Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

خلافتِ الٰہیہ

اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پوری عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ ۱؎ ہے کہ ملک خدا کا ہے اور وہی اس کا حاکم ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا طبقہ یا قوم کو بلکہ پوری انسانیت کو بھی حاکمیت (sovereignty) کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکم دینے اور قانون بنانے کا حق صرف خدا کے لیے خاص ہے۔ حکومت کی صحیح شکل اس کے سوا کوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے اور یہ حیثیت صحیح طور پر صرف دو صورتوں سے قائم ہوسکتی ہے۔ یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے قانون اور دستورِ حکومت آیا ہو، یا وہ اس شخص کی پیروی اختیار کرے جس کے پاس خدا کی طرف سے قانون اور دستور آیا ہے۔ اس خلافت کے کام میں تمام وہ لوگ شریک ہوں گے جو اس قانون پر ایمان لائیں اور اس کی پیروی کرنے پر تیار ہوں۔ یہ کام اس احساس کے ساتھ چلایا جائے گا کہ ہم بحیثیت مجموعی اور ہم میں سے ہر ایک فردًافردًاخدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو ظاہر اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والا ہے، جس کے علم سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی، اور جس کی گرفت سے مرکر بھی ہم نہیں چھوٹ سکتے۔ خلافت کی ذمہ داری جو ہمارے سپرد کی گئی ہے، یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپنا حکم چلائیں، انھیں اپنا غلام بنائیں، ان کے سر اپنے آگے جھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش اور اپنی نفس پرستی اور اپنی کبریائی کا سامان کریں، بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالا گیا ہے کہ ہم خدا کے قانونِ عدل کو اس کے بندوں پر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اور اس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذرا سی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرہ برابر بھی خود غرضی‘ نفس پرستی تعصُّب، جانبِ داری یا بددیانتی کو دخل دیا تو ہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے‘ خواہ دنیا میں ہر سزا سے محفوظ رہ جائیں۔
اس نظریہ کی بنیادپر جو عمارت اٹھتی ہے وہ اپنی جڑ سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی شاخوں تک ہر چیز میں دنیوی حکومتوں (secular states)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی ترکیب اس کا مزاج، اس کی فطرت، کوئی چیز بھی ان سے نہیں ملتی اس کو بنانے اور چلانے کے لیے ایک خاص قسم کی ذہنیت، خاص طرز کی سیرت اور خاص نوعیت کے کردار کی ضرورت ہے۔ اس کی فوج، اس کی پولیس، اس کی عدالت اس کے مالیات، اس کے محاصل، اس کی انتظامی پالیسی، اس کی خارجی سیاست، اس کی صلح و جنگ کے معاملات، سب کے سب دنیوی ریاستوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی عدالتوں کے جج بلکہ چیف جسٹس، اس کی عدالت کے کلرک بلکہ چپراسی تک بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ان کی پولیس کے انسپکٹر جنرل وہاں کانسٹیبل کی جگہ کے لیے بھی موزوں نہیں ٹھہرتے۔ ان کے جنرل اور فیلڈ مارشل وہاں سپاہیوں میں بھرتی کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ان کے وزرائے خارجہ وہاں کسی منصب پر تو کیا مقرر ہوں گے، شاید اپنے جھوٹ، دغا اور بددیانتیوں کی بدولت جیل جانے سے بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ غرض وہ تمام لوگ جو ان حکومتوں کے کاروبار چلانے کے لیے تیار کیے گئے ہوں، جن کی اخلاقی و ذہنی تربیت ان کے مزاج کے مناسب حال کی گئی ہو، اسلامی حکومت کے لیے قطعی ناکارہ ہیں۔ اسے اپنے شہری، اپنے ووٹر، اپنے کونسلر، اپنے اہل کار، اپنے جج اور مجسٹریٹ، اپنے محکموں سے ڈائریکٹر اپنی فوجوں کے قائد، اپنے خارجی سفرا، اپنے وزیر، غرض اپنی اجتماعی زندگی کے تمام اجزا اپنی انتظامی مشین کے تمام پرزے بالکل ایک نئی ساخت کے درکار ہیں۔ اسے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، جو خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوں، جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں، جن کی نگاہ میں اخلاقی نفع نقصان کا وزن دنیوی نفع نقصان سے زیادہ ہو، جوہر حال میں اس ضابطہ اور اس طرزِ عمل کے پابند ہوں جو ان کے لیے مستقل طور پر بنا دیا گیا ہے، جن کی تمام سعی و جہد کا ہدف مقصود خدا کی رضا ہو، جن پر شخصی یا قومی اغراض کی بندگی اور ہوائو ہوس کی غلامی مسلط نہ ہو، جو تنگ نظری و تعصب سے پاک ہوں، جو مال اور حکومت کے نشے میں بدمست ہو جانے والے نہ ہوں، جو دولت کے حریص اور اقتدار کے بھوکے نہ ہوں۔ جن کی سیرتوں میں یہ طاقت ہو کہ جب زمین کے خزانے ان کے دستِ قدرت میں آئیں تو وہ پکے امانت دار ہوں۔ جب بستیوں کی حکومت ان کے ہاتھ میں آئے تو وہ راتوں کی نیند سے محروم ہو جائیں اور لوگ ان کی حفاظت میں اپنی جان، مال، آبرو، ہر چیز کی طرف سے بے خوف رہیں۔ جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی ملک میں داخل ہوں تو لوگوں کو ان سے قتل و غارت گری، ظلم و ستم اور بدکاری و شہوت رانی کا کوئی اندیشہ نہ ہو بلکہ ان کے ہر سپاہی کو مفتوح ملک کے باشندے اپنے جان و مال اور اپنی عورتوں کی عصمت کا محافظ پائیں، جن کی دھاک بین الاقوامی سیاست میں اس درجہ کی ہو کہ ان کی راستی، انصاف پسندی، اصول و اخلاق کی پابندی اور عہد و پیمان پر تمام دنیا میں اعتماد کیا جائے۔ اس قسم کے اور صرف اسی قسم کے لوگوں سے اسلامی حکومت بن سکتی ہے اور یہی لوگ اسے چلا سکتے ہیں۔ رہے مادہ پرست افادی ذہنیت (utilitarian mentality) رکھنے والے لوگ جو دنیوی فائدوں اور شخصی یا قومی مصلحتوں کی خاطر ہمیشہ ایک نیا اصول بناتے ہوں، جن کے پیش نظر نہ خدا ہو نہ آخرت، بلکہ جن کی ساری کوششوں کا مرکز و محور اور ساری پالیسیوں کا مدار صرف دنیوی فائدہ و نقصان ہی کا خیال ہو، وہ ایسی حکومت بنانے یا چلانے کے قابل تو کیا ہوں گے، ان کا اس حکومت کے دائرے میں موجود ہونا ہی ایک عمارت میں دیمک کی موجودگی کا حکم رکھتا ہے۔

شیئر کریں