سوال: کسی مشترک کاروبار، مثلاً کسی کمپنی کے حصص کی زکوٰۃ کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ حصہ بجائے خود تو کوئی قیمتی چیز نہیں ہے، محض ایک کاغذ(’’حصہ‘‘ کے متعلق سائل نے بہت ہی غلط تصور پیش کیا ہے۔ کاغذ کا ٹکڑا نہ حصہ ہوتا ہے نہ اصل اہمیت رکھتا ہے، بلکہ وہ ایک دستاویز ہوتا ہے جو اس بات کاثبوت ہے کہ فلاں شخص فلاں کاروبار میں اس تناسب سے حصہ دار ہے۔ اگر دو آدمی ایک دکان میں برابر کے شریک ہوں اور وہ اپنی شراکت کے لیے دستاویز لکھ کر رکھ لیں تو دستاویز ان کا اصل حصہ شرکت نہیں ہوگی بلکہ ان کی حصہ داری کا ثبوت ہوگی۔ یہی صورت زیادہ حصہ داروں کے مشترک کاروبار کی ہے۔ یہ بھی غلط کہا گیا ہے کہ ’’حصہ بجائے خود تو کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ دراصل حصہ ہی بجائے خود قیمتی چیز ہے۔ کیوں کہ ’’حصہ ‘‘ نام ہے کسی تناسب سے ایک کاروبار اور اس کے سرمائے اور متعلقہ املاک کے حقوقِ مالکانہ میں شریک ہونے کا، اور حصہ کی قیمت دراصل انہی حقوق ِ مالکانہ کی قیمت ہوتی ہے۔ حصہ کوئی خیالی وجود نہیں بلکہ ایک ٹھوس مادی حقیقت ہے۔
) کا ٹکڑا ہے۔ صرف اس دستاویز کے ذریعے حصہ دار کمپنی کی املاک و جائیداد مشترکہ میں شامل ہو کر بقدر اپنے حصہ کے مالک یا حصہ دار قرار پاتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کمپنی کے املاک کیا اور کس نوعیت کے ہیں۔ اگر کمپنی کی جائیداد تعمیرات (بلڈنگ) اراضیات اور مشینری پر مشتمل ہو تو حصے دار کی شرکت بھی ایسے ہی املاک کی ہوگی جس پر آپ کے بیان کردہ اصول کے ماتحت زکوٰۃ نہیں آتی۔ حصے دار کے حصے کی مالیت تو ضرور ہے لیکن وہ اس تمام مالیت کا جزو ہے جو غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں کمپنی کو مجموعی حیثیت سے حاصل ہے۔ پھر حصے دار کے حصے پر زکوٰۃ کیوں عائد ہونی چاہیے؟
جواب: کمپنی کے جس حصے دار کے حصے کی مالیت بقدر نصاب ہے، اس کے متعلق یہ سمجھا جائے گا کہ وہ قدر نصاب کا مالک ہے۔ اب اگر اس نے اپنے اس روپے کو کمپنی کے کاروبار میں لگا رکھا ہے تو اس سے اس کے حصے کی مالیت کے لحاظ سے انفرادی طور پر زکوٰۃ نہیں لی جائے گی بلکہ کمپنی سے تجارتی زکوٰۃ کے قواعد کے مطابق تمام ایسے حصہ داروں کی زکوٰۃ اکٹھی لے لی جائے گی جن کو زکوٰۃ ادا کرنے کے قابل قرار دیا گیا ہو۔ کمپنی کی زکوٰۃ کا حساب لگانے میں مشینری، مکان، فرنیچر وغیرہ عواملِ پیدائش کو مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اس کے باقی ماندہ املاک جو اموالِ تجارت پر مشتمل ہوں اور اس کے خزانہ کی رقم جو ختم سال پر موجود ہو ان سب پر زکوٰۃ لے لی جائے گی۔ اور اگر کمپنی کا کاروبار اس نوعیت کا نہ ہو تو اس کی سالانہ آمدنی کے لحاظ سے اس کی مالی حیثیت مشخص کی جائے گی اور اس پر زکوٰۃ لگا دی جائے گی۔
———
سوال: ’’اب تک تجارتی حصص پر زکوٰۃ کے متعلق آپ کی جو تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست یا کم از کم تحصیل زکوٰۃ کا ایک مرکزی نظام موجود ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کس مرحلے پر اور کس سے وصول کی جائے گی۔ جب تک کوئی مرکزی نظمِ زکوٰۃ قائم نہ ہو اس وقت تک حصص پر زکوٰۃ کی کیا صورت ہوگی؟ اس وقت بہت سے لوگوں کے پاس تجارتی حصے ہیں وہ ان پر کس شرح سے زکوٰۃ ادا کریں؟ میں نے اپنے حصص کو روپے کا نعم البدل قیاس کرتے ہوئے ان کی مالیت پر ڈھائی فیصد نکالنا چاہا تھا۔ لیکن حصص کی سالانہ آمدنی ٹیکس کٹ کٹا کر جتنی ملتی ہے وہ پوری ان کی زکوٰۃ میں چلی جاتی ہے۔ بعض حصص سے آمدنی اتنی کم ہوتی ہے کہ الٹی جیب سے زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے، یہ صورت قطعاً غیر تشفی بخش ہے۔‘‘
جواب: تجارتی حصص کی زکوٰۃ اس اصول پر نہیں نکالی جائے گی کہ گویا حصے کی رقم آپ کے پاس جمع ہے اور آپ جمع شدہ روپے کی زکوٰۃ نکال رہے ہیں، بلکہ ان کی زکوٰۃ تجارتی مال کی زکوٰۃ کے اصول پر نکالی جائے گی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ کاروبار شروع ہونے کی تاریخ پر جب ایک سال گزر جائے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس تجارتی مال کس قدر موجود ہے اور وہ کس مالیت کا ہے، اور نقد روپیہ (cash) کتنا ہے۔ دونوں کے مجموعے پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ اسی قاعدے پر دیکھا جائے گا کہ کمپنی یا کمپنیوں میں آپ کے جو حصے ہیں اس وقت بازاری قیمت کے لحاظ سے ان کی قیمت کیا ہے؟ سال کے دوران آدمی نے خواہ کتنی ہی مرتبہ پہلا حصہ فروخت کیا ہو اور دوسرا خریدا ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ پہلا حصہ جب آپ نے خریدا اس وقت سے سال شمار کیا جائے گا اور سال کے خاتمہ پر آپ کے حصوں کی جو بازاری قیمت ہو اس کے لحاظ سے زکوٰۃ کا تعین کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آپ کے پاس نقد کس قدر موجود ہے۔ دونوں کے مجموعے پر 1/40 کی شرح سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
رہی یہ بات کہ ٹیکس لگ کر آپ کی بقیہ آمدنی اتنی کم رہ جاتی ہے کہ زکوٰۃ دینے کی صورت میں وہ پوری کی پوری زکوٰۃ ہی میں چلی جاتی ہے تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔ یہ تو ایسی حکومتوں کے ماتحت رہنے کی سزا ہے جو ٹیکس عائد کرتے وقت سرے سے زکوٰۃ کا کوئی لحاظ ہی نہیں کرتیں۔ یہ سزا ہمیں لازماً اس وقت تک بھگتنی ہوگی جب تک اس حکومت کا نظام ہم نہ بدل دیں جس میں ہم رہتے ہیں۔
———-
سوال: ’’تجارتی حصص کی زکوٰۃ کے بارے میں آپ کی تحریریں سامنے ہیں۔ اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ شرکت پر دیے ہوئے سرمائے کی زکوٰۃ صرف ایک بار وصول کی جائے ۔ اس اصول کے مطابق اگر آپ کی تحریر کے مطابق کمپنی سے زکوٰۃ یکجا وصول کرلی جائے تو افراد سے ان کے مملوکہ تجارتی حصص پر وصول نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ جو حصے دار قدر نصاب سے کم حصے رکھتے ہوں یا جو ایک سال سے کم اپنے حصے کے مالک رہے ہوں ان کو مستثنیٰ کر کے کمپنی سے حصص پر زکوٰۃ لی جائے۔ اکثر اوقات اس کا پتہ لگانا مشکل ہے کہ جو حصے دار ایک مخصوص کمپنی میں نصاب سے کم حصے کا مالک ہے وہ خود صاحب نصاب ہے یا نہیں۔
مسئلے کا ایک اور پہلو قابل توجہ ہے۔ افراد سے ان کے مملوکہ حصص پر زکوٰۃ لینے اور کمپنی کے جملہ حصص پر زکوٰۃ لینے کے معاشی اثرات بالکل مختلف ہوں گے۔ کمپنی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ سالانہ زکوٰۃ کی رقم کو اپنی لاگت کا ایک مستقل جزو سمجھ کر اسی حساب سے اپنے مال کی قیمت بڑھانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ پوری زکوٰۃ نفع ہی سے ادا کرنا ہمیشہ ممکن ہو۔ یا ہمیشہ زکوٰۃ دینے کے بعد بھی حصہ داروں کو دینے کے لیے کچھ منافع بچ رہے۔ افراد سے زکوٰۃ لی جائے تو قیمتوں پر یہ اثر مرتب نہیں ہوگا۔
ایک دوسرے مقام پر آپ نے کرایہ پر دی جانے والی اشیاء کے قابلِ زکوٰۃ ہونے کی رائے ظاہر کی ہے۔ اگر یہ رائے صحیح ہے تو اس اصول کا اطلاق کرایہ پر چلائی جانے والی ٹیکسی، ٹرک اور بسوں کی مالیت پر بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح وہ شخص متعدد مکانات اور دکانوں کا مالک ہو اور ان کو کرایہ پر اٹھاتا ہو اس سے بھی مکانات کی جملہ مالیت کا ڈھائی فیصد ٹیکس وصول کرنا چاہیے۔ مجھے ان دونوں شکلوں میں زکوٰۃ کے وجوب پر دو وجہوں سے شبہ ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ سلف سے آج تک کرایہ پر دیے جانے والے مکانات کی جملہ مالیت پر زکوٰۃ واجب ہونے کی رائے یا اس پر عمل سننے میں نہیں آیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کتاب الاموال، ص 376 کی لیث بن سعد کی روایت جو آپ نے دلیل کے طور پر پیش کی ہے اس سے یہاں استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا ۔ کرایہ کے اونٹوں کا کرایہ پر چلانا وجوبِ زکوٰۃ کا سبب نہیں ہے بلکہ وجوب زکوٰۃ کی بنا ان کا اونٹ ہونا ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈال کر یہ کھٹک دور کریں گے۔‘‘
جواب: زکوٰۃکے متعلق نومبر 1950ء کے ترجمان میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حکومت کے ایک سوال نامے کا جواب تھا۔ اس میں جواب اس مفروضہ پر دیا گیا تھا کہ سرکاری طور پر کمپنیوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ جولائی ۶۲ء کے ترجمان میں ایک سوال کا جواب اس مفروضے پر دیا گیا تھا کہ کمپنی خود زکوٰۃ نہیں نکالے گی بلکہ ہر ایک حصے دار اپنی زکوٰۃ آپ نکالے گا۔ اس فرق کو نگاہ میں رکھ کر آپ دونوں جوابات کو پڑھیں۔ کمپنی جب زکوٰۃ نکال دے گی تو ہر حصے دار کے الگ الگ زکوٰۃ نکالنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، البتہ کمپنی کے لیے یہ مشکل ہے کہ ایک ایک حصے دار کے متعلق تحقیق کرے کہ وہ بجائے خود صاحبِ نصاب ہے یا نہیں۔ یہ ایسے حصے داروں کا اپنا کام ہے کہ وہ کمپنی کو اپنے صاحبِ نصاب نہ ہونے کی اطلاع دیں تا کہ ان کے ذمے کی زکوٰۃ محسوب نہ ہو۔
تحصیل زکوٰۃ اگر سرکاری انتظام میں ہو تو محصلِ زکوٰۃ سے یہ بات نہیں چھپ سکتی کہ کمپنی نے اپنی نکالی ہوئی زکوٰۃ اپنے کاروباری مصارف میں شمار کر کے قیمتیں بڑھائی ہیں یا نہیں۔ اس چیز کی روک تھام سرکاری طور پر ہوسکتی ہے ۔ لیکن اگر سرکاری انتظام نہ ہو تو اس صورت میں صرف وہی کمپنی بطور خود اپنی زکوٰۃ نکالے گی جس کے چلانے والوں میں کوئی دینی حس موجود ہوگی۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایک ہاتھ سے زکوٰۃ نکال کر دوسرے ہاتھ سے اس کو وصول کرنے کی تدبیریں اختیار کریں گے اور بالفرض وہ ایسا کریں تو دوسرے سال ان پر زکوٰۃ زیادہ لگ جائے گی ۔ پھر قیمتیں بڑھائیں گے تو زکوٰۃ کے حساب میں مزید اضافہ ہوگا، یہاں تک کہ قیمتیں بڑھانا ممکن نہ رہے گا۔
کرایہ پر دی جانے والی اشیاء کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا تھا وہ مختصر تھا اس لیے بات واضح نہ ہوسکی۔ میرا مدعا یہ ہے کہ جو لوگ فرنیچر یا موٹریں یا ایسی ہی دوسری چیزیں کرایہ پر چلانے کا کاروبار کرتے ہیں ان کے کاروبار کی مالیت اس منافعہ کے لحاظ سے مشخص کرنی چاہیے جو اس کاروبار میں ان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فرنیچر یا ان موٹروں کی قیمت پر زکوٰۃ محسوب کی جائے جنہیں وہ کرائے پر چلاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ تو وہ آلات ہیں جن سے وہ کام کرتے ہیں اور آلات کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کاروبار جو منافع دے رہا ہواس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جائے گی کہ اس قدر منافع دینے والے کاروبار کی مالیت کیا قرار پانی چاہیے۔ رہے کرایہ کے مکانات تو ان کے بارے میں مجھے بھی اس بنا پر تامل ہے کہ سلف سے ان پر زکوٰۃ لگائے جانے کا ثبوت نہیں ملتا۔
’’اَلْاِبِلُ الْعَوَامِلُ‘‘ (کام کرنے والے اونٹوں) پر زکوٰۃ نہ لگنے کی وجہ وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہے کہ ایک آدمی جن آلات و حیوانات کے ذریعے سے کام کرتا ہو ان پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ مثلاً ہل چلانے والے بیل، یا باربرداری کے جانوروں پر زکوٰۃِ مواشی عائد نہ ہوگی۔ اسی طرح ڈیری فارموں کے جانوروں پر زکوٰۃ مواشی عائد نہ ہوگی۔ ان کی زکوٰۃ تو اس پیداوار پرزکوٰۃ لگنے کی صورت میں وصول ہو جاتی ہے جو ان کے ذریعے سے حاصل کی گئی ہو۔ کرایہ پر چلائے جانے والے اونٹوں پر بھی عوامل کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے ان پر بھی زکوٰۃ مواشی عائد نہ ہونی چاہیے اور نہ ان کی مالیت پر زکوٰۃ لگنی چاہیے بلکہ اس کرایہ کے کاروبار کی جو مالیت (value) مشخص ہو اس پر زکوٰۃ لگنی چاہیے۔
(ترجمان القرآن فروری 1963ء)