لیکن جب تک نظامِ زندگی میں یہ ہمہ پہلو اور یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ جس حد تک بھی انصاف قائم ہوسکے کیا جائے، محنت کش لوگوں کی تکالیف و شکایات کو رفع کرانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اس میں دریغ نہ کیا جائے اور کوئی گروہ محنت کشوں کی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر اسلام کے سوا کسی دوسرے نظام کے لیے انہیں اپنا آلۂ کار نہ بنا سکے۔
ان تین مقاصد میں سے آخری مقصد ذرا وضاحت طلب ہے۔ دنیا میں مختلف لوگوں کے نفسیات مختلف ہوتے ہیں ۔ مثلاً ایک شخص تکلیف سے کراہ رہا ہے۔ ایک ذہن اسے دیکھ کر یہ سوچتا ہے کہ یہ وقت ہے اس شخص کو لوٹ لینے کا، اس کی تکلیف اور بیماری سے فائدہ اٹھانے کا اور اس کی مصیبت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا۔ دوسرا شخص اس طرح سوچتا ہے کہ جب تک اس شخص کے مکمل علاج کا کوئی انتظام نہ ہوسکے اسے کسی نہ کسی طرح فرسٹ ایڈ بہم پہنچائی جائے، اور اس کی تکلیف میں جس حد تک ممکن ہو کمی کی جائے ۔ محنت کش طبقے کے معاملے میں اس وقت یہ دونوں طرح کے نفسیات اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ اس وقت سخت مشکلات میں گرفتار ہے اور جدید سرمایہ دارانہ نظام نے اسے بے شمار تکلیفوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک گروہ چاہتا ہے کہ اس کی مشکلات کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے۔ اس کا اصل مقصد ان مشکلات کو دور کرنا اور ان شکایات کو رفع کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کوشش یہ ہے کہ یہ اور بڑھیں، کوئی شکایت دور ہوسکتی بھی ہو تو اسے دور نہ ہونے دیا جائے، کوئی زخم بھر سکتا ہو تو اسے اور زیادہ کھرچ دیا جائے، تا کہ اس طبقے کی بے چینی بڑھے اور اسے توڑ پھوڑ کے لیے، نظم و نسق تباہ کرنے کے لیے، اور بالآخر ایک پُرتشدد انقلاب (violent revolution) کے ذریعے اشتراکی نظام برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ جس نظام کو یہ لوگ مزدور کی جنت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، درحقیقت وہ مزدور کی دوزخ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محنت کش طبقے کی حقیقی شامت اسی روز شروع ہوگی جس روز خدانخواستہ وہ نظا م برپا ہوگیا۔ بلاشبہ آج مزدور کی حالت ناگفتہ بہ ہے، لیکن ایک اشتراکی نظام میں اس کی جو حالت ہوگی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آج آپ مطالبات کرسکتے ہیں۔ مطالبات نہ مانے جائیں تو اسٹرائک کرسکتے ہیں۔ جلسے کرسکتے ہیں ۔ جلوس نکال سکتے ہیں۔ شور مچا سکتے ہیں۔ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ قسمت آزمائی کے لیے بھی جاسکتے ہیں۔ اشتراکی جنت میں ان سب چیزوں کا دروازہ بند ہوگا۔ کیوں کہ تمام کارخانے، تمام زمینیں، تمام پریس اور اخبارات، اور تمام وسائل زندگی اور ذرائع اظہار رائے اسی طاقت کے ہاتھ میں ہوں گے جس کے ہاتھ میں پولیس اور سی آئی ڈی اور فوج اور عدالت اور جیل ہوگی۔ وہاں مزدوروں کے لیے کسی تکلیف پر دم مارنے کی بھی گنجائش نہ ہوگی۔ جلسہ اور جلوس کیسا اور ہڑتال کا کیا ذکر؟
پھر اس کے لیے وہاں ایک در کے سوا کوئی دوسرا در بھی نہ ہوگا جس پر آدمی قسمت آزمائی کے لیے جاکھڑا ہو۔ سارے ملک میں ایک زمیندار ہوگا جس کی کاشت کاری خواستہ و ناخواستہ ہر کسان کو کرنی ہوگی۔ سارے ملک میں ایک کارخانہ دار ہوگا جس کے ہاں مزدوری کرنے کے سوا کسی مزدور کے لیے کوئی چارہ نہ ہوگا۔ خواہ آپ کی گزر اوقات ہوسکے یا نہ ہوسکے، وہی کچھ آپ کو قبول کرنا ہوگا جو وہ عنایت کر دے۔ اس نظام کو قائم کرنے کے لیے یہ گروہ محنت کش طبقے کو آلۂ کار بنانا چاہتا ہے اور اس غرض کے لیے یہ ان غریب لوگوں کے مسائل اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تا کہ ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوسکے، اور انہیں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ گروہ مزدوروں اور کسانوں کو دھوکا دینے کے لیے انہیں یہ امید دلاتا ہے کہ اشتراکی انقلاب تمام کارخانوں اور زمینوں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے چھین کر ان کی ملکیت بنا دے گا ، حالانکہ دراصل وہ انہیں چھین کر اشتراکی حکومت کی ملک بنائے گا اور سب اس حکومت کے مزدور و کاشت کار بن کر رہ جائیں گے۔ یہ گروہ دنیا بھر میں مزدوروں کے لیے ہڑتال کے حق کا مطالبہ کرتا ہے، مگر دنیا میں جہاں بھی اشتراکی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں سب سے پہلے مزدور سے ہڑتال کا حق چھین لیا گیا ہے۔ یہ گروہ مزدوروں سے کہتا ہے کہ سوشلسٹ نظام میں مزدوروں کو سرے سے کوئی شکایت ہی پیدا نہ ہوگی جس کے لیے وہ ہڑتال کریں۔ حالانکہ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ جہاں کروڑوں آدمی چند حکمرانوں کے ماتحت کام کر رہے ہوں وہاں کارکنوں کو کبھی کسی قسم کی شکایت پیدا نہ ہوسکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شکایت پیدا ہو تو کیا اشتراکی حکومت میں مزدور کوئی انجمن بنا سکتا ہے؟ کوئی آزاد پلیٹ فارم ایسا پاسکتا ہے جہاں وہ اپنی فریاد بلند کرسکے؟ کوئی آزاد پریس پاسکتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنی تکلیف کا اظہار کرسکے؟ بلکہ حرفِ شکایت زبان پر لانے کے بعد وہ جیل کی ہوا کھانے سے بھی بچ سکتا ہے؟
یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ مزدور اور کاشت کار کے ساتھ جو ظلم آج سرمایہ دار اور جاگیردار اور بڑے بڑے زمیندار و کارخانہ دار کر رہے ہیں اس سے شدید تر ظلم کی تیاری وہ سوشلسٹ لوگ کر رہے ہیں جو ان کو اشتراکی انقلاب کی آگ کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں۔