فروعی قوانین مدوّن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاجِ شریعت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ بات صرف قرآن مجید کی تعلیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں تدبر کرنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔( یہاں اشارۃً یہ کہہ دینا بے جا نہ ہو گا کہ اِس زمانے میں اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری دینی تعلیم سے قرآن اور سیرت محمدیؐ کا مطالعہ خارج ہو گیا ہے اور اس کی جگہ محض فقہ کے کسی ایک سسٹم کی تعلیم نے لے لی ہے، اور یہ تعلیم بھی اِس طرح دی جاتی ہے کہ ابتداء ہی سے خدا اور رسولؐ کے منصوص احکام اور ائمہ کے اجتہادات کے درمیان حقیقی فرق و امتیاز طالب علم کے پیش نظر نہیں رہتا۔ حالانکہ کوئی شخص جب تک حکیمانہ طریق پر قرآن میں بصیرت حاصل نہ کرےاور رسول اللہﷺ کے طرزِ عمل کا بغور مطالعہ نہ کرے، اسلام کے مزاج اور اسلامی قانون کے اصول کو نہیں سمجھ سکتا۔ اجتہاد کے لیے یہ چیز ضروری ہے اور تمام عمر فقہ کی کتابیں پڑھتے رہنے سے بھی یہ حاصل نہیں ہو سکتی۔(حاشیہ از مصنف)
) ان دونوں چیزوں پر جس شخص کی نظر وسیع اور عمیق ہوگی وہ شریعت کا مزاج شناس ہو جائے گا، اور ہر موقع پر اس کی بصیرت اس کو بتا دے گی کہ مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ اس شریعت کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے سے اس کے مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے گی۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جو تغیر و تبدل کیا جائے گا وہ نہ صرف مناسب اور معتدل ہوگا، بلکہ اپنے محلِّ خاص میں شارع کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ اتنا ہی بجا ہو گا جتنا خود شارع کا حکم ہوتا۔ اس کی مثال میں بہت سے واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں، مثلاً حضرت عمرؓ کا یہ حکم کہ دورانِ جنگ میں کسی مسلمان پر حد نہ جاری کی جائے، اور جنگِ قادسیہ میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا ابو محجن ثقفی کو شُربِ خمر پر معاف کر دینا، اور حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ کہ قحط کے زمانے میں کسی سارق کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ یہ امور اگرچہ بظاہر شارح کے صریح احکام کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، لیکن جو شخص شریعت کا مزاج دان ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے خاص حالات میں حکمِ عام کے امتثال کو چھوڑ دینا مقصود شارع کے عین مطابق ہے۔ اسی قبیل سے وہ واقعہ ہے جو حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کے غلاموں کے ساتھ پیش آیا۔ قبیلۂ مزینہ کے ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حاطبؓ کے غلاموں نے اس کا اونٹ چرالیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پہلے تو ان کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا۔ پھر فوراً ہی آپ کو تنبہ ہو اور آپ نے فرمایا کہ تم نے ان غریبوں سے کام لیا مگر ان کو بھوکا مار دیا اور اس حال کو پہنچایا کہ اگر ان میںسے کوئی شخص حرام چیز بھی کھالے تو اس کے لیے جائز ہو جائے۔ یہ کہہ کر آپ نے ان غلاموں کو معاف کر دیا اور ان کے مالک سے اونٹ والے کو تاوان دلوایا۔ اسی طرح تطلیقات ثلاثہ کے مسئلے میں حضرت عمرؓ نے جو حکم صادر فرمایاوہ بھی عہدِ رسالت کے عملدرآمد سے مختلف تھا۔ مگر چونکہ احکام میں یہ تمام تغیرات شریعت کے مزاج کو سمجھ کر کیے گئے تھے اس لیے ان کو کوئی نامناسب نہیں کہہ سکتا ۔ بخلاف اس کے جو تغیر اس فہم اور بصیرت کے بغیر کیا جاتا ہے وہ مزاجِ شرع میں بے اعتدالی پیدا کر دیتا ہے اور باعثِ فساد ہو جاتا ہے۔