پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تا کہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام وضع کرنے میں انہی اصولوں کی پیروی اور اسی طرز کی تقلید کی جاسکے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسان مجموعی طور پر شریعت کی ساخت اور پھر فرداً فرداً اس کے احکام کی خصوصیات پر غور نہ کرے۔ شارع نے کس طرح احکام میں عدل اور توازن قائم کیا ہے؟ کس کس طرح اس نے انسانی فطرت کی رعایت کی ہے؟ دفع مفاسد اور جلب مصالح کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے ہیں؟ کس ڈھنگ پر وہ انسانی معاملات کی تنظیم اور ان میں انضباط پیدا کرتا ہے؟ کس طریقے سے وہ انسان کو اپنے بلند مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ اس کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کے راستے میں مناسب سہولتیں بھی پیدا کرتا ہے؟ یہ سب امور تفکر و تدبر کے محتاج ہیں اور ان کے لیے نصوص قرآنی کی لفظی و معنوی دلالتوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اس علم او رتفقہ سے بہرہ ور ہو وہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام میں جزوی تغیر و تبدل بھی کرسکتا ہے اور جن معاملات کے حق میں نصوص موجود نہیں ہیں ان کے لیے نئے احکام بھی وضع کرسکتا ہے۔ کیوں کہ ایسا شخص اجتہاد میں جو طریقہ اختیار کرے گا وہ اسلام کے اصول تشریع سے منحرف نہ ہوگا۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے۔ مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہؓ نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں، ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر بھی وسیع کر دیا۔ اسی طرح خلفاء راشدین کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر قوموں کے ساتھ بکثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب و سنت میں صریح احکام موجود نہ تھے۔ صحابہ کرامؓ نے ان کے لیے خود ہی قوانین مدوّن کیے اور وہ اسلامی اسپرٹ اور اس کے اصول سے پوری مطابقت رکھتے تھے۔