Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ ترتیب جدید
تمہید
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
حرمت سود
ایجابی پہلو
جدید بینکنگ
سُود کے متعلق اسلامی احکام
سود کے متعلقات
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
اصلاح کی عملی صورت
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
قولِ فیصل
مصادر ومراجع (Bibliography)

سود

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اصلاح کی عملی صورت

اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کرکے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جا سکتا ہے جو موجودہ زمانے میں ایک ترقی پذیر معاشرے اور ریاست کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
چند غلط فہمیاں
اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے میں، بلکہ عملی اصلاح کے ہر معاملے میں لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا کرتی ہیں۔
] غیر سودی نظام کا قابل ہونا[
سب سے پہلی غلط فہمی تو وہی ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا سوال پیدا ہوا ہے۔ پچھلے صفحات میں عقلی حیثیت سے بھی یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ سود ایک غلط چیز ہے اور نقلی حیثیت سے بھی اس کا ثبوت پیش کر دیا گیا ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہر قسم کے سود کو حرام کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اگر مان لی جائیں تو اس کے بعد لوگوں کا پوچھنا کہ ’’کیا اس کے بغیر کام چل بھی سکتا ہے؟ اور کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کوئی غلطی ناگزیر بھی ہے اور کوئی راستی ناقابل عمل بھی پائی جاتی ہے۔ یہ دراصل فطرت اور اس کے نظام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک ایسے فاسد نظام کائنات میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہماری بعض حقیقی ضرورتیں غلطیوں اور بدکاریوں سے وابستہ کر دی گئی ہیں۔ اور بعض بھلائیوں کے دروازے جان بوجھ کر ہم پر بند کر دیے گئے ہیں۔ یا اس سے بھی گزر کر یہ بات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ فطرت خود اس قدر ٹیڑھی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ خود اس کے اپنے قوانین کی رُو سے غلط ہے وہی اس کے نظام میں مفید اور ضروری اور قابل عمل ہے اور جو کچھ اس کے قوانین کی رو سے صحیح ہے وہی اس کے نظام میں غیر مفید اور ناقابل عمل ہے۔
کیا واقعی ہماری عقل اور ہمارے علوم اور ہمارے تاریخی تجربات مزاج فطرت کو اسی بدگمانی کا مستحق ثابت کرتے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ فطرت بگاڑ کی حامی اور بناؤ کی دشمن ہے۔ اگر یہ بات ہے تب تو ہمیں اشیا کی صحت اور غلطی کے متعلق اپنی ساری بحثیں لپیٹ کر رکھ دینی چاہییں اور سیدھی طرح زندگی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بعد تو ہمارے لیے اُمید کی ایک کرن بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہتی لیکن اگر ہماری اور کائنات کی فطرت اس سوئے ظن کے لائق نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ اندازِ فکر چھوڑ دینا چاہیے کہ ’’فلاں چیز ہے تو بری مگر کام اسی سے چلتا ہے‘‘ اور ’’فلاں چیز ہے تو برحق مگر چلنے والی چیز نہیں ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو طریقہ بھی رواج پا جاتا ہے‘ انسانی معاملات اسی سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو بدل کر کسی دوسرے طریقے کو رائج کرنا مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ ہر رائج الوقت طریقے کا یہی حال ہے خواہ وہ طریقہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ دشواری جو کچھ بھی ہے تغیر میں ہے اور سہولت کی اصل وجہ رواج کے سوا کچھ نہیں۔ مگر نادان لوگ اس سے دھوکا کھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو غلطی رائج ہو چکی ہے انسانی معاملات بس اسی پر چل سکتے ہیں اور اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔
] تبدیلی کی دُشواری کی درست جانچ[
دوسری غلط فہمی اس معاملے میں یہ ہے کہ لوگ تغیر کی دشواری کے اصل اسباب کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ تغیر کے سر پر ناقابل عمل ہونے کا الزام تھوپنے لگتے ہیں۔ آپ انسانی سعی کے امکانات کا بہت ہی غلط اندازہ لگائیں گے اگر رائج الوقت نظام کے خلاف کسی تجویز کو بھی ناقابل عمل سمجھیں گے۔ جس دنیا میں انفرادی ملکیت کی تنسیخ اور اجتماعی ملکیت کی ترویج جیسی انتہائی انقلاب انگیز تجویز تک عمل میں لا کر دکھا دی گئی ہو وہاں یہ کہنا کس قدر لغو ہے کہ سود کی تنسیخ اور زکوٰۃ کی تنظیم جیسی معتدل تجویزیں قابل عمل نہیں ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ رائج الوقت نظام کو بدل کر کسی دوسرے نقشے پر زندگی کی تعمیر کرنا ہر عمر و زید کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جن میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں۔
ایک یہ کہ وہ فی الحقیقت پرانے نظام سے منحرف ہو چکے ہوں اور سچے دل سے اس تجویز پر ایمان رکھتے ہوں جس کے مطابق نظام زندگی میں تغیر کرنا پیش نظر ہے۔
دوسرے یہ کہ ان میں تقلیدی ذہانت کے بجائے اجتہادی ذہانت پائی جاتی ہو۔ وہ محض اس واجبی سی ذہانت کے مالک نہ ہوں جو پرانے نظام کو اس کے اماموں کی طرح چلالے جانے کے لیے کافی ہوتی ہے، بلکہ اس درجے کی ذہانت رکھتے ہوں جو پامال راہوں کو چھوڑ کر نئی راہ بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
یہ دو شرطیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کمیونزم اور نازی ازم اور فاشزم جیسے سخت انقلابی مسلکوں کی تجاویز تک عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور ان شرطوں کا جن میں فقدان ہو وہ اسلام کے تجویز کیے ہوئے انتہائی معتدل تغیرات کو بھی نافذ نہیں کر سکتے۔
]نظریت اور عملیت میں توازن[
ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس معاملے میں اور بھی ہے۔ تعمیری تنقید اور اصلاحی تجویز کے جواب میں جب عمل کا نقشہ مانگا جاتا ہے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک عمل کی جگہ شاید کاغذ ہے۔ حالانکہ عمل کاغذ پر نہیں زمین پر ہوا کرتا ہے۔ کاغذ پر کرنے کا اصل کام تو صرف یہ ہے کہ دلائل اور شواہد سے نظامِ حاضر کی غلطیاں اور ان کی مضرتیں واضح کر دی جائیں اور ان کی جگہ جو اصلاحی تجویزیں ہم عمل میں لانا چاہتے ہیں ان کی معقولیت ثابت کر دی جائے۔ اس کے بعد جو مسائل عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کاغذ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں کو ایک عام تصور اس امر کا دیا جائے کہ پرانے نظام کے غلط طریقوں کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ اور ان کی جگہ نئی تجویزیں کیوں کر عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اس شکست و ریخت کی تفصیلی صورت کیا ہوگی اور اس کے جزوی مراحل کیا ہوں گے اور ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کیسے کیا جائے گا تو ان امور کو نہ تو کوئی شخص پیشگی جان سکتا ہے اور نہ ان کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس امر پر مطمئن ہو چکے ہوں کہ موجودہ نظام واقعی غلط ہے اور اصلاح کی تجویز بالکل معقول ہے تو عمل کی طرف قدم اٹھایئے اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیجیے جو ایمان اور اجتہادی ذہانت رکھتے ہوں پھر جو عملی مسئلہ جہاں پیدا ہوگا اسی جگہ وہ حل ہو جائے گا۔ زمین پر کرنے کا کام آخر کاغذ پر کرکے کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟
اس توضیح کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس باب میں جو کچھ ہم پیش کریں گے وہ غیر سودی مالیات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہ ہوگا بلکہ اس چیز کا صرف ایک عام تصور ہوگا کہ سود کو اجتماعی مالیات سے خارج کرنے کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے اور وہ بڑے بڑے مسائل جو اخراجِ سود کا خیال کرتے ہی بادی النظر میں آدمی کے سامنے آ جاتے ہیں، کس طرح حل کیے جا سکتے ہیں۔
اصلاح کی راہ میں پہلا قدم
پچھلے ابواب میں سود کی خرابیوں پر جو تفصیلی بحث کی گئی ہے اس سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں یہ سب خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرض حسن کیوں دے؟ اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے؟ اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کا ہاتھ کیوں بڑھائے؟ اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ ساہوکار کے حوالے کر دے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو؟
آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھرنے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں کر سکتے کہ نرے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے ہی سے آپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے۔ پھر یہاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض کھلی چھٹی دے رکھی ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور حکومت خود اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال اور چلا رہی ہے۔ اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی قسم کی جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سدباب ہوسکے اگر ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آ رہی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظامِ مالیات بن کر تیار ہو لے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہو جائے گا یا اسے قانوناً بند کر دیا جائے گا، وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سود ازروئے قانون جاری ہے جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کرکے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں، جب تک ساہوکاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکٹھا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں، اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غیر سودی نظامِ مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے۔ لہٰذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہو لے جو موجودہ سودی نظام کی جگہ لے سکتا ہو تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آ سکتی۔ یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اوّل قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کر دیا جائے۔ پھر خودبخود غیر سودی نظامِ مالیات پیدا ہو جائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے، آپ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائے گی۔
سود نفس انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے، ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشرے میں اس بلا کا استیصال نہیں کیا جا سکتا۔ اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اسی سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے۔ اسلام سودی کاروبار کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذہبی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے، تمام سودی معاہدوں کو کالعدم ٹھیراتا ہے، سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابل دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے اور اگر کہیں یہ کاروبار معمولی سزاؤں سے بند نہ ہو تو اس کے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائیداد تک کی سزائیں دیتا ہے۔
تیسری طرف وہ زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کرکے ایک دوسرے نظامِ مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تاکہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خواری کے موجب ہوتے ہیں۔ اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہو سکے۔
اِنسدادِ سود کے نتائج
جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسداد کرنا چاہتا ہو اسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا۔ سود کی یہ قانونی بندش، جب کہ اس کے ساتھ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا اجتماعی نظام بھی ہو، مالیات کے نقطۂ نظر سے تین بڑے نتائج پر منتج ہوگی۔
] اجتماع سرمایہ کی فساد انگیز صورت کا خاتمہ[
(۱) اس کا اوّلین اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوگا کہ اجتماع سرمائے کی موجودہ فساد انگیز صورت ایک صحیح اور صحت بخش صورت سے بدل جائے گی۔
موجودہ صورت میں تو سرمایہ اس طرح جمع ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی نظام بخل اور جمع مال کے اس میلان کو جوہر انسان کے اندر طبعاً تھوڑا بہت موجود ہے۔ اپنی مصنوعی تدبیروں سے انتہائی مبالغے کی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ وہ اسے خوف اور لالچ، دونوں ذرائع سے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم حصہ خرچ اور زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرے۔ وہ اسے خوف دلاتا ہے کہ جمع کر کیونکہ پورے معاشرے میں کوئی نہیں ہے جو تیرے برے وقت پر کام آئے۔ وہ اسے لالچ دیتا ہے کہ جمع کر کیونکہ اس کا اجر تجھے سود کی شکل میں ملے گا۔ اس دوہری تحریک کی وجہ سے معاشرے کے وہ تمام افراد جو قدرِ کفاف سے کچھ بھی زائد آمدنی رکھتے ہیں، خرچ روکنے اور جمع کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منڈیوں میں اموال تجارت کی کھپت امکانی حد سے بہت کم ہوتی ہے اور آمدنیاں جتنی کم ہوتی جاتی ہیں، صنعت و تجارت کی ترقی کے امکانات بھی اس کے مطابق کم اور اجتماع سرمائے کے مواقع کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح چند افراد کے اندوختوں کا بڑھنا اجتماعی معیشت کے گھٹنے کا موجب ہوتا ہے۔ ایک آدمی ایسے طریقے سے اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں میں اضافہ کرتا ہے جس سے ہزار آدمی سرے سے کچھ کمانے ہی کے قابل نہیں رہتے کجا کہ کچھ پس انداز کر سکیں۔
اس کے برعکس جب سود بند کر دیا جائے گا اور زکوٰۃ کی تنظیم کرکے ریاست کی طرف سے معاشرے کے ہر فرد کو اس امر کا اطمینان بھی دلا دیا جائے گا کہ برے وقت میں اس کی دست گیری کا انتظام موجود ہے تو بخل و زر اندوزی کے غیر فطری اسباب و محرکات ختم ہو جائیں گے۔ لوگ دل کھول کر خود بھی خرچ کریں گے اور نادار افراد کو بھی زکوٰۃ کے ذریعے سے اتنی قوت خریداری بہم پہنچا دیں گے کہ وہ خرچ کریں۔ اس سے صنعت و تجارت بڑھے گی۔ صنعت و تجارت کے بڑھنے سے روزگار بڑھے گا۔ روزگار بڑھنے سے آمدنیاں بڑھیں گی۔
ایسے ماحول میں اوّل تو صنعت و تجارت کا اپنا منافع ہی اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کا خارجی سرمائے کی اتنی احتیاج باقی نہ رہے گی جتنی اب ہوتی ہے پھر جس حد تک بھی اسے سرمائے کی حاجت ہوگی وہ موجودہ حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ سہولت کے ساتھ بہم پہنچ سکے گا۔ کیونکہ اس وقت پس انداز کرنے کا سلسلہ بالکل بند نہیں ہو جائے گا۔ جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اپنی پیدائشی افتاد طبع کی بنا پر ہی اندوختہ کرتے رہیں گے اور بیشتر لوگ آمدنیوں کی کثرت اور معاشرے کی عام آسودگی کے باعث مجبوراً پس انداز کریں گے۔ا س وقت یہ پس اندازی کسی بخل یا خوف یا لالچ کی بنا پر نہ ہوگی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کمائیں گے، اسلام کی جائز کی ہوئی مداتِ خرچ میں خوب دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود ان کے پاس بہت کچھ بچ رہے گا، اس بچی ہوئی دولت کو لینے والا کوئی محتاج آدمی بھی ان کو نہ ملے گا، اس لیے وہ اسے ڈال رکھیں گے اور بڑی اچھی شرائط پر اپنی حکومت کو، اپنے ملک کی صنعت و تجارت کو اور ہمسایہ ملکوں تک کو سرمایہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
] معیشت کے لیے سرمایہ کی دستیابی[
(۲) دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ جمع شدہ سرمایہ رکنے کے بجائے چلنے کی طرف مائل رہے گا اور اجتماعی معیشت کی کھیتیوں کو ان کی حاجت کے مطابق اور ضرورت کے موقع پر برابر ملتا چلا جائے گا۔ موجودہ نظام میں سرمائے کو کاروبار کی طرف جانے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ سود کا لالچ ہے۔ مگر یہی چیز اس کے رُکنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ اکثر اس انتظار میں ٹھیرا رہتا ہے کہ زیادہ شرح سود ملے تو وہ کام میں لگے۔ نیز یہی چیز سرمائے کے مزاج کو کاروبار کے مزاج سے منحرف بھی کر دیتی ہے۔ جب کاروبار چاہتا ہے کہ سرمایہ آئے تو سرمایہ اکڑ جاتا ہے اور اپنی شرائط سخت کرتا چلا جاتا ہے اور جب معاملہ برعکس ہوتا ہے تو سرمایہ کاروبار کے پیچھے دوڑتا ہے اور ہلکی شرائط پر ہر اچھے برے کام میں لگنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن جب سود کا دروازہ ازروئے قانون بند ہو جائے گا اور تمام جمع شدہ رقموں پر الٹی زکوٰۃ اڑھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے لگنی شروع ہوگی تو سرمائے کی یہ بدمزاجی ختم ہو جائے گی۔ وہ خود اس بات کا خواہش مند ہوگا کہ معقول شرائط پر جلدی سے جلدی کسی کاروبار میں لگ جائے اور ٹھیرنے کے بجائے ہمیشہ کاروبار ہی میں لگا رہے۔
]کاروبار اور قرض کے لیے الگ الگ مالیات کی دستیابی[
(۳) تیسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروباری مالیات اور مالیاتِ قرض کی مدیں بالکل الگ ہو جائیں گی۔ موجودہ نظام میں تو سرمائے کی بہم رسانی زیادہ تر، بلکہ قریب قریب تمام تر ہوتی ہی صرف قرض کی صورت میں ہے۔ خواہ روپیہ لینے والا شخص یا ادارہ کسی نفع آور کام کے لیے لے یا غیر نفع آور کے لیے، اور خواہ کسی عارضی ضرورت کے لیے یا کسی طویل المدت تجویز کے لیے، ہر صورت میں سرمایہ صرف ایک یہ شرط پر ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقرر شرح سود پر اسے قرض حاصل کیا جائے لیکن جب سود ممنوع ہو جائے گا تو قرض کی مد صرف غیر نفع آور اغراض کے لیے، یا جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے، عارضی ضروریات کے لیے مخصوص ہو جائے گی، اور اس کا انتظام قرض حسن کے اصول پر کرنا ہوگا۔ رہیں دوسری اغراض، خواہ وہ صنعت و تجارت وغیرہ سے متعلق ہوں یا حکومتوں اور پبلک اداروں کی نفع بخش تجویزوں سے متعلق، ان سب کے لیے سرمائے کی فراہمی قرض کے بجائے مضاربت (حصّے داری) (profit sharing) کے اصول پر ہوگی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ بتائیں گے کہ غیر سودی نظام مالیات میں یہ دونوں شعبے کس طرح کام کر سکتے ہیں۔
غیر سودی مالیات میں فراہمی قرض کی صورتیں
پہلے قرض کے شعبے کو لیجیے، کیونکہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند ہو جانے سے قرض ملنا بھی بند ہو جائے گا۔ لہٰذا پہلے ہم یہی دکھائیں گے کہ اس ناپاک رکاوٹ کے دور ہو جانے سے قرض کی فراہمی صرف یہی نہیں کہ بند ہوگی بلکہ موجودہ حالت سے زیادہ آسان ہوگی اور بدرجہا زیادہ بہتر صورت اختیار کر لے گی۔
شخصی حاجات کے لیے
موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے اور صاحب جائیداد آدمی بینک سے سودی قرض حاصل کرے۔ دونوں صورتوں میں ہر طالب قرض کو ہر غرض کے لیے ہر مقدار میں روپیہ مل سکتا ہے اگر وہ مہاجن یا بینکر کو اصل و سود کے ملتے رہنے کا اطمینان دلا سکتا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ گناہ گاریوں کے لیے لینا چاہتا ہو یا فضول خرچیوں کے لیے یا حقیقی ضرورتوں کے لیے۔ بخلاف اس کے کوئی طالب ِ قرض کہیں سے ایک پیسہ نہیں پا سکتا اگر وہ اصل سود کے ملنے کا اطمینان نہ دلا سکتا ہو، چاہے اس کے گھر ایک مردہ لاش ہی بے گوروکفن کیوں نہ پڑی ہو۔ پھر موجودہ نظام میں کسی غریب کی مصیبت اور کسی امیر زادے کی آوارگی، دونوں ہی ساہو کار کے لیے کمائی کے بہترین مواقع ہیں اور اس خود غرضی کے ساتھ سنگ دلی کا یہ حال ہے کہ جو شخص سودی قرض کے جال میں پھنس چکا ہے اس کے ساتھ نہ سود کی تحصیل میں کوئی رعایت ہے نہ اصل کی بازیافت میں۔ کوئی یہ دیکھنے کے لیے دل ہی نہیں رکھتا کہ جس شخص سے ہم اصل و سود کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کم بخت کس حال میں مبتلا ہے … یہ ہیں وہ ’’آسانیاں‘‘ جو موجودہ نظام شخصی حاجات میں فراہمی قرض کے لیے بہم پہنچاتا ہے۔ اب دیکھیے کہ اسلام کا غیر سودی صدقاتی نظام اس چیز کا انتظام کس طرح کرے گا۔
اوّل تو اس نظام میں فضول خرچیوں اور گناہ گاریوں کے لیے قرض کا دروازہ بند ہو جائے گا کیونکہ وہاں سود کے لالچ میں بے جا قرض دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس حالت میں قرض کا سارا لین دین آپ سے آپ صرف معقول ضروریات تک محدود ہو جائے گا اور اتنی ہی رقمیں لی اور دی جائیں گی جو مختلف انفرادی حالات میں صریح طور پر مناسب نظر آئیں گی۔
پھر چونکہ اس نظام میں قرض لینے والے سے کسی نوعیت کا فائدہ اٹھانا قرض دینے والے کے لیے جائز نہ ہوگا اس لیے قرضوں کی واپسی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے گی۔ کم سے کم آمدنی رکھنے والا بھی تھوڑی تھوڑی قسطیں دے کر بار قرض سے جلدی اور آسانی سے سبکدوش ہو سکے گا۔ جو شخص کوئی زمین یا مکان یا اور کسی قسم کی جائیداد رہن رکھے گا اس کی آمدنی سود میں کھپنے کے بجائے اصل میں وضع ہوگی اور اس طرح جلدی سے جلدی رقم قرض کی بازیافت ہو جائے گی۔ اتنی آسانیوں کے باوجود اگر شاذونادر کسی معاملے میں کوئی قرض ادا ہونے سے رہ جائے گا تو بیت المال ہر آدمی کی پشت پر موجود ہوگا جو ادائیگی قرض میں اس کی مدد کرے گا اور بالفرض اگر مدیون کچھ چھوڑے بغیر مر جائے گا تب بھی بیت المال اس کا قرض ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ ان وجوہ سے خوش حال و ذی استطاعت لوگوں کے لیے اپنے کسی حاجت مند ہمسائے کی ضرورت کے موقع پر اسے قرض دینا اتنا مشکل اور ناگوار نہ رہے گا جتنا اب موجودہ نظام میں ہے۔
اس پر بھی اگر کسی بندۂ خدا کو اس کے محلے یا بستی سے قرض نہ ملے گا تو بیت المال کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہوگا۔ وہ جائے گا اور وہاں سے بآسانی قرض حاصل کر لے گا ‘ لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ بیت المال سے استمداد ان اغراض کے لیے آخری چارہ کار ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے شخصی حاجات میں ایک دوسرے کو قرض دینا معاشرے کے افراد کا اپنا فرض ہے اور ایک معاشرے کی صحت مندی کا معیار یہی ہے کہ اس کے افراد اپنی اس طرح کی اخلاقی ذمہ داری کو خود ہی محسوس اور ادا کرتے رہیں۔ اگر کسی بستی کا کوئی باشندہ اپنے ہمسایوں سے قرض نہیں پاتا اور مجبور ہو کر بیت المال کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ صریحاً اس بات کی علامت ہے کہ اس بستی کی اخلاقی آب و ہوا بگڑی ہوئی ہے۔ اس لیے جس وقت اس قسم کا کوئی معاملہ بیت المال میں پہنچے گا تو وہاں صرف اس طالب قرض کی حاجت پوری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے گا بلکہ فوراً اخلاقی حفظانِ صحت کے محکمے کو اس ’’واردات‘‘ کی اطلاع دی جائے گی اور وہ اسی وقت اس بیمار بستی کی طرف توجہ کرے گا جس کے باشندے اپنے ایک ہمسائے کی ضرورت کے وقت اس کے کام نہ آئے۔ اس طرح کے کسی واقعے کی اطلاع ایک صالح اخلاقی نظام میں وہی اضطراب پیدا کرے گی جو ہیضے یا طاعون کے کسی واقعے کی اطلاع ایک مادہ پرست نظام میں پیدا کیا کرتی ہے۔
شخصی حاجات کے لیے قرض فراہم کرنے کی ایک اور صورت بھی اسلامی نظام میں اختیار کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام تجارتی کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر ان کے ملازموں اور مزدوروں کے جو کم سے کم حقوق ازروئے قانون مقرر کیے جائیں ان میں ایک حق یہ بھی ہو کہ وہ ان کی غیرمعمولی ضرورت کے مواقع پر ان کو قرض دیا کریں۔ نیز حکومت خود بھی اپنے اوپر اپنے ملازموں کا یہ حق تسلیم کرے اور اس کو فیاضی کے ساتھ ادا کرے۔ یہ معاملہ حقیقت میں صرف اخلاقی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کی معاشی و سیاسی اہمیت ہے۔ آپ اپنے ملازموں اور مزدوروں کے لیے غیر سودی قرض کی سہولت بہم پہنچائیں گے تو صرف ایک نیکی ہی نہیں کریں گے بلکہ ان اسباب میں سے ایک بڑے سبب کو دور کر دیں گے جو آپ کے کارکنوں کو فکر، پریشانی، خستہ حالی، جسمانی آزار اور مادّی بربادی میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان بلاؤں سے ان کی حفاظت کیجیے۔ ان کی آسودگی ان کی قوت کار بڑھائے گی اور ان کا اطمینان انھیں فساد انگیز فلسفوں سے بچائے گا۔ اس کا نفع بہی کھاتے کی رُو سے چاہے کچھ نہ ہو لیکن کسی کو عقل کی بینائی میسر ہو تو وہ بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے ہی کے لیے نہیں، بلکہ فرداً فرداً ایک ایک سرمایہ دار کارخانہ دار کے لیے اور ایک ایک معاشی و سیاسی ادارے کے لیے اس کا نفع اس سود سے بہت زیادہ قیمتی ہوگا جو آج مادّہ پرست نظام میں محض احمقانہ تنگ نظری کی بنا پر وصول کیا جا رہا ہے۔
کاروباری اغراض کے لیے
اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں، موجودہ زمانے میں ان مقاصد کے لیے یا تو بینکوں سے براہ راست قلیل المدت قرضے … (short term loans)… حاصل کیے جاتے ہیں، یا پھر ہنڈیاں … (exchange)… بھنائی جاتی ہیں۔{ FR 2248 } اوردونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں۔ یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا۔ اس لیے جب کاروباری لوگ بندش سود کا نام سنتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر روزمرہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا؟ اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ جس بینک کے پاس تمام رقوم امانت (deposits) بلاسود جمع ہوں اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلا سود رکھا رہتا ہو، وہ آخر کیوں نہ ان کو بلاسود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے؟ وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہوگا تو تجارتی قانون کے ذریعے سے اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کھاتے داروں (customers) کو یہ سہولت بہم پہنچائے۔ اس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونا چاہیے۔
درحقیقت اس کام کے لیے خود تاجروں کی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہو سکتی ہیں‘ لیکن ضرورت پڑ جانے پر کوئی مضائقہ نہیں اگر بینک اپنے دوسرے سرمائے میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لیے استعمال کر لے۔
بہرحال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا ہے وہ سود دے کیوں؟ اور اجتماعی معیشت کے نقطۂ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روزمرّہ کی ضروریات کے لیے بلاسود قرض ملتا رہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چالو کھاتوں (current account) کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلا سود رہیں گی تو اس کے لیے انھی رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا۔ کیونکہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرنے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کر لے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی۔ تاہم بالفرض یہ طریقہ قابل عمل نہ ہو تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتے داروں پر عائد کر دے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو۔ سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کر لیں گے۔
حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے
تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو بھی وقتی حوادث کے لیے، اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے اور کبھی جنگ کے لیے لینے ہوتے ہیں۔ موجودہ نظامِ مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض، اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے لیکن اسلامی نظام مالیات میں یہ عین ممکن ہوگا کہ ادھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور ادھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں۔ اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوٰۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کر دے گی کہ اپنے اندوختے (savings) اپنی حکومت کو یوں ہی دے دینے میں کوئی تأمل نہ ہوگا۔ اس پر بھی اگر بقدر ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرض حسن دیں گے‘ لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہو سکیں، تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسب ذیل طریقے اختیار کر سکتی ہے:۔
(۱) زکوٰۃ و خمس کی رقمیں استعمال کرے۔
(۲) تمام بینکوں سے ان کی رقوم امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کر لے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افراد قوم سے لازمی فوجی خدمت … (conscriptions) طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے (requisition) کا حق رکھتی ہے۔
(۳) بدرجۂ آخر وہ اپنی ضرورت کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو دراصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے‘ لیکن یہ محض ایک آخری چارہ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں۔
بین الاقوامی ضروریات کے لیے
اب رہے بین الاقوامی قرضے، تو اس معاملے میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خوار دنیا میں ہم قومی ضرورت کے موقع پر کہیں سے ایک پیسہ بلا سود قرض پانے کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس پہلو میں تو ہم کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہوگی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں، کم از کم اس وقت تک تو ہرگز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلاسود قرض دے سکتی ہے۔ رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے ہم کر چکے ہیں اس کے بعد شاید کسی صاحب نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تأمل نہ ہوگا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کرکے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندش سود اور تنظیم زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کر لیا تو یقینا بہت جلد ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہوگی بلکہ ہم اپنے گردوپیش کی حاجت مند قوموں کو بلاسود قرض دینے کے قابل ہو جائیں گے اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دورِ جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی انقلاب انگیزدن ہوگا۔
اس وقت یہ امکان پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیر سودی بنیاد پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہوگا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے باہم ایسے معاہدات طے کرنے شروع کر دیں کہ وہ ایک دوسرے سے سود نہیں لیں گی اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا اظہار کرنے لگے جس کا اظہار ۱۹۴۵ء میں برٹین و دڈس کے معاملے پر انگلستان میں کیا گیا تھا۔ یہ محض ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے، بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ یہ سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت، دونوں پر نہایت برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔
اس طریقے کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعے سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دوہرا فائدہ ہوگا۔ سیاسی و تمدنی حیثیت سے بین الاقوامی بدمزگی بڑھنے کے بجائے محبت اور دوستی بڑھے گی۔ اور معاشی حیثیت ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدرجہا زیادہ نافع ثابت ہوگا۔ یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کر دے۔
نفع آور اغراض کے لیے سرمائے کی بہم رسانی
مالیات ِقرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیش نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، سود کا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کر دے گا کہ وہ محنت اور خطرہ (risk) دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سکیں اور اسی طرح زکوٰۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کر دے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زربن کر بیٹھ جائیں۔ مزید برآں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں ادھر بہ نکلیں۔ اس کے بعد لا محالہ ان تمام لوگوں کو جو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
] بچت کو رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کریں[
(۱) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب نہ ہوں تو اپنی بچت کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کریں، خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ وہ خود کسی کا رِ خیر پر اسے وقف کریں یا یہ ہو کہ قومی اداروں کو چندے اور عطیے دیں یا پھر یہ ہو کہ بے غرضانہ و مخلصانہ طریقے سے … اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے امور نافعہ اور ترقیاتِ عامہ اور اصلاح خلق کے کاموں پر صرف کرے۔ خصوصیت کے ساتھ آخری صورت کو لازماً ترجیح دی جائے گی اگر حکومت کا نظم و نسق ایسے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہو جن کی دیانت اور فراست پر عموماً لوگوں کو بھروسہ ہو۔ اس طرح اجتماعی مصالح اور ترقی و بہبود کے کاموں کے لیے حکومت کو اور دوسرے اجتماعی اداروں کو سرمائے کی ایک کثیر مقدار ہمیشہ مفت ملتی رہے گی جس کا سود یا منافع تو درکنار اصل ادا کرنے کے لیے بھی عوام الناس پر ٹیکسوں کا کوئی بار نہ پڑ جائے گا۔
] بچت کو بینک میں بلاسود قرض کی صورت میں جمع کروائیں[
(۲) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب تو نہ ہوں، لیکن اپنی زائد از ضرورت دولت کو اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو اسے بینک میں جمع کرا دیں اور بینک اس کو امانت میں رکھنے کے بجائے اپنے ذمے قرض قرار دے۔ اس صورت میں بینک اس بات کا ضامن ہوگا کہ ان کی جمع کردہ رقم عند الطلب، یا طے شدہ وقت پر انھیں واپس کر دے اور اس کے ساتھ بینک کو یہ حق ہوگا کہ قرض کی اس رقم کو کاروبار میں لگائے اور اس کا منافع حاصل کرے۔ اس منافع میں سے کوئی حصہ اسے کھاتے داروں کو دینا نہ ہوگا، بلکہ وہ کلیتاً بینک کا اپنا منافع ہوگا۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تجارت بہت بڑی حد تک اسی اسلامی اصول کی رہین منت تھی۔ ان کی دیانت اور غیر معمولی ساکھ کی وجہ سے لوگ اپنا روپیہ ان کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے تھے۔ امام صاحب اس روپے کو امانت میں رکھنے کے بجائے قرض کے طور پر لیتے اور اسے اپنے تجارتی کاروبار میں استعمال کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے وقت جب حساب کیا گیا تو ان کی فرم میں پانچ کروڑ درہم کا سرمایہ اسی قاعدے کے مطابق لوگوں کی رکھوائی رقوم کا لگا ہوا تھا۔{ FR 2399 } اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھوائے تو امین اسے استعمال نہیں کر سکتا مگر امانت ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی ضمان عائد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہی مال قرض کے طور پر دیا جائے تو مدیون اسے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دار ہے اور وقت پر قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔{ FR 2400 } اسی قاعدے پر اب بھی بینک عمل کر سکتے ہیں۔
] بچت کو مضاربت یا شراکت میں لگائیں[
(۳) اور اگر وہ اپنی پس انداز رقموں کو کسی نفع آور کام میں لگانے کے خواہش مند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کا صرف ایک راستہ کھلا ہوگا یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو مضاربت یا نفع و نقصان میں متناسب شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموں میں لگائیں، خواہ حکومت کے توسط سے یا بینکوں کے توسط سے۔
خود لگانا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں ازروئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہوگا کہ فریقین کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی علیٰ ہذا القیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہوگی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں، بانڈ اور ڈبنچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی۔
حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انھیں امور نافعہ سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصّے دار بننا ہوگا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اس کا اعلان کرکے پبلک کواس میں شرکت کی دعوت دے گی جو اشخاص، یا ادارے یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ اس کے حصّے دار بن جائیں گے اور اس کے کاروباری منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے۔ نقصان ہوگا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر اور حکومت پر تقسیم ہو جائے گا اور حکومت اس امر کی بھی حق دار ہوگی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری مِلک بن جائے۔
مگر موجودہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سب سے زیادہ قابل عمل اور مفید تیسری صورت ہی ہوگی۔ یعنی یہ کہ لوگ بینکوں کے توسط سے اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگائیں۔ اس لیے ہم اس کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے اس امر کی صاف تصویر آ جائے کہ سود کو ساقط کرنے کے بعد بینکنگ کا کاروبار کس طرح چل سکتا ہے اور نفع کے طالب لوگ اس سے کس طرح متمتع ہو سکتے ہیں۔
بینکنگ کی اسلامی صورت
بینکنگ کے متعلق اس سے پہلے ہم نے جو بحث کی ہے اس کا یہ مطلب نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے کہ یہ کام سرے سے ہی غلط اور ناجائز ہے۔ دراصل بینکنگ بھی موجودہ تہذیب کی پرورش کی ہوئی بہت سی چیزوں کی طرح ایک ایسی اہم مفید چیز ہے جس کو صرف ایک شیطانی عنصر کی شمولیت نے گندا کر رکھا ہے۔ اوّل تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دیتا ہے جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی۔ مثلاً رقموں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا، بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولتیں بہم پہنچانا، قیمتی اشیا کی حفاظت کرنا، اعتماد نامے (letter of credit) سفری چیک اور گشتی نوٹ جاری کرنا، کمپنیوں کے حصص کی فروخت کا انتظام کرنا اور بہت سی وکیلانہ خدمات (agency services) جنھیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپرد کرکے آج ایک مصروف آدمی بہت سے جھنجھٹوں سے خلاصی پا لیتا ہے۔
یہ وہ کام ہیں جنھیں بہرحال جاری رہنا چاہیے اور ان کے لیے ایک مستقل ادارے کا ہونا ضروری ہے۔ پھر یہ بات بھی بجائے خود تجارت، صنعت، زراعت اور ہر شعبہ تمدن و معیشت کے لیے نہایت مفید اور آج کے حالات کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے کہ معاشرے کا فاضل سرمایہ بکھرا ہوا رہنے کے بجائے ایک مرکزی ذخیرہ (reservoir) میں مجتمع ہو اور وہاں سے وہ زندگی کے ہر شعبے کو آسانی کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ بہم پہنچ سکے۔
اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بھی اس میں بڑی سہولت ہے کہ جو تھوڑا بہت سرمایہ ان کی ضرورت سے بچ رہتا ہے‘ اسے وہ کسی نفع بخش کام میں لگانے کے مواقع الگ الگ بطور خود ڈھونڈتے پھرنے کے بجائے سب اس کو ایک مرکزی ذخیرے میں جمع کرا دیا کریں اور وہاں ایک قابل اطمینان طریقے سے اجتماعی طور پر ان سب کے سرمائے کو کام پر لگانے اور حاصل شدہ منافع کو ان پر تقسیم کرنے کا انتظام ہوتا رہے۔
ان سب پر مزید یہ کہ مستقل طور پر مالیات (finance) ہی کا کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظمین اور کارکنوں کو اس شعبہ فن میں ایک ایسی مہارت اور بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جو تاجروں، صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ماہرانہ بصیرت بجائے خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ یہ محض ساہوکار کی خود غرضی کا ہتھیار بن کر نہ رہے بلکہ کاروباری لوگوں کے ساتھ تعاون میں استعمال ہو لیکن بینکنگ کی ان ساری خوبیوں اور منفعتوں کو جس چیز نے الٹ کر پورے تمدن کے لیے برائیوں اور مضرتوں سے بدل دیا ہے وہ سود ہے اور اس کے ساتھ دوسری بنائے فاسد یہ بھی شامل ہوگئی ہے کہ سود کی کشش سے جو سرمایہ کھچ کھچ کر بینکوں میں مرتکز ہوتا ہے وہ عملاً چند خود غرض سرمایہ داروں کی دولت بن کر رہ جاتا ہے جسے وہ نہایت دشمنِ اجتماع طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ان دو خرابیوں کو اگر دور کر دیا جائے تو بینکنگ ایک پاکیزہ کام بھی ہو جائے گا ، تمدن کے لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ نافع بھی ہوگا اور عجب نہیں کہ خود ساہوکاروں کے لیے بھی سود خواری کی بہ نسبت یہ دوسرا پاکیزہ طریق کار مالی حیثیت سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انسداد سود کے بعد بینکوں میں سرمایہ اکٹھا ہونا ہی بند ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہوگی تو لوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے۔ حالانکہ اس وقت سود کی نہ سہی، نفع ملنے کی توقع ضرور ہوگی اور چونکہ نفع کا امکان غیر متعین اور غیر محدود ہوگا اس لیے عام شرح سود کی بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہوگا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ بینک وہ تمام خدمات بدستور انجام دیتے رہیں گے جن کی خاطر اب لوگ بینکوں کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں لہٰذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد سود کے بعد بھی آتا رہے گا، بلکہ اس وقت چونکہ ہر طرح کے کاروبار کو زیادہ فروغ حاصل ہوگا، روزگار بڑھ جائے گا اور آمدنیاں بھی بڑھ جائیں گی، اس لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر فاضل آمدنیاں بینکوں میں جمع ہوں گی۔
اس جمع شدہ سرمائے کا جس قدر حصہ چالو کھاتے یا عندالطلب کھاتے میں ہوگا، اس کو بینک کسی نفع بخش کام میں نہ لگا سکیں گے، جس طرح اب بھی نہیں لگا سکتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ تردد بڑے کاموں میں استعمال ہوگا۔ ایک روز مرّہ کا لین دین، دوسرے کاروباری لوگوں کو قلیل المدت قرضے بلاسود دینا اور ہنڈیاں بلا سود بھنانا۔
رہا سرمایہ جو لمبی مدت کے لیے بینکوں میں رکھا جائے گا تو وہ لازماً دو ہی قسم کا ہوگا ایک وہ جس کے مالک صرف اپنے مال کی حفاظت چاہتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے مال کو بینک قرض کے طور پر لے کر خود کاروبار میں استعمال کر سکیں گے ۔جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ دوسرا وہ جس کے مالک اپنے مال کو بینکوں کے توسط سے کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں۔ ان کے مال کو امانت میں رکھنے کے بجائے ہر بینک کو ان کے ساتھ ایک شراکت نامہ عام طے کرنا ہوگا۔ پھر بینک سرمائے کو اپنے دوسرے سرمایوں سمیت مضاربت کے اصول پر تجارتی کاروبار میں صنعتی سکیموں میں، زراعتی کاموں میں، اور پبلک اداروں اور حکومتوں کے نفع آور کاموں میں لگا سکیں گے اور اس سے بحیثیت مجموعی دو عظیم الشان فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ساہوکار کا مفاد کاروبار کے مفاد کے ساتھ متحد ہو جائے گا۔ اس لیے کاروبار کی ضرورت کے مطابق سرمایہ اس کی پشتیبانی کرتا رہے گا اور وہ اسباب قریب قریب ختم ہو جائیں گے جن کی بنا پر موجودہ سود خور دنیا میں کساد بازاری کے دورے پڑا کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ساہو کار کی مالیاتی بصیرت اور کاروباری لوگوں کی تجارتی و صنعتی بصیرت جو آج باہم نبرد آزمائی کرتی رہتی، اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ دستیاری اور تعاون کریں گی اور یہ سب ہی کے لیے مفید ہوگا۔ پھر جو منافع ان ذرائع سے بینکوں کو حاصل ہوں گے ان کو وہ اپنے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد، ایک مقرر تناسب کے مطابق اپنے حصّے داروں اور کھاتے داروں میں تقسیم کر دیں گے۔
اس معاملے میں فرق صرف یہ ہوگا کہ بحالت موجودہ منافع (dividends) حصّے داروں میں تقسیم ہوتے ہیں اور کھاتے داروں کو سود دے دیا جاتا ہے۔ اس وقت دونوں میں منافع ہی تقسیم ہوں گے۔ اب کھاتے داروں کو ایک متعین شرح کے مطابق سود ملا کرتا ہے۔ اس وقت شرح کا تعین نہ ہوگا بلکہ جتنے بھی منافع ہوں گے خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ سب ایک تناسب کے ساتھ تقسیم ہو جائیں گے۔ نقصان اور دیوالیے کا جتنا خطرہ اب ہے اتنا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اب خطرہ اور اس کے بالمقابل غیر محدود نفع کا امکان دونوں صرف بینک کے حصّے داروں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں کھاتے داروں اور حصّے داروں میں مشترک ہو جائیں گی۔
رہ گیا بینکنگ کا یہ نقصان کہ نفع کی کشش سے جو سرمایہ ان کے پاس اکٹھا ہوتا ہے اس کی مجتمع طاقت پر عملاً صرف چند ساہو کار قابض و متصرف ہوتے ہیں، تو اس کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا کہ مرکزی ساہوکاری (central banking) کا سارا کام بیت المال یا اسٹیٹ بینک خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور قوانین کے ذریعے سے تمام پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا اقتدار اور دخل و ضبط اس حد تک قائم کر دیا جائے کہ ساہوکار اپنی مالیاتی طاقت کا بے جا استعمال نہ کر سکیں۔
غیر سودی مالیات کا یہ مجمل نقشہ جو ہم نے پیش کیا ہے کیا اسے دیکھنے کے بعد بھی اس شبہے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ سود کا انسداد قابل عمل نہیں ہے؟
٭…٭…٭

شیئر کریں