اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے: اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ اور اَلْمُشْقَۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْر( ’’ضرورتوں کی بنا پر بعض ناجائز چیزیں جائز ہو جاتی ہیں‘‘ اور ’’جہاں شریعت کے کسی حکم پر عمل کرنے میں مشقت ہو وہاں آسانی پیدا کر دی جاتی ہے۔‘‘
) ’’قرآن مجید اور احادیث نبویؐ میں بھی متعدد مواقع پر شریعت کے اس قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً:
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط البقرہ 286:2
اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ڈالتا۔
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ البقرہ 185:2
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا۔
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۰ۭ الحج 78:22
اس نے تم پر دین میں سختی نہیں کی ہے۔
اور حدیث میں ہے:
اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا سادھا اور نرم ہو۔
وَلَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ۔
اسلام میں ضرر اور ضرار نہیں ہے۔
پس یہ قاعدہ اسلام میں مسلّم ہے کہ جہاں مشقت اور ضرر ہو وہاں احکام میں نرمی کر دی جائے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہر خیالی اور وہمی ضرورت پر شریعت کے احکام اور خدا کی مقرر کردہ حدود کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس کے لیے بھی چند اصول اور ضوابط ہیں جو شریعت کی تخفیفات پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں:
اولاً یہ دیکھنا چاہیے کہ مشقت کس درجہ کی ہے۔ مطلقاً ہر مشقت پر تو تکلیفِ شرعی رفع نہیں کی جاسکتی، ورنہ سرے سے کوئی قانون ہی باقی نہ رہے گا۔ جاڑے میں وضو کی تکلیف، گرمی میں روزے کی تکلیف، سفرِ حج اور جہاد کی تکالیف، یقیناً یہ سب مشقت کی تعریف میں آتی ہیں، مگر یہ ایسی مشقتیں نہیں ہیں جن کی وجہ سے تکلیفات ہی کو سرے سے ساقط کر دیا جائے۔ تخفیف یا اسقاط کے لیے مشقت ایسی ہونی چاہیے جو موجبِ ضرر ہو۔ مثلاً سفر کی مشکلات، مرض کی حالت، کسی ظالم کا جبر و اکراہ،تنگ دستی، کوئی غیر معمولی مصیبت، فتنہ عام یا کوئی جسمانی نقص۔ ایسے مخصوص حالات میں شریعت نے بہت سے احکام میں تخفیفات کی ہیں اور ان پر دوسری تخفیفات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔
ثانیاً تخفیف اسی درجہ کی ہونی چاہیے جس درجہ کی مشقت اور مجبوری ہے، مثلاً جو شخص بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لیے لیٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔ جس بیماری کے لیے رمضان میں دس روزوں کا قضا کرنا کافی ہے اس کے لیے پوری رمضان کا افطار ناجائز ہے۔ جس شخص کی جان شراب کا ایک چلو پی کر یا حرام چیز کے ایک دو لقمے کھا کر بچ سکتی ہے، وہ اس حقیقی ضرورت سے بڑھ کر پینے یا کھانے کا مجاز نہیں ہے۔ اسی طرح طبیب کے لیے جسم کے پوشیدہ حصوں میں سے جتنا دیکھنے کی واقعی ضرورت ہے اس سے زیادہ دیکھنے کا اس کو حق نہیں۔ اس قاعدہ کے لحاظ سے تمام تخفیفات کی مقدار، مشقت اور ضرورت کی مقدار پر مقرر کی جائے گی۔
ثالثا ً کسی ضرر کو دفع کرنے کے لیے کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں کی جاسکتی جس میں اتنا ہی یا اس سے زیادہ ضرر ہو۔ بلکہ صرف ایسی تدابیر کی اجازت دی جاسکتی ہے جس کا ضرر نسبتاً خفیف ہو۔ اسی کے قریب قریب یہ قاعدہ بھی ہے کہ کسی خرابی سے بچنے کے لیے اس سے بڑی یا اس کے برابر کی خرابی میں مبتلا ہو جانا جائز نہیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ جب انسان دو برائیوں میں گھر جائے اور کسی ایک میںمبتلا ہونا بالکل ناگزیر ہو تو بڑی برائی کو دفع کرنے کے لیے چھوٹی برائی کو اختیار کرلے۔
رابعاً جلب مصالح پر دفعِ مفاسد مقدم ہے۔ شریعت کی نگاہ میں بھلائیوں کے حصول اور مامورات و واجبات کے ادا کرنے کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور حرام سے بچنا، اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ مشقت کے مواقع پر مامورات میں جس فیاضی کے ساتھ تخفیف کرتی ہے، اتنی فیاضی ممنوعات کی اجازت دینے میں نہیں برتتی۔ سفر اور مرض کی حالتوںمیں نماز، روزے اور دوسرے واجبات کے معاملے میں جتنی تخفیفیں کی گئی ہیں اتنی تخفیفیں ناپاک اور حرام چیزوں کے استعمال میں نہیں کی گئیں۔
خامساً ، مشقت یا ضرر کے زائل ہوتے ہی تخفیف بھی ساقط ہوجاتی ہے، مثلاً بیماری رفع ہو جانے کے بعد تیمم کی اجازت باقی نہیں رہتی۔