یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم ہوتا ہے ۔ اس کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت اور ان کی اولاد سے ہوتی ہے جس سے خاندان بنتا ہے۔ ان خاندانوں سے قبیلے اور برادریاں بنتی ہیں، ان سے ایک قوم وجود میں آتی ہے اور قوم اپنے اجتماعی اداروں کی تنفیذ کے لیے ایک ریاست کا نظام بناتی ہے۔ ان مختلف شکلوں میں یہ اجتماعی ادارے اصلاً جس غرض کے لیے مطلوب ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی حفاظت اور ان کی مدد سے فرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے وہ مواقع نصیب ہوسکیں جو وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کرسکتا لیکن اس بنیادی مقصد کا حصول اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے ہر ایک ادارے کو افراد پر، اور بڑے ادارے کو چھوٹے اداروں پر اقتدار حاصل ہو تا کہ وہ افراد کی ایسی آزادی کو روک سکیں جو دوسروں پر دست درازی کی حد تک پہنچتی ہو، اور افراد سے وہ خدمت لے سکیں جو بحیثیت مجموعی تمام افراد معاشرہ کی فلاح و ترقی کے لیے مطلوب ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر عدالتِ اجتماعیہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور انفرادیت و اجتماعیت کے متضاد تقاضے ایک گتھی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، ایک طرف انسانی فلاح اس بات کی مقتضی ہے کہ فرد کو معاشرے میں آزادی حاصل ہو تا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کر سکے، اور اسی طرح خاندان، قبیلے، برادریاں اور مختلف گروہ بھی اپنے سے بڑے دائرے کے اندر اس آزادی سے متمتع ہوں جو ان کے اپنے دائرہ عمل میں انہیں حاصل ہونی ضروری ہے ۔ مگر دوسری طرف انسانی فلاح ہی اس بات کابھی تقاضا کرتی ہے کہ افراد پر خاندان کا، خاندانوں پر قبیلوں اور برادریوں کا، اور تمام افراد اور چھوٹے اداروں پر ریاست کا اقتدار ہو تا کہ کوئی اپنی حد سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم و تعدی نہ کرسکے۔ پھر یہی مسئلہ آگے چل کر پوری انسانیت کے لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ہر قوم اور ریاست کی آزادی و خود مختاری کا برقرار رہنا بھی ضروری ہے اور دوسری طرف کسی بالاتر ضابط قوت کا ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ قومیں اور ریاستیں حد سے تجاوز نہ کرسکیں۔
اب عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ افراد، خاندانوں، قبیلوں، برادریوں اور قوموں میں سے ہر ایک کو مناسب آزادی بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے مختلف اجتماعی اداروں کو افراد پر اور ایک دوسرے پر اقتدار بھی حاصل رہے، اور مختلف افراد و مجتمعات سے وہ خدمت بھی لی جاسکے جو اجتماعی فلاح کے لیے درکار ہے۔