اس کلام کو ختم کرتے ہوئے میں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا نام ہے تو کیا یہ معاشی عدل جو اسلام قائم کرتا ہے، ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اس کے بعد کوئی ضرورت ایسی باقی رہ جاتی ہے جس کی خاطر تمام افراد کی آزادیاں سلب کرنا، لوگوں کے اموال ضبط کرنا، اور ایک پوری قوم کو چند آدمیوں کا غلام بنا دینا ہی ناگزیر ہو؟ آخر اس امر میں کیا چیز مانع ہے کہ ہم مسلمان اپنے ملکوں میں اسلامی دستور کے مطابق خالص شرعی حکومتیں قائم کریں اور ان میں خدا کی پوری شریعت کو بلا کم و کاست نافذ کر دیں؟ جس روز بھی ہم ایسا کریں گے صرف یہی نہیں کہ ہمیں اشتراکیت سے کسبِ فیض کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے گی، بلکہ خود اشتراکیت زدہ ممالک کے لوگ ہمارے نظامِ زندگی کو دیکھ کر یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ جس روشنی کے بغیر وہ تاریکی میں بھٹک رہے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔