Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ ترتیب جدید
تمہید
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
حرمت سود
ایجابی پہلو
جدید بینکنگ
سُود کے متعلق اسلامی احکام
سود کے متعلقات
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
اصلاح کی عملی صورت
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
قولِ فیصل
مصادر ومراجع (Bibliography)

سود

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تمہید

عام طور پر سود کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کو سمجھنے میں جو غلطی واقع ہو رہی ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں وہ معاشی نظام جس کو اسلام نے قائم کیا تھا درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس کے اُصول و نظریات بھی دلوں سے محو ہوگئے ہیں، اور ہمارے گردوپیش کی دنیا پر ایک ایسا نظام پوری طرح حاوی ہوگیا ہے جس کی بنیاد ’’سرمایہ داری‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نہ صرف عملاً ہم پر محیط ہے بلکہ ہمارے دل و دماغ پر بھی اس کے اصول و نظریات چھا گئے ہیں۔ اس لیے جب کسی معاشی مسئلے پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر وہی ہوتا ہے جو سرمایہ داری کا نقطۂ نظر ہے ہماری بحث و تحقیق کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہم پہلے معاشیات کے سرمایہ دارانہ نظریات اور اصولوں کو مان لیتے ہیں اور اس کے بعد کسی معاشی طریقے کے جواز و عدم جواز پر گفتگو کرتے ہیں‘ لیکن اگر تھوڑی سی سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ تحقیق کا یہ طریقہ اصلاً غلط ہے۔ اسلام کا نظام معیشت اپنے نظریہ اور اپنے اصول میں سرمایہ داری کے نظام معیشت سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں دونوں کی روح جدا جدا ہے۔ دونوں کے مناہج علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اب اگر کسی مسئلے کے متعلق سرمایہ داری کے اصول و نظریات کو تسلیم کرکے اسلام کے معاشی احکام میں سے کسی حکم پر نظر ڈالی جائے گی تو لا محالہ یا تو وہ بالکل ہی غلط نظر آئے گا یا اس میں ایسی ترمیم کر دی جائے گی جس سے وہ اسلامی قانون کے اصول سے ہٹ کر بالکل سرمایہ داری کے قالب میں ڈھل جائے گا اور اس میں نہ اسلامی روح باقی رہے گی نہ اسلامی قانون کے اغراض و مقاصد اس سے حاصل ہو سکیں گے، اور نہ وہ اپنے جوہر میں حقیقتاً ایک اسلامی حکم ہوگا۔
یہی بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے سود کے معاملے میں ہمارے جدید معاشی مفکرین اسلامی احکام کو سمجھنے اور ان کے اغراض و مصالح کا ادراک کرنے میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ اسلام کا معاشی نظام کن اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں، اس کی روح کیا ہے، سود کو اس نے کیوں حرام قرار دیا ہے، سودی لین دین کی مختلف اَشکال میں علتِ حُرمت کیا شے ہے اور جن معاملات میں یہ علت پائی جاتی ہے ان کو اسلامی نظام معیشت میں کھپا دینے سے کیا قباحت واقع ہوتی ہے۔ ان تمام اساسی امور سے بیگانہ ہو کر جب وہ کلیتاً سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود کے متعلق اسلامی قانون پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کو درحقیقت سود کی حرمت کے لیے کوئی دلیل ہی ہاتھ نہیں آتی کیونکہ سود تو سرمایہ داری کی جان اور اس کی روحِ رواں ہے۔ اس کے بغیر سرمایہ داری کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور کسی ایسے نظامِ معاشی کا سود سے خالی ہونا غیر ممکن ہے جس کی عمارت سرمایہ داری کے اصولوں پر قائم ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ علمی اور عملی حیثیت سے یہ حضرات اسلام سے منحرف ہو چکنے کے باوجود اِعتقادی حیثیت سے بدستور اس کے پیرو ہیں اور قصداً اس کے دائرے سے نکلنا نہیں چاہتے، اس لیے عقیدے کی بندش تو ان کو مجبور کرتی ہے کہ سود کی حرمت سے انکار نہ کریں مگر اُن کا علم اور عمل اُن کو مجبور کرتا ہے کہ سود کے متعلق اسلامی احکام کی بندشوں کو توڑ دیں۔
دل و دماغ کی یہ کش مکش ایک مدت سے جاری ہے اور اب اس میں مصالحت کی آسان صورت یہ نکالی گئی ہے کہ اسلامی احکام کی تعبیر اس طرح کی جائے کہ سود ایک اسم بے مسمیٰ ہونے کی حیثیت سے تو بدستور حرام کا حرام رہے، مگر نظام سرمایہ داری میں اس کے جتنے مسمیٰ پائے جاتے ہیں وہ قریب قریب سب حلال ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کے خلاف ان کو سرمایہ داری کے اصولوں سے کوئی دلیل ہاتھ آتی ہے وہ مہاجنی سود (usuary) ہے لیکن اس کو بھی کلیتاً مسدود کر دینے کی کوئی وجہ وہ نہیں پاتے۔ ان کے نزدیک ضرورت صرف اس کی تحدید کی ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سود کی فی صدی شرح ناقابل ادا نہ ہو اور کسی حال میں سود در سود (اَضعافاً مضاعفۃً) تک نوبت نہ پہنچے۔
یہ ایک دھوکا ہے جس میں یہ حضرات بغیر سمجھے بوجھے مبتلا ہوگئے ہیں۔ بیک وقت دو مخالف سمتوں میں سفر کرنے والی کشتیوں میں سوار ہونا کسی مردِ عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ اگر بے خبری کی وجہ سے اس نے ایسا کیا بھی ہو تو ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جونہی اس کو اپنی غلطی پر تنبہّ ہو، وہ اپنے لیے دونوں کشتیوں میں سے ایک کو پسند کرکے دوسری کشتی سے فوراً پاؤں کھینچ لے۔ سود کے حلال و حرام ہونے کی بحث اور اس کے حدود کی تعیین تو بعد کی چیز ہے۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ اسلامی نظام معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے اُصولی اور روحی فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں اور قرآن و حدیث کے احکام پر غور کرکے اُن اُصول و قواعد سے باخبر ہو جائیں جن پر اسلام نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک متوسط نظام معیشت قائم کیا ہے۔
اس تحقیق سے آپ پر خودبخود منکشف ہو جائے گا کہ اسلام جس ڈھنگ پر انسان کے معاشی معاملات کی تنظیم کرتا ہے اس میں صرف یہی نہیں کہ سود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ وہ سرے سے اس نظریے اور اس ذہنیت اور ان معاشی حالات ہی کا استیصال کر دیتا ہے جن کی وجہ سے سودی معاملات کی مختلف صورتیں وجود میں آتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کے لیے ناگزیر ہوگا کہ دو راہوں میں سے ایک راہ کا انتخاب کر لیں۔
ایک راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اُصولِ معیشت کو ردّ کرکے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اصولوں پر ایمان لے آئیں۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے اصول اور احکام میں ترمیم کرنے کی زحمت ہی نہ اٹھانی پڑے گی بلکہ آپ کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہ ہوگا کہ اس کے اتباع سے انکار کر دیں۔ دوسری راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معاشی کو صحیح سمجھیں اور سود کو اس کی تمام صورتوں کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرت حرام جانیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں گِھر جانے کے باعث اپنے آپ کو اس حرام چیز سے محفوظ رکھنے میں قاصر پائیں اس صورت میں آپ سود کھانا اور کھلانا چاہیں تو کھایئے اور کھلایئے۔ کیونکہ ہر گناہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ جرأت آپ کبھی نہیں کر سکتے کہ سود کو حلال کرکے کھائیں یا کھلائیں اور اپنے ضمیر پر سے اَکلِ حرام کے بار کو ہلکا کرنے کے لیے اس چیز کو پاک کرنے کی کوشش کریں جس کو خدا اور اس کے رسولؐ نے ناپاک قرار دیا ہے۔ ایک شخص حق رکھتا ہے کہ علانیہ اسلام کے قانون کو رد کرکے کسی دوسرے قانون کی پیروی اختیار کر لے۔ اور بدرجہ آخر یہ حق بھی اس کو حاصل ہے کہ اسلامی قانون کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ماتحت ایک گناہ گار بندہ بن کر رہنا پسند کرے یا نامساعد حالات میں مجبوراً ایسا بن جائے لیکن کسی حال میں یہ حق تو کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ اسلامی قانون کو جس غیر اسلامی قانون سے چاہے بدل دے اور پھر دعویٰ کرے کہ بدلا ہوا قانون ہی دراصل اسلام کا قانون ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم اُن مباحث کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔
٭…٭…٭

شیئر کریں