ FR 2300 } وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
باقی یہ مسئلہ کہ اس قسم کے غیر اسلامی ممالک میں جمعہ، عید وغیرہ کا نظم کس طرح ہوگا۔ شامی میں اس کے متعلق موجود ہے:
کُلُّ مِصْرٍ فِیْہَ وال مُسْلِمٌ مِنْ جِھَۃِ اُلکُفَّارِیُجُوز مِنْہٗ إِقَامَۃُ الْجُمَعِ وَالْأَعْیَادِوَ أَخْذُ الْخًراجِ وَ تَقْلِیْدُ الْقَضَائِ وَتَزوِیَجُ الْأَوِیجُ الْأَ الْأیَامٰی۔{ FR 2447 }
ہر وہ شہر جہاں کا رئیس کفار کی منظوری سے ہو اس کی جانب سے جمعہ اور عید کا قیام کرنا جائز ہے اور اس ملک کا خراج لینا بھی نیز عدالت کے قضاۃ (حکام) کے تقرر کا بھی اسے اختیار ہے اور بیواؤں کی شادی بھی وہی کر دے۔
لیکن جس غیر اسلامی ملک میں غیر اسلامی حکومت کا کوئی تسلیم شدہ مسلمان رئیس نہ ہو تو اس کے متعلق یہ حکم ہے:
وَأَمَّا فِی بِلَادٍ عَلَیْھَا وَلاۃٌ کُفَّارٌ فَیَجْوزُ لِلمُسْلِمِیْنَ إِقَاَمَۃ اِلْجُمَع وَالْأَعْیَادِ و یَصِیْرُ الْقَاضِی قاضِیاً بِتَتَراضِی الْمُسْلِمِیْنَ وَیَجِبُ عَلَیْھِمْ طَلَبُ وَالٍ مُسْلِمٍ۔{ FR 2448 }
لیکن ایک ایسا ملک جہاں کے ولاۃ کفار ہیں تو مسلمان کو یہ جائز ہے کہ اس شہر میں بھی خود جمعہ اور عیدین قائم کریں، قاضی مسلمان باہمی سمجھوتہ سے مقرر کر لیں، لیکن ان پر مسلمان رئیس کی تلاش واجب ہے۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جن مسائل میں مسلمانوں کو ’’قضائے شرعی‘‘ کی ضرورت پیش آتی ہے‘ ’’دین کامل‘‘ نے غیر اسلامی ممالک میں اس کا کیا چارہ کار بتایا ہے، اور غالباً اس تفصیل کے بعد عہد حاضر کے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے احکام واضح ہوگئے۔
فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْخَاتِم الرُّسُلِ وَعلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
————-
(مولانا کے سابق مضمون کی اشاعت پر بعض اہل علم نے اعتراضات کیے تھے جن کے جواب میں مولانا نے یہ مضمون تحریر فرمایا تھا۔ )مرتب
(۱) مسئلے کی تعبیر میں ضرور مسامحت ہوئی ہے جس سے شدید غلط فہمی کا اندیشہ ارقام فرمایا گیا ہے کہ ’’غیر اسلامی حکومتوں کے ماتحت رِبا رِبا نہیں رہتا۔ الخ۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی میں ہر شخص خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اس کے ساتھ اس قسم کے معاملات جائز ہیں اور ان کے اموال غیر معصوم و مباح ہو جاتے ہیں حالانکہ مقصد یہ نہیں ہے بلکہ یہ حکم صرف ایسی غیر اسلامی اقوام مثلاً یہود و نصاریٰ مجوس و ہنود وغیرہ کے ساتھ مخصوص ہے جن کی ذمہ داری کسی اسلامی حکومت نے نہیں لی ہے‘‘ … میں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں امام محمدؒ کی ’’سیر کبیر‘‘ کا مشہور فتویٰ نقل کیا ہے اسی سے غایت اطمینان کے لیے اس قانون کی یہ دفعہ بھی نقل کر دیتا ہوں:
وِلَوْ کَانَتْ ھٰذِہ الْمُعَامَلَۃُ بَیْنَ مُسْلِمِیْنَ مُسْتَامِنَیْنَ اُوْأَسِیْرَیْنِ فِی دَارِ الْحَرْبِ کَانَ بَاطِلاً مَرْدُودًا الأِنِھَّمَا یَلْتَزِمَانِ أحْکَامَ الْاِسْلَامِ فِی کُلَّ مَکَانٍ۔{ FR 2449 }
اور اگر یہ معاملہ دو مسلمانوں کے درمیان ہو جو دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں معاہدہ امن کرکے مقیم ہوں یا قیدی ہوں تو یہ معاملہ باطل و مردود ہوگا کیونکہ یہ دونوں اسلامی قوانین کے ہر جگہ ذمہ دار ہیں۔‘‘{ FR 2301 }
قیدی اسیر کے لیے فقہی طور پر ضروری نہیں کہ وہ جیل خانے میں ہو بلکہ ہر وہ شخص جو کسی ملک سے دوسرے ملک میں بغیر اجازت یا پاسپورٹ کے نہیں جا سکتا وہ اسیر{ FR 2302 } ہے والتفصیل ان شاء اللّٰہ فی وقت اخر۔
(۲) دوسری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ بلا شبہ میں نے ذرا عجلت سے کام لے کر اس مضمون کو قبل از مشورہ شائع کرا دیا۔ اس عبد خاطی و عاجز کو اپنے اس قصور کا اعتراف ہے لیکن میں نے جن جذبات اور ہیجانات سے مجبور ہو کر اس مضمون کو لکھا تھا اس سے خدائے خیبر و بصیر خوب واقف ہے۔ ماسوا اس کے اس مسئلے کی بنیاد جن مقدمات پر ہے وہ کل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان دارالکفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دار الکفر میں عقود فاسدہ فی الاسلام کے ذریعے سے اموال غیر معصومہ کا لینا مباح ہے۔
ان میں سے پہلے مقدمے کے متعلق میں نے ہندوستان کے اکثر علمائے ثقات و ارباب فہم و تقویٰ کو متفق پایا۔ البتہ دوسرے مقدمے کے متعلق میں نے ان کرام و اکابر علما سے بالتفصیل نہیں دریافت کیا، جن کے اسمائے گرامی آپ نے درج کیے ہیں اور جن میں سے اکثر اس خاکسار کے اساتذہ یا فی حکم الاستاذہ ہیں۔ صرف مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ العالی کی رائے گرامی کا مجھے علم تھا کہ وہ اس مسئلے میں فقہ حنفی کے اس جزئیہ کے متعلق مطمئن نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے فتاویٰ نیز تفسیر میں دوسرے مقدمے کی صحت میں حدیثاً و اصولاً کلام کیا ہے‘ لیکن جہاں تک اس ناچیز کی رسائی تھی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو میں نے اوفق بالکتاب والسنہّ پایا۔ امام صاحب نے یہ سمجھا ہے کہ جس طرح ’’لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ‘‘(النسائ 4:29) ’’اپنی جانوں کو نہ مارو‘‘ کا منصوص اور بظاہر عام حکم صرف مسلمانوں تک محدود ہے ورنہ قانون جہاد بے معنی ہو جاتا ہے، اسی طرح ’’لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘(البقرہ2: 188) تم اپنے مالوں کو اپنے درمیان ناجائز ذرائع سے نہ کھایا کرو۔ اور اسی کی ایک ذیلی تفصیل ’’لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰو(آل عمران3: 130)‘‘ سود نہ کھاؤ، کا بظاہر عام حکم بھی صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص{ FR 2303 } ہے۔ خصوصاً جب ’’اموال مُحرَّمہ‘ کے حکم نہی میں ’’بینکم‘‘ کی تصریح بھی ہے تو وہ قانون قتل کی عمومیت سے اور بھی زیادہ خاص ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ’’ربوٰ‘‘ کا قانون سخت ہے لیکن کیا قتل سے بھی زیادہ سخت؟ قرآن نے ایک شخص کا قتل عام بنی آدم کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے جس کی جزا میں جہنم کے عذاب، خلود ابدی کی دھمکی دی گئی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اسلام نے اس سخت قانون کے ایک رُخ کو (اسی رخ کو جو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’اموال‘‘ کے متعلق ہے) ثواب اور بڑا ثواب قرار دیا ہے۔ آخر امام صاحبؒ کیا کرتے؟ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا۔ (الفتح 48: 20)
اللہ تم سے مغانم کا وعدہ کرتا ہے جنھیں تم لو گے۔
(کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ) یہ اموال مسلمان خریدیں گے؟ یا وراثت میں پائیں گے؟ یا ان کو کوئی ہبہ کرے گا؟ پھر بزور ہی نہیں بغیر زور و قوت کے بھی جو مال ملے اس کے متعلق تصریح ہے کہ یہ وہ چیز ہے کہ:
وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ ( الحشر59:6)
جو پلٹایا خدا نے اپنے رسولؐ کے پاس تو تم نے نہ اس پر اونٹ دوڑائے نہ گھوڑے لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔
صرف جنگ کے موقع پر اس کا وعدہ نہیں کیا گیا، بلکہ سب کو معلوم ہے کہ:
اِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ۔ (الانفال8: 7)
جب اللہ نے تم سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کے متعلق یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تمھارے لیے ہے۔
ان طائفوں میں کون نہیں جانتا کہ خدا نے اس طائفے کا بھی وعدہ کیا تھا جو ’’عیر‘‘ یعنی قافلہ تجارت تھا؟ اور کیا وعدہ کیا تھا؟ ’’انہالکم‘‘ وہ تمھارے لیے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے وہ بذریعہ بیع و فروخت، تجارت ، ہبہ، وراثت ، ہدیہ، صدقہ، خیرات، آخر کس طور پر وعدہ کیے گئے تھے؟{ FR 2306 } یہی ذریعہ اگر مسلمانوں کے لیے اموال کے حصول کا قرار دیا جائے تو کیا وہ ذریعہ باطل اور لا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل کے نیچے داخل ہوگا؟ بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبصیر صحابیؓ کو صلح حدیبیہ کی رو سے جب مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ ملی تو وہ سمندر کے کنارے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جم گئے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ امام بخاریؒ راوی ہیں:
فَوَ اللّٰہِ مَا یَسْمَعُوْنَ بِعِیْرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ اِلَی الشَّامِ اِلاَّ اِعْتَرَضُوْا لَہَا فَقَتَلُوْہُمْ وَاَخَذُوْا اَمْوَالَہُمْ۔{ FR 2450 }
بخدا قریش کے جس قافلے کے متعلق وہ سنتے کہ شام کی طرف نکلا ہے اس سے وہ تعرض کرتے اور اہل قافلہ کو قتل کرکے ان کے اموال چھین لیتے۔
کیا اس سے بھی زیادہ تشریح کی ضرورت ہے؟{ FR 2307 } قرآن میں تو صرف ’’عیر‘‘ کا وعدہ تھا، لیکن یہاں تو وقوع ہوا ۔کیا یہ قانون فقہ حنفی کا ہے یا نصوص بینہ کا مقتضی ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس قانون کے ذیل میں امام صاحب نے اس جزئیہ یا دفعہ کو پیدا فرمایا ہے (یعنی قانونِ غنیمت) وہ تو صرف امت محمدیہ کے لیے بروئے روایات صحیحہ مخصوص مانا جاتا ہے، لیکن پھر بھی لوگ کہے جاتے ہیں کہ اگر ’’رِبا‘‘ کا کاروبار غیر اقوام کے ساتھ جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید میں کیوں فرمایا:
وَّاَخْذِہِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْہُ وَاَكْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ۰ۭ
( النسائ 161:4)
اور یہودیوں کے سود لینے کی وجہ سے جس سے وہ روکے گئے اور لوگوں کے اموال کو باطل و ناجائز ذرائع سے کھانے پر۔
جب یہودیوں پر غنیمت ہی حرام تھی تو پھر کس بنا پر ان کے لیے سود جائز ہوتا۔{ FR 2308 } اور یہ بھی اسی وقت کہا جائے گا جب یہ ثابت ہو لے کہ وہ صرف غیر یہودیوں سے اس کا کاروبار کرتے تھے۔{ FR 2309 } مولانا شبلی نے اپنی سیرت میں ابوداؤد کی روایت کو متعد د بار نقل فرمایا ہے۔ اس سے غلط فہمی میں نہ پڑ جانا چاہیے کیونکہ اس تشدد کی بنیاد مسئلہ غلول (یعنی قبل تقسیم کے اموالِ غنیمت میں تصرف کرنے) پر ہے جیسا کہ خود حضرت] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ نے ’’کابل‘‘ کی جنگ میں اس کی توضیح فرما دی۔ ابولبید راوی ہیں کہ ہم لوگ کابل میں ] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو لگے لوٹنے۔ حضرت ] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ اس پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم a سے سنا کہ آپؐ نے ’’نہبٰی‘‘ سے منع فرمایا۔ لوگوں نے سب مال واپس کر دیا۔ پھر حسبِ تقسیم ِ شرعی انھوں نے بانٹ دیا { FR 2451 } اس میں یہ نہیں ہے کہ اصل مالکوں کو واپس دے دیا بلکہ قبل تقسیم کے لوٹ مار کرنے سے ممانعت کی گئی تھی جو غلول تھا۔
’’رِبا‘‘ کا قانون کب سے نازل ہوا، یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ’’لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً‘‘ تو بہت پہلے نازل ہوا‘ لیکن اس کو شراب کی طرح تدریجی غیر قطعی حکم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ’’ربوٰ‘‘ کی جزئی فروع کی حرمت پر عمل درآمد مسلمانوں میں ۷ھ سے شروع ہوگیا تھا۔ موطا ٔ امام مالکؒ میں ہے کہ آنحضرتa نے خیبر میں چاندی کے ایک برتن کی فروخت کے معاملے میں فرمایا:
اَرْبِیْتُمَا فَرَدُّوْا{ FR 2452 }
تم دونوں نے رِبا کا معاملے کیا۔ پس انھوں نے واپس کر دیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ ’’دارالاسلام‘‘ میں یہ قانون ۷ھ سے نافذ ہو چکا تھا‘ لیکن سارے عرب میں کب نافذ ہوا؟ سب کو معلوم ہے کہ عام فتح میں بھی نہیں بلکہ حجتہ الوداع میں ربا الجاہلیہ کے سقوط کا اعلان حکومت نبویہ کی جانب سے کیا گیا … اس سے کیا یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں اسلامی اقتدار قائم نہ ہو وہاں ان معاملات کی نوعیت وہ نہیں رہ سکتی جو اسلامی اقتدار کے بعد ہو جاتی ہے۔{ FR 2310 } ورنہ کم از کم حضرت عباس ؓ جو حجتہ الوداع سے بہت پہلے مسلمان ہو چکے تھے، ان کے ربوٰ کو قطعاً ۷ھ سے پہلے ساقط ہو جانا چاہیے تھا نہ کہ حجۃ الوداع{ FR 2311 } میں۔ تعجب یہ ہے کہ بعض اکابر کو اسی حجۃ الوداع کی روایت سے شبہ ہوا کہ اگر غیر مسلموں سے رِبا جائز ہوتا تو قبل اسلام کا جو سودی بقایا تھا اس کو شارع علیہ السلام نے کیوں ساقط کیا؟
بلاشبہ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ نفس عقد ربوٰ سے سود کا مستحق سود خوار ہو جاتا ہے تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ حقوق ثابتہ کے اسقاط کے کیا معنی ہو سکتے ہیں‘ لیکن مسئلے کی بنیاد استحقاق بواسطہ الربوٰ پر نہیں ہے اباحت کا حکم باقی رہے گا۔ جب ملک اسلامی ہو جائے گا تو غیر معصوم معصوم ہو جائے گا۔ پھر اس معصوم کو غیر معصوم کس طرح قرار دیا جاتا { FR 2312 }اور یہی وجہ ہے کہ جب نجران کے لوگوں نے اسلامی حکومت کی ذمہ داری قبول کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اب اس کاروبار کو ترک کر دیں، کیونکہ عہد ذمہ کی وجہ سے ان کے اموال معصوم ہو چکے تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا صحابہ کے طرزِ عمل میں بھی ایسا کوئی خصوصی اثر ہے جس سے معلوم ہو کہ انھوں نے غیر مسلموں سے ربوٰ کا خاص کرکے معاملے کیا ہو؟ امام محمدؒ نے اس کے جواب میں ’’سیر کبیر‘‘ میں حضرت عباسؓ کا عمل پیش کیا ہے کہ وہ فتح مکہ سے پیشتر اسی کاروبار کے لیے مدینہ سے مکہ جاتے تھے جو اس وقت تک دارالاسلام نہ تھا۔{ FR 2313 } اسی طرح ربوٰ تو نہیں، لیکن یہ تو حدیثوں سے ثابت ہے کہ قمار کا معاملہ ابوبکر صدیقؓ نے کیا اور بدر کے بعد اس کی آمدنی انھوں نے لی۔ یہ کہنا کہ یہ فعل{ FR 2314 } حکم ’’میسر و قمار‘‘ کے نزول سے پہلے کا ہے، بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ایران نے روم سے شکست انھی ایام میں کھائی جب کفار قریش کو مسلمانوں سے ہزیمت ہوئی۔ حضرت صدیقؓ کا اس معاملے میں فریق ثانی اُمیہ ابن خلف تھا جو بدر میں مارا گیا۔ شرط سو اونٹوں کی تھی۔ حضرت صدیقؓ نے اس کے ورثے پر دعویٰ کیا اور وہ دعویٰ مسموع ہوا۔ سو اونٹ اُن کو ملے۔ مدینہ آئے۔ یہ صحیح ہے کہ ٹھیک طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اونٹ بدر سے کتنے سال بعد وصول کیے گئے لیکن بعید از قیاس ہے کہ غم و غصے کے بھرے ہوئے قریش نے ٹھیک بدر کے بعد انصاف کو اتنی راہ د ی ہوگی کہ سو اونٹ اصل شرط لگانے والے سے نہیں بلکہ اس کے ورثے سے حضرت صدیقؓ کو دلوائے ہوں گے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اگر طے ہوئی ہوگی تو صلح حدیبیہ کے بعد طے ہوئی ہوگی اور یہ مسلم ہے کہ خمر (شراب) اور میسر (قمار) کی تحریم کا حکم اُحد کے قریب قریب نازل ہوا تھا۔ بخاری کی روایتوں سے یہ ثابت ہے۔ پس غالب قرینہ یہی ہے کہ واقعہ حرمت قمار کے نزول کے بعد کا ہے۔ تاریخی طور پر اگر ان واقعات کی جستجو کسی کے مدنظر ہو تو سیرۃ النبی، مولانا شبلی مرحوم سے میرے بیان کی توثیق کر سکتے ہیں، خصوصاً جن لوگوں کی عربی تک رسائی نہیں ہے۔ بہرحال سیر و آثار نہ بھی ہوں تو کیا اثر سے زیادہ وزن دار آنحضرت a کا فعل نہیں بلکہ قانونی قول نہ ہوگا جس کے راوی خود امام ابوحنیفہؒ ہیں؟ امام شافعیؒ نے قاضی ابویوسفؒ کے حوالے سے بروایت ابوحنیفہؒ اس روایت کو نقل کیا ہے:
عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا رِبٰو] کَذا۔۔۔ لَارِبَا بین أَھْلِ الْحَرْبِ۔۔۔ وأَھْلِ الْاِ بَاسْلَامِ[ بَیْنِ الْمُسْلِمِ وَالْحَرْبِیْ۔ { FR 2453 }
مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے مروی ہے کہ مسلمان اور حربی کے درمیان ربوٰ نہیں۔
میں مانتا ہوں کہ یہ روایت مرسل ہے لیکن کیا اثر صحابہ کے ڈھونڈنے والوں کے لیے ایک مرسل حدیث میں تسلی نہیں ہے؟ عجیب بات ہے کہ’’ ابن سعد‘‘ یا’’اِصابہ‘‘ سے اگر کوئی اثر نقل کر دیا جائے تو لوگ اس کی وقعت کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہؒ اپنے اعتماد پر ایک مرفوع مرسل قولی حدیث پیش کرتے ہیں تو اس کو صرف مرسل کہہ کر ٹالنا چاہتے ہیں۔ اس روایت کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خبر واحد ہے اس سے نص کی تخصیص جائز نہیں لیکن کیا نص کی تائید بھی اس سے نہیں ہو سکتی؟ کیا اس کی وقعت آثار صحابہ کے برابر بھی نہیں؟ غالباً اس تفصیل کے بعد یہ مسئلہ صرف فقہ حنفی کا نہیں رہ جاتا۔ بہرحال میں اور بھی تفصیل کرتا لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ ذرا ان لوگوں کا انتظار ہے جو امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ کو اس مسئلے میں مضمحل بنانا چاہتے ہیں۔
اسی کے ساتھ شاہ عبدالعزیز صاحبؒ اپنے فتاویٰ میں ایک سے زائد مقامات پر اس کے متعلق صریح فتویٰ صادر فرما چکے تھے۔ اگر ان کے فتویٰ میں کلام ہے تو کیا ہندوستان میں کسی کے پاس حدیث کی سند محفوظ رہ سکتی ہے؟ جمعیۃ العلما کے اخبار ’’الجمعیتہ‘‘ میں بھی اس کا فتویٰ شائع ہو چکا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے خواہ کسی وجہ سے ہو لیکن بینک کے سود لے لینے کا فتویٰ دیا تھا۔ حرام مال لے کر صدقہ کرنے کی اجازت کون دے سکتا ہے؟ جہاں تک میرا خیال ہے ان کے سامنے مسئلے کی وسعت موجود تھی۔ ورنہ کم از کم میں ان کے اس فتویٰ کی توجیہہ سے عاجز ہوں۔ مولانا عبدالحئی صاحبؒ مرحوم نے اپنے فتاویٰ میں گو ہندوستان کی تصریح نہیں کی لیکن مطلقاً دارالکفر میں انھوں نے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور متعدد بار دیا ہے۔ بریلی اور بدایوں کے علما کو بھی اس سے کم از کم میرے علم میں اختلاف نہیں۔ باایں ہمہ میں نے اپنے مضمون میں افتاء کا رنگ نہیں اختیار کیا ہے بلکہ مسئلے کی تشریح کرنے کے بعد استفتاء کیا ہے علما سے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستان میں اس مسئلے کے نفاذ کا وقت آ گیا ہے؟
مگر سچ پوچھتے ہیں تو ذاتی طور پر اسی شبہے کی وجہ سے جسے آپ نے نقل فرمایا ہے میں اس کے لکھنے میں متردد تھا۔ پھر کیا کہوں کن مظالم بے جانے آخر میرے ہاتھ سے صبر کے دامن کو چھڑا لیا۔ مسلمان جلائے گئے، لوٹے گئے، برباد کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔{ FR 2315 } میں ان حالات کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار ہوگیا۔ کوئی اور صورت نظر کے سامنے نہ تھی۔ مالی مدافعت یا مالی حملے کی صورت سامنے تھی، پیش کر دی گئی اور اسی وجہ سے اس کا نام میں نے فَے رکھا، کیونکہ شامی میں جزئیہ موجود تھا:
وَمَا أُخِذَ مِنْہُمْ بِلَا حَرْبٍ وَلاَ قَہْرٍ کَالْہَدْیَّۃِ وَالصُّلْحِ فَہُوَ لَا غَنِیْمَۃَ وَلاَ فَیْ ئٌ وَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْفَی ئِ۔ { FR 2454 }
اور ان سے جو کچھ بغیر جنگ اور قہر کے لیا جائے مثلاً مال صلح تو وہ غنیمت ہے اور نہ فَے البتہ اس کا حکم فَے کا حکم ہے۔
پس جو حکم فَے میں ہو اگر مجازاً اسے ’’فَے‘‘ کہا جائے تو کیا حرج ہے؟ اور اگر اجازت ہو تو کیا اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ ’’زنا‘‘ کے خطرے سے کیا ترک نکاح کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے؟ واقعی مسلمان جو بعد میں باہم لڑ پڑے کیا وہ قانون قتال کا نتیجہ تھا؟ کیا یہ خطرات بھی واقعی ہیں؟
لیکن اس کے ساتھ مجھے ان مولویوں سے ضرور خطرہ ہے جو زوال حکومت کے بعد معمولی معمولی باتوں پر تکفیر کا فتویٰ صادر کرکے فسخ نکاح و ناجوازیٔ اولاد کا حکم لگا رہے ہیں۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کے کفر کا فتویٰ لے کر آپس ہی میں اس فعل کو شروع کر دے گا جو اس کے لیے قطعاً مورث عذاب جہنم ہے لیکن کاش اس فتویٰ کو عملی شکل دینے کے لیے یہ علما ان مکروہ طریقوں سے باز آئیں، ورنہ ہر شخص اپنی نیتوں کا خود ذمہ دار ہے۔
بِالنِّیَۃِ إِنَّمَا إِمْرِئٍ مَانَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَارٍ بُصِیْبُہَا : اَوْ امْرَاۃٍ تَنْکِحُہَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ہَاجَرَا اِلَیْہَا۔{ FR 2455 }
ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ چنانچہ جس کی ہجرت خدا اور رسول کی طرف ہو، اور جس کی ہجرت دنیا کے فائدے کی خاطر ہو اور جس کی ہجرت کسی عورت کی خاطر ہو ان میں سے ہر ایک کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔
یوں تو نماز بھی دوزخ کی کلید بن سکتی ہے۔ اگر اسی طرح فتویٰ دے کر لوگ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگیں تو کیا اس کی وجہ سے قانون جہاد کی حرمت کا فتویٰ صحیح ہوگا؟
ایک شبہ اور بھی ہے کہ سیونگ بینک میں تو نہیں لیکن عام بینکوں اور کوآپریٹو بینکوں کے مالکوں میں بعض بعض مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ صحیح ہے کہ بینک کا کاروباری عملہ جس سے لوگ لین دین کرتے ہیں عموماً غیر اقوام کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن مالکوں کی جماعت میں جب مسلمان بھی ہیں تو عمل کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟
کاش علما غور کرتے۔ مسئلہ جوائز السلاطین میں فقہا نے کیا لکھا ہے؟ بہرحال میری غرض کچھ نہیں۔ صرف ایک مسئلے کے متعلق علما کو چونکانا ہے۔ یا تو وہ انسداد سود کے لیے ایسی آواز بلند کریں جیسی کہ ’’مانع مسکرات‘‘ کی سوسائٹی نے بلند کی ہے۔ یا کم از کم قانونی حدود میں رہ کر اتنا تو کریں جتنا گائے والے کرتے ہیں۔ شاید حکومت توجہ کرے یا وطن والے کچھ رحم کھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ’’سود‘‘ کا تصفیہ قربانی گاؤ کی قربانی سے ہو جائے۔ ورنہ پھر سرمایہ دار مسلمانوں کو کسی باضابطہ نظام کے تحت اس پر آمادہ کیا جائے کہ جو سلوک غیر اقوام کے لوگ غریب مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہی وہ دوسروں کے ساتھ کریں۔
فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْل مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ۔
(البقرہ2: 194)
پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جتنی کہ اس نے کی۔
مقصد صرف اس قدر ہے ورنہ جو لوگ محض شکم پروری یا دولت مندی کے لیے اس مسئلے کے جوا زکی فکر میں ہیں اور اس فکر میں اتنے دیوانے ہو رہے ہیں کہ صحیح، غلط، جس طرح بن پڑتا ہے قرآن کے ایک منصوص حکم کے توڑنے میں زور لگا رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی بنیاد امارۃ و دولت پر نہیں بلکہ اس کا فخر ’’فقر‘‘ تھا، اسی حقیقتِ مقدسہ کبریٰ نے اس کے ستون قائم کیے ہیں۔ بلندی صرف ایمان کے ساتھ ہے۔ ا نتم الاعلون کا وعدہ محض ’’ان کنتم مؤمنین‘‘ کے ساتھ مشروط ہے ‘ثروت دولت والے پہلے بھی وہی تھے جواب ہیں۔ اس وقت بھی قرآن کی یہی ہدایت تھی:
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَo ( التوبہ 55:9)
پھر ان کے اموال اور اولاد (مردم شماری) تم کو پسندیدہ نہ معلوم ہوں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے سے انھیں دکھ پہنچائے اور ان کی جان فرسودہ ہو کر نکلے ایسی حالت میں کہ وہ ناشکرے ہوں۔
اور اب بھی ہم مسلمانوں کے لیے اسی حکم میں قوت ہے۔ ہم امتیوں کو کیا، خود ہمارے پیشوا اور سردار آقا و امامa کو حکم دیا گیا:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيo ( طہ131:20)
اور اپنی آنکھیں ان کی طرف اونچی نہ کرو جنھیں میں نے قسم قسم کی تازگی دے رکھی ہے۔ میں اس میں انھیں آزماتا ہوں۔ تیرے رب کی روزی تیرے لیے بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
آج جو یورپ کے خداؤں کو دیکھ دیکھ کر چیخ رہے ہیں کہ ہمارے لیے بھی اس قسم کے ’’اِلٰہ‘‘ ہونے چاہییں کیا ان کو یہ سنایا نہ جائے کہ تم جس کی اُمت کے لیے روتے ہو، اس نے ارشاد فرمایا اور قسم کھا کر فرمایاہے۔ بخاری میں ہے:
فَوَ اللّٰہِ لَاالْفَقْرَ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ وَلٰـکِنْ اَخْشٰی اَنْ تُبْسُطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوْہَا کَمَاتَنَافَسُوْہَا وَ تُلْہِیْکُمْ کَمَا اَلْہَتْہُمْ۔ { FR 2456 }
پس قسم خدا کی میں فقر یا افلاس سے تمھارے لیے نہیں ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی پھر جس طرح انھوں نے اس میں باہم رشک و تنافس کیا۔ اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوئے۔
تم کہتے ہو کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ نہیں ہے، گنیاں نہیں ہیں، عمدہ کوٹ نہیں ہیں، عمدہ کپڑے نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے‘ لیکن مسلمان جن کے ہیں انھوں نے جو فرمایا ہے، دیوانو! اس کی تمھیں خبر بھی نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ، بخاری میں ہے:
تَعِسَ عَبْدُ الدَّیْنَارِ وَ الدِّرْہَمِ وَالْقَطِیْفَۃِ وَالْخَمِیْصَۃِ ۔{ FR 2457 }
اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے، ہلاک ہوئے۔
تم کہتے ہو کہ مفلس قوم تباہ ہوئی جاتی ہے لیکن جس کی قوم ہے وہ فرماتا ہے کہ درہم و دینار کے بندے تباہ ہوئے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہم مسلمان کس کی سنیں؟ اور سچ ہے کہ جس قوم میں افلاس کا رونا ہے انھوں نے جب سود کھایا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا، تیرہ تیرہ برس کے اندر بائیس بائیس روپیہ کو بائیس بائیس لاکھ روپیہ تک بنا کر رہے ان کے افلاس کے مرثیہ خوانوں کی دنیا میں کیا کمی ہے۔ کیا دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا اسی قوم کو پہنچ جاتا ہے جو سود کے میدان میں بازی مارے ہوئے ہے؟ فی کس تین پیسے کن قوموں کی آمدنی ہے؟ اور ان کو تو جانے دو، حکومت کے زور سے جو سود کھا رہے ہیں ان کے مزدوروں کا حال اخبارات میں کیا تمھاری نظروں سے نہیں گزرتاہے، سچ فرمایا اُمت کے ہادی a نے:
لَوْ کَانَ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَاِدْیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا وَلاَ یَمْلاَئُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ۔۔۔ { FR 2459 }عَیْنِ ابْنِ اٰدم اِلاَّ التُّرَابَ۔ { FR 2458 }
اگر آدم کے بچوں کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ) مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔
سر منزل قناعت نتواں زدست دادن
اے سارباں فردکش کیں رہ کراں ندارد!
]منزل کے قریب بھی قناعت کا دامن چھوڑنا ممکن نہیں اے ساربان قافلہ روک لو کہ اس راستے کا کوئی کنارہ نہیں۔[
مسلمان کے لیے تو وہی نغمہ کافی ہے جو آج سے تیرہ سو برس پیشتر گایا گیا۔
اللہم لا عیش الا عیش الاخرۃ
]اے اللہ! زندگی نہیں ہے مگر آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔[
(ترجمان القرآن ‘ شعبان‘ رمضان ۵۵ھ ‘نومبر‘دسمبر ۱۹۳۶ء)
٭…٭…٭