اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں ہی عدالت اجتماعیہ موجود ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ ’’اسلام ہی میں عدالت اجتماعیہ ہے۔‘‘ اسلام وہ دین حق ہے جو خالقِ کائنات اور ربِ کائنات نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کرنا اور یہ طے کرنا کہ ان کے لیے کیا چیز عدل ہے اور کیا عدل نہیں ہے ، انسانوں کے خالق و رب ہی کا کام ہے ۔ دوسرا کوئی نہ اس کا مجاز ہے کہ عدل و ظلم کا معیار تجویز کرے، اور نہ دوسرے کسی میں یہ اہلیت پائی جاتی ہے کہ حقیقی عدل قائم کرسکے ۔ انسان اپنا آپ مالک اور حاکم نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے معیارِ عدل خود تجویز کرلینے کا مجاز ہو۔ کائنات میں اس کی حیثیت خدا کے مملوک اور رعیت کی ہے، اس لیے معیارِ عدل تجویز کرنا اس کا اپنا نہیں بلکہ اس کے مالک اور فرماں روا کا کام ہے پھر انسان، خواہ کتنے ہی بلند مرتبے کا ہو، اور خواہ ایک انسان نہیں بہت سے بلند مرتبہ انسان مل کر بھی اپنا ذہن استعمال کرلیں، بہرحال انسانی علم کی محدودیت اور عقلِ انسانی کی کوتاہی و نارسائی اور انسانی عقل پر خواہشات و تعصبات کی دستبرد سے کسی حال میں بھی مفر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انسان خود اپنے لیے کوئی ایسا نظام بناسکے جو درحقیقت عدل پر مبنی ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں ابتداءً بظاہر کیسا ہی عدل نظر آئے، بہت جلدی عملی تجربہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ فی الحقیقت اس میں عدل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسانی نظام کچھ مدت تک چلنے کے بعد ناقص ثابت ہو جاتا ہے اور انسان اس سے بیزار ہو کر ایک دوسرے احمقانہ تجربے کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے۔ حقیقی عدل صرف اسی نظام میں ہوسکتا ہے جو ایک عالم الغیب و الشہادۃ اور سبوح و قدوس ہستی نے بنایا ہے۔