پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصولِ شرع کے تحت تغیر کیا جاسکے، اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں ان کو پورا کرنے کے لیے قوانین مرتب کیے جاسکیں۔ اس معاملے میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مجتہدین کو اپنے زمانی اور مکانی حالات کے لحاظ سے استنباطِ احکام اور تفریعِ مسائل کے پورے اختیارات حاصل ہیں اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ کسی خاص دور کے اہل علم کوتمام زمانوں اور تمام قوموں کے لیے وضعِ قانون کا چارٹر دے کر دوسروں کے اختیارات کو سلب کرلیا گیا ہو، لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ ہر شخص کو اپنے منشاء اور اپنے تخیلات اور خواہشات کے مطابق احکام کو بدل ڈالنے اور اصول کو توڑ موڑ کر ان کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے ، اور قوانین کو شارع کے اصل مقصد سے پھیردینے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے اور وہ چند شرائط پر مشتمل ہے: