اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے: وراثت، ہبہ، کسب۔ وراثت صرف وہ معتبر ہے جو کسی مال کے جائز مالک سے اس کے وارث کو شرعی قاعدے کے مطابق پہنچے۔ ہبہ یا عطیہ صرف وہ معتبر ہے جو کسی ملک کے جائز مالک نے شرعی حدود کے اندر دیا ہو اور اگر عطیہ کسی حکومت کی طرف سے ہو تو وہ اسی صورت میں جائز ہے جب کہ وہ کسی صحیح خدمت کے صلے میں یا معاشرے کے مفاد کے لیے املاکِ حکومت میں سے معروف طریقے پر دیا گیا ہو۔ نیز اس طرح کا عطیہ دینے کی حقدار بھی وہ حکومت ہے جو شرعی دستور کے مطابق شوریٰ کے طریقے پر چلائی جا رہی ہو اور جس سے محاسبہ کرنے کی قوم کو آزادی حاصل ہو ۔ رہا کسب تو اسلام میں صرف وہ کسب جائز ہے جو کسی حرام طریقے سے نہ ہو۔ سرقہ، غصب، ناپ تول میں کمی بیشی، خیانت، رشوت، غبن ، قحبہ گری، احتکار،( قیمتیں چڑھانے کے لیے ضروریات زندگی کو روک رکھنا۔
) سود، جوا، دھوکے کا سودا، مسکرات کی صنعت و تجارت اور اشاعتِ فاحشہ کرنے والے کاروبار کے ذریعے سے کسب اسلام میں حرام ہے۔ ان حدود کی پابندی کرتے ہوئے جو دولت بھی کسی کو ملے وہ اس کی جائز ملک ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کم ہو یا زیادہ۔ ایسی ملکیت کے لیے نہ کمی کی کوئی حد مقرر کی جاسکتی ہے نہ زیادتی کی۔ نہ اس کا کم ہونا اس بات کو جائز کر دیتا ہے کہ دوسروں سے چھین کر اس میں اضافہ کیا جائے، اور نہ اس کا زیادہ ہونا اس امر کے لیے کوئی دلیل ہے کہ اسے زبردستی کم کیا جائے۔ البتہ جو دولت ان جائز حدود سے تجاوز کر کے حاصل ہوئی ہو اس کے بارے میں یہ سوال اٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ مِن این لَکَ ھٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا؟)۔ اس دولت کے بارے میں پہلے قانونی تحقیق ہونی چاہیے، پھر اگر ثابت ہو جائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔