جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں تا کہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کرسکے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، یا جس میں خود اس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔ اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صرف نہیں کرسکتا۔ شراب نوشی اور قمار بازی کا دروازہ اس کے لیے بند ہے۔ زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ وہ آزاد انسانوں کو پکڑ کر انہیں لونڈی غلام بنانے اور ان کی بیع و شریٰ کرنے کا بھی کسی کو حق نہیں دیتا کہ دولت مند لوگ اپنے گھروں کو خریدی ہوئی لونڈیوں سے بھر لیں۔ اسراف اور حد سے زیادہ عیش و عشرت پر بھی وہ حدود عائد کرتا ہے اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اور تمہارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہونے کا آدمی کو حق دیتا ہے اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسبِ مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کرسکتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا جو شریعت نے کسب پر عائد کر دی ہیں۔