سوال: ’’تمام کتبِ فقہ میں مذکور ہے کہ چاندی کا نصابِ زکوٰۃ دو سو درہم، (52½تولہ) ہے اور سونے کا 20 دینار (7½ تولہ)۔ اور علمائے فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس چاندی اور سونا دونوں ہوں اور ہرایک نصاب مقررہ سے کم ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے لگا کر، یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر، دونوں میں سے جو صورت انفع للفقراء ہو، مجموعہ کو دیکھیں گے۔ یہاں تک کہ تو بات صاف ہے۔ لیکن وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر صرف چاندی ہو تو چاندی کانصاب ہوگا، اور اگر صرف سونا ہو تو سونے کا نصاب حساب کی اساس ہوگا۔ اس بناء پر لازم آتا ہے کہ اگر کسی کے پاس 60 روپے ہوں تو اس پر زکٰوۃ عائد ہوگی، مگر جس کے پاس 6تولہ سونا ہے وہ زکوٰۃ سے بری ہے۔ حالانکہ مال دار ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ موجودہ نرخ کے مطابق تقریباً 500 روپے کا مالک ہے۔ بہرحال علماء کے فتوے شخص اول پر زکوٰۃ فرض قرار دیتے ہیں اور شخص ثانی پر زکوٰۃ عائد ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ لیکن کم مالدار سے زکوٰۃ لینا اور زیادہ مال دار کو چھوڑ دینا تعجب انگیز بات ہے۔
میں تو اپنی جگہ پر یہ سمجھا ہوں کہ زمانۂ قدیم میں چاندی اور سونے کی مالیت میں وہ نسبت نہ تھی جو آج کل ہے ۔ آج تو 75=1 یا 80=1 کی نسبت ہے۔ مگر دورِ نبوی میں تقریباً 7=1 کی نسبت تھی۔ زکوٰۃ کی فرضیت میں مالیت کا اعتبار کیا گیا ہے اور 140 مثقال چاندی کنوز کا بنیادی نصابِ زکوٰۃ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا نصاب معین کرتے ہوئے اسی چاندی کی مقدار کو ذکر فرمایا۔ اس دور میں 140 مثقال چاندی کی مالیت کا سونا چونکہ 20 مثقال (7½تولہ) ہی جتنا تھا اس لیے یہ نصاب قرار پایا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تا قیامِ قیامت سونے کی زکوٰۃ کے لیے 7½ تولہ ہی مستقل نصاب معین رہے۔ بلکہ سونے کی وہ مقدار نصابِ زکوٰۃ ہوگی جو 52½ تولہ چاندی کی ملکیت کے برابر ہو۔ یعنی جس شخص کے پاس سونا ہو وہ اس کی قیمت لگا کر دیکھے۔ اگر وہ 52½ تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے، یا اس سے بڑھ جاتی ہے تو اس پرزکوٰۃ ادا کرے۔
میرے اس خیال کی تائید نہ کسی فقہی کتاب کی عبارات کرتی ہیں نہ علمائے وقت ہی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس وجہ سے مجھے اپنی رائے پر اعتماد نہیں ہے۔ آپ جس پہلو کو مرجح قرار دیں میرے لیے موجب اطمینان ہوگا۔‘‘
جواب: آپ کا خیال اس حد تک تو درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اور سونے کی قیمتوں میں وہی نسبت تھی جو نصاب کی مقدار سے معلوم ہوتی ہے۔ یعنی 52½ تولہ چاندی=½ 7تولہ سونا۔ لیکن آپ کے اس خیال سے مجھے اتفاق نہیں ہے کہ اب نسبتوں میں جو فرق عظیم ہوگیا ہے اس کی وجہ سے سونے کے نصاب کو بدل کر اس کے لیے بھی چاندی ہی کی قیمت کو نصاب بنا دیا جائے۔ اس کے وجوہ یہ ہیں:
۱۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اصل سونے کو قرار دیا جائے یا چاندی کو؟ سونے کا نصاب چاندی کی قیمت کے معیار پر کم و بیش کیا جائے یا چاندی کے نصاب کو سونے کی قیمت کے معیار پر گھٹایا اور بڑھایا جاتا رہے؟ ان میں سے جس کو بھی اصل اور معیار قرار دیا جائے گا وہ ایک غیر شرعی فعل ہوگا، کیوں کہ شارع نے دونوں کا حکم الگ الگ مستقلاً بیان کیا ہے اور اشارۃً و کنایتہ بھی کوئی بات ایسی نہیں فرمائی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہو کہ سونے اور چاندی میں سے کسی ایک کو دوسرے کے لیے اصل اور معیار قرار دینا شارع کا منشا تھا۔
۲۔ محض انفع للفقراء ہونا کوئی ایسی قطعی اور ثابت شدہ اصل نہیں ہے جس پر اعتماد کر کے شارع کے ایک منصوص حکم میں ترمیم کرنے کی جرأت کر ڈالی جائے۔
۳۔ سونے اور چاندی کی نسبتوں میں آئے دن تغیر ہوتا رہتا ہے۔ اگر ان کی مقداروں کا الگ الگ مستقل نصاب نہ ہو اور ایک کے نصاب کو دوسرے کی آئے دن بدلنے والی قیمتوں پر موقوف کر دیا جائے تو ان دائمی تغیرات کی وجہ سے کوئی ایک مستقل شرعی حکم باقی نہ رہے گا، اور عوام الناس کو تعمیل حکم میں عملی زحمتیں بھی پیش آئیں گی۔
۴۔ جو مشکل آپ سونے اور چاندی کے معاملہ میں پیش کر رہے ہیں وہی بکریوں، اونٹوں، گایوں، بھینسوں اور گھوڑوں کے نصاب میں بھی پیش آتی ہے۔ ان کی قیمتوں کی باہمی نسبتوں میں بھی مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بہت بڑا فرق ہوتا رہتا ہے، اور ان کے بارے میں بھی یہ فصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کی قیمت کو اصل قرار دے کر دوسری سب انواع کے نصاب کو اس کے مطابق بدلا جاتا رہے۔
ان وجوہ سے مناسب یہی ہے کہ مختلف اشیاء کی زکوٰۃ کے لیے خود شارع نے جو نصابِ مقرر کر دیا ہے اور جس مقدار یا تعداد پر جو زکوٰۃ عائد کر دی ہے، اسی کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔