سوال: زکوٰۃ کے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضور اکرمؐ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ½۲ فی صد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اسے گھٹایا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن پاک میں زکوٰۃ پر جابجا گفتگو آتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا، اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اسے ضرور بیان کیا جاتا۔ اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضورؐ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ رہی صاحبِ موصول کی دلیل تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں، اور یوں نہ پڑھی جائیں یوں پڑھی جائیں جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔ پھر تو رسولؐ خدا کے احکام احکام نہ ہوئے کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز میں جو میں نے کہی تھی وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضرورت درپیش ہو تو وہ حدیث ان فی المال حقًّا سوی الزکوٰۃ کی رو سے مزید رقوم وصول کرسکتی ہے۔ خود یہی حدیث زکوٰۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارۃً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکوٰۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لیکن وہ صاحب اپنے موقف کی صداقت پر مُصِر ہیں ۔ براہِ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرما دیجیے۔
جواب: زکوٰۃ کے معاملے میں آپ نے جو استدلال کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ شارع کے مقرر کردہ حدود اور مقادیر میں رد و بدل کرنے کے ہم مجاز نہیں ہیں۔ یہ دروازہ اگر کھل جائے تو پھر ایک زکوٰۃ ہی کے نصاب اور شرح پر زد نہیں پڑتی، بلکہ نماز،روزہ، حج، نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں ترمیم و تنسیخ شروع ہو جائے گی اوریہ سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہوسکے گا۔ نیز یہ کہ اس دروازے کے کھلنے سے وہ توازن و اعتدال ختم ہو جائے گا جو شارع نے فرد اور جماعت کے درمیان انصاف کے لیے قائم کر دیا ہے۔ اس کے بعد پھر افراد اور جماعت کے درمیان کھینچ تان شروع ہو جائے گی۔ افراد چاہیں گے کہ نصاب اور شرح میں تبدیلی ان کے مفاد کے مطابق ہو اور جماعت چاہے گی کہ اس کے مفاد کے مطابق۔ انتخابات میں یہ چیز ایک مسئلہ بن جائے گی، نصاب گھٹا کر اور شرح بڑھا کر اگر کوئی قانون بنایا گیا تو جن افراد کے مفاد پر اس کی زد پڑے گی وہ اسے اس خوش دلی کے ساتھ نہ دیں گے جو عبادت کی اصل روح ہے، بلکہ ٹیکس کی طرح چٹی سمجھ کر دیں گے اور حیلہ سازی (tax avoidence) اور گریز (evasion) دونوں ہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ بات جو اَب ہے کہ حکمِ خدا اور رسولؐ سمجھ کر ہر شخص سر جھکا دیتا ہے اور عبادت کے جذبے سے بخوشی رقم نکالتا ہے، اس صورت میں کبھی باقی رہ ہی نہیں سکتی جبکہ پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے حسبِ منشا کوئی نصاب اور کوئی شرح لوگوں پر مسلط کرتی رہے۔