ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کاا تباع کیا جائے اور ان کی خواہشات کے مطابق احکام کی تدوین کی جائے تو یہ دراصل اسلامی شریعت کے احکام کی تدوین نہ ہوگی بلکہ ان کی تحریف ہوگی ، اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم درحقیقت اپنی معاشی زندگی میں اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ طریقہ جس کی طرف یہ حضرات ہماری رہنمائی کر رہے ہیں، اپنے مقاصد اور نظریات اور اصول و مبادی میں اسلامی طریقے سے کلی منافات رکھتا ہے۔ان( یہاں جس گروہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ گروہ ہے جو جدید سرمایہ دارانہ نظام کے طریقوں کو حلال اور اسلام کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اشتراکیت زدہ لوگوں کی پوزیشن اس کے برعکس ہے جن کے مسلک کی غلطی اس کتاب کے مختلف مقامات پر مصنف نے بیان کر دی ہے۔ (مرتب) کا مقصود محض کسبِ مال ہے اور اسلام کا مقصد اکلِ حلال۔ان کا منتہائے آمال یہ ہے کہ انسان لکھ پتی اور کروڑ پتی بنے، عام اس سے کہ جائز ذرائع سے بنے یا ناجائز ذرائع سے۔ مگر اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان جو کچھ کمائے جائز طریقے سے اور دوسروں کی حق تلفی کیے بغیر کمائے، خواہ لکھ پتی بن سکے یا نہ بن سکے۔ یہ لوگ کامیاب اس کو سمجھتے ہیں جس نے دولت حاصل کی، زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل پر قابو پایا، اور ان کے ذریعے سے آسائش، عزت، طاقت اور نفوذ و اثر کا مالک ہوا، خواہ یہ کامیابی اس نے کتنی ہی خود غرضی، ظلم، شقاوت، جھوٹ، فریب اور بے حیائی سے حاصل کی ہو، اس کے لیے اپنے دوسرے ابنائے نوع کے حقوق پر کتنے ہی ڈاکے ڈالے ہوں، اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا میں شر و فساد، بداخلاقی اور فواحش پھیلانے اور نوعِ انسانی کو مادی، اخلاقی اور روحانی ہلاکت کی طرف دھکیلنے میں ذرہ برابر دریغ نہ کیا ہو۔ لیکن اسلام کی نگاہ میں کامیاب وہ ہے جس نے صداقت، امانت، نیک نیتی اور دوسروں کے حقوق و مفاد کی پوری نگہداشت کے ساتھ کسبِ معاش کی جدوجہد کی۔ اگر اس طرح کی جدوجہد میں کروڑ پتی بن گیا تو یہ اللہ کا انعام ہے۔ لیکن اگر اس کو تمام عمر صرف قُوْتِ لایموت ہی پر زندگی بسر کرنی پڑی ہو، اور اس کو پہننے کے لیے پیوند لگے کپڑوں اور رہنے کے ئے ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی سے زیادہ کچھ نصیب نہ ہوا ہو، تب بھی وہ ناکام نہیں ۔ نقطہ نظر کا یہ اختلاف ان لوگوں کو اسلام کے بالکل مخالف ایک دوسرے راستے کی طرف لے جاتا ہے جو خالص سرمایہ داری کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ان کو جن آسانیوں اور رخصتوں اور اباحتوں کی ضرورت ہے وہ اسلام میں کسی طرح نہیں مل سکتیں۔ اسلام کے اصول اور احکام کو کھینچ تان کر خواہ کتنا ہی پھیلا دیجیے، مگر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ اصول اور احکام وضع ہی نہیں کیے گئے ہیں اس کی تحصیل کے لیے ان سے کوئی ضابطہ اور دستور العمل اخذ کیا جاسکے۔ پس جو شخص اس راستے پر جانا چاہتا ہو اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا کو اور خود اپنے نفس کو دھوکہ دینا چھوڑ دے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ سرمایہ داری کے راستے پر چلنے کے لیے اس کو اسلام کے بجائے صرف مغربی یورپ اور امریکہ ہی کے معاشی اور مالی اصول و احکام کا اتباع کرنا پڑے گا۔
رہے وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں، قرآن اور طریق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں اسی کا اتباع کرنا ضروری سمجھتے ہیں، تو ان کو ایک جدید ضابطۂ احکام کی ضرورت دراصل اس لیے نہیں ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے ادارات سے فائدہ اٹھاسکیں، یا ان کے لیے قانونِ اسلامی میں ایسی سہولتیں پیدا کی جائیں جن سے وہ کروڑ پتی تاجر، ساہوکار اور کارخانہ دار بن سکیں، بلکہ ان کو ایسے ایک ضابطے کی ضرورت صرف اس لیے ہے کہ وہ جدید زمانے کے معاشی حالات اور مالی و تجارتی معاملات میں اپنے طرزِ عمل کو اسلام کے صحیح اصولوں پر ڈھال سکیں، اور اپنے لین دین میں ان طریقوں سے بچ سکیں جو خدا کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں، اور جہاں دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کرنے میں ان کو حقیقی مجبوریاں پیش آئیں وہاں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکیں جو اسلامی شریعت کے دائرے میں ایسے حالات کے لیے نکل سکتی ہیں۔ اس غرض کے لیے قانون کی تدوین جدید بلاشبہ ضروری ہے اور علماء اسلام کافرض ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی سعیِ بلیغ کریں۔