مزاجِ شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غور و فکر کر کے یہ معلوم کیا جائے کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے ، شارع کس نقشہ پر اس شعبے کی تنظیم کرنا چاہتا ہے، اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبۂ خاص کا کیا مقام ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبہ میں شارع نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس چیز کو سمجھے بغیر جو قانون بنایا جائے گا، یا پچھلے قانون میں جو حذف و اضافہ کیا جائے گا، وہ مقصودِ شارع کے مطابق نہ ہوگا اور اس سے قانون کا رخ اپنے مرکز سے منحرف ہو جائے گا قانونِ اسلامی میں ظواہر احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی مقاصدِ احکام کی ہے ۔ فقیہ کا اصل کام یہی ہے کہ شارع کے مقصود اور اس کی حکمت و مصلحت پر نظر رکھے۔ بعض خاص مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اگر ظواہرِ احکام پر (جو عام حالات کو مدنظر رکھ کر دیئے گئے تھے) عمل کیا جائے تو اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں ظاہر کو چھوڑ کر اس طریق پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے شارع کا مقصد پورا ہوتا ہو۔ قرآن مجید میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جیسی کچھ تاکید کی گئی ہے، معلوم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود آپؐ نے ظالم و جابر امراء کے مقابلے میں خروج (مسلح بغاوت) سے منع فرما دیا کیوں کہ شارع کا اصل مقصد تو فساد کو صلاح سے بدلنا ہے۔ جب کسی فعل سے اور زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور صلاح کی امید نہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتنۂ تاتار کے زمانے میں ایک گروہ پر ان کا گزر ہوا جو شراب و کباب میں مشغول تھا۔ علامہ کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو شراب سے منع کرنا چاہا مگر علامہ نے ان کو روک دیا اور فرمایا کہ اللہ نے شراب کو فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے حرام کیا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ شراب ان ظالموں کو ایک بڑے فتنے یعنی لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکے ہوئے ہے ۔ لہٰذا ایسی حالت میں ان کو شراب سے روکنا مقصود شارع کے خلاف ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حوادث کی خصوصیات کے لحاظ سے احکام میں تغیر کیا جاسکتا ہے، مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جس سے شارع کا اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ الٹا فوت ہو جائے۔
اسی طرح بعض احکام ایسے ہیں جو خاص حالات کی رعایت سے خاص الفاظ میں دیئے گئے تھے ۔ اب فقیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ تغیر احوال کے باوجود انہی الفاظ کی پابندی کرے بلکہ اس کو ان الفاظ سے شارع کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب احکام وضع کرنے چاہییں۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کشمش دینے کا حکم فرمایا تھا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس وقت مدینہ میں جو صاع رائج تھا اور یہ اجناس جن کا حضورؐ نے ذکر فرمایا یہی بعینہٖ منصوص ہیں۔ شارع کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عید کے روز ہر مستطیع شخص اتنا صدقہ د ے کہ اس کا ایک غیر مستطیع بھائی اس صدقے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کم از کم عید کا زمانہ خوشی کے ساتھ گزار سکے۔ اس مقصد کو کسی دوسری صورت سے بھی پورا کیا جاسکتا ہے جو شارع کی تجویز کردہ صورت سے اقرب ہو۔