Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
پیش لفظ
مقدمہ
انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُزو پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات
قرآن کی معاشی تعلیمات (۱) بنیادی حقائق
۲۔ جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنا اللہ ہی کا حق ہے
۳۔ حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات
۴۔معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل
۵۔ رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندیِ حدود
۶ ۔ کسبِ مال میں حرام و حلال کا امتیاز
۷۔ کسبِ مال کے حرام طریقے
۸۔ بخل اور اکتناز کی ممانعت
۹۔ زر پرستی اور حرصِ مال کی مذمت
۱۰ ۔ بے جا خرچ کی مذمت
۱۱۔ دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے
۱۲۔ مالی کفّارے
۱۳۔ انفاق کے مقبول ہونے کی لازمی شرائط
۱۵۔ لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح
۱۶۔ اموالِ غنیمت کا خُمس
۱۷۔ مصارفِ زکوٰۃ
۱۸۔ تقسیم میراث کا قانون
۱۹۔ وصیت کا قاعدہ
۲۰۔ نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت
۲۱۔ سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ
۲۲۔ ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ
سرمایہ داری اور اسلام کافرق
۱۔ اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
۲۔ مال جمع کرنے کی ممانعت
۳۔ خرچ کرنے کا حکم
۴۔ زکوٰۃ
۵۔ قانونِ وراثت
۶۔ غنائم جنگ اور اموالِ مفتوحہ کی تقسیم
۷۔اقتصاد کا حکم
اسلامی نظامِ معیشت کے اُصول اور مقاصد( یہ تقریر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انتظامات کی مجلس مذاکرہ میں 17؍ دسمبر 65ء کو کی گئی تھی (مرتب)
اسلام کے معاشی نظام کی نوعیت
نظمِ معیشت کے مقاصد
(ا) انسانی آزادی
(ب) اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی
(ج) تعاون و توافُق اور انصاف کا قیام
بنیادی اصول
شخصی ملکیت اور اس کے حدود
منصفانہ تقسیم
اجتماعی حقوق
زکوٰۃ
قانونِ وراثت
محنت، سرمایہ اور تنظیم کا مقام
زکوٰۃ اور معاشی بہبود
غیر سُودی معیشت
معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کا تعلق
معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول (قرآن کی روشنی میں)
(۱) اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں(۱)
(۲) اخلاقی اور معاشی ارتقاء کا اسلامی راستہ (۱)
(۳) تصوّرِ رزق اور نظریۂ صَرف
(۴)اصولِ صرف
(۵) اصولِ اعتدال
(۶) معاشی دیانت اور انصاف
ملکیت ِ زمین کا مسئلہ
قرآن اور شخصی ملکیت (۱)
(۲) دورِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے نظائر
قسمِ اوّل کا حکم
قسمِ دوم کا حکم
قسم سوم کے احکام
قسمِ چہارم کے احکام
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
عطیۂ زمین من جانب سرکار
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
جاگیروں کے معاملے میں صحیح شرعی رویہ
حقوقِ ملکیت کا احترام
(۳) اسلامی نظام اور انفرادی ملکیت
(۴) زرعی اراضی کی تحدید کا مسئلہ
(۵) بٹائی ( ایک سوال کے جوا ب میں ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۵۰ء۔) کا طریقہ اور اسلام کے اصول انصاف
(۶)ملکیت پر تصرف کے حدود
مسئلۂ سود
(۱) سود کے متعلق اسلامی احکام( ماخوذ از ’’سود‘‘۔)
ربوٰا کا مفہوم
جاہلیت کا ربٰوا
بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق
علتِ تحریم
حُرمتِ سود کی شدت
(۲)سود کی ’’ضرورت‘‘… ایک عقلی تجزیہ( ماخوذ از ’سود‘۔)

معاشیات اسلام

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

(۵)زکوٰۃ کے اصولی احکام سوال نامہ ( ترجمان القرآن، محرم ۱۳۷۰ھ، نومبر ۱۹۵۰ء سے ماخوذ۔ (مرتب)

(۱) زکوٰۃ کی تعریف کیا ہے؟
(۲) کن کن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں عورتوں، نابالغوں، قیدیوں، مسافروں، فاتر العقل افراد اور مستامنوں یعنی غیر ملک میں مقیم لوگوں کی حیثیت کیا ہے۔ وضاحت سے بیان کیجیے۔
(۳) زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے کتنی عمر کے شخص کو بالغ سمجھنا چاہیے؟
(۴) زکوٰ ۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے عورت کے ذاتی استعمال کے زیور کی کیا حیثیت ہے؟
(۵) کیا کمپنیوں کو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے یا ہر حصے دار کو اپنے اپنے حصے کے مطابق فرداً فرداً زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمے دار ٹھیرایا جائے؟
(۶) کارخانوں اور دوسرے تجارتی اداروں پر زکوٰۃ کے وجوب کی حدود بیان کیجئے۔
(۷) جن کمپنیوں کے حصص قابل انتقال ہیں، ان کے سلسلے میں تشخیصِ زکوٰۃ کے وقت کس پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوگی؟ حصص کے خریدنے والے پر یا فروخت کرنے والے پر؟
(۸) کن کن اثاثوں اور چیزوں پر اور موجودہو سماجی حالت کے پیش نظر کن کن حالات میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں یا ان سے پیداشدہ حالات میں کیا صورت ہوگی؟
(الف) نقدی، سونا، چاندی، زیورات اور جواہرات۔
(ب) دھات کے سکے (جن میں طلائی، نقرئی اور دوسری دھاتوں کے سکے شامل ہیں) اور کاغذی سکے۔
(ج) بنکوں میں بقایا امانت، بینک یا کسی دوسری جگہ حفاظت میں رکھی ہوئی چیزیں، لیے ہوئے قرضے، مرہونہ جائیداد اور متنازع فیہ جائیداد اور ایسی جائیداد جو قابلِ ارجاعِ نالش ہو۔
(د) عطیات
(ہ) بیمے کی پالیسیاں اور پراویڈنٹ فنڈ کی رقمیں۔
(و) مویشی، شیرخانے کی مصنوعات، زرعی پیداوار مع اناج، سبزیاں، پھل اور پھول۔
(ز) معدنیات
(ح) برآمد شدہ دفینہ
(ط) آثارِ قدیمہ
(ی) جنگلی اور پالتو مکھی کا شہد
(ک) مچھلی، موتی اور پانی سے نکلنے والی دوسری چیزیں۔
(ل) پٹرول
(م) درآمد و برآمد
(۹) رسول اکرمؐ کے زمانے میں جن املاک پر زکوٰۃ واجب تھی کیا خلفائے راشدین نے ان کی فہرست میں کوئی اضافہ فرمایا؟ اگر کوئی اضافہ یا تبدیلی کی گئی تو کن اصولوں پر؟
(۱۰) کیا نکل کے سکوں اور سونے چاندی کے سوا دوسری دھاتوں کے رائج الوقت سکوں پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ جو سکے رائج نہیں رہے یا جو خراب ہیں یا حکومت نے واپس لے لیے ہیں یا دوسرے ملکوں کے سکے ہیں ان کا بھی اس سلسلے میں شمار ہونا چاہیے یا نہیں؟
(۱۱) مالِ ظاہر اور مالِ باطن کی تعریف کیا ہے؟ اس سلسلے میں بینکوں میں جمع شدہ رقوم کی حیثیت کیا ہے؟
(۱۲) اغراضِ زکوٰۃ کے لیے مالِ نامی (نموپذیر) کی حدود بیان کیجئے۔ کیا صرف مالِ نامی پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟
(۱۳) جو مکان، زیورات اور دوسری چیزیں کرائے پر دی جاتی ہیں ان پر اور ٹیکسی، گاڑی، موٹر وغیرہ پر زکوٰۃ لگانے کے کیا قاعدے ہونے چاہئیں؟
(۱۴) کسی آدمی کے کن کن مملوکہ جانوروں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں بھینسوں، مرغیوں اور دوسرے پالتو اور شوقیہ پالے ہوئے جانوروں کی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان پر زکوٰۃ نقدی کی شکل میں یا جنس کی صورت میں یا دونوں طرح دی جاسکتی ہے؟ کسی آدمی کے مختلف مملوکہ جانوروں کی کتنی تعداد پر اور کن حالات میں زکوٰۃ واجب ہونی چاہیے؟
(۱۵) جن مختلف سامانوں اور چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان پر زکوٰۃ کس شرح سے لی جائے؟
(۱۶) کیا خلفائے راشدین کے زمانے میں نقدی، سکوں، مویشیوں، سامانِ تجارت، زرعی پیداوار پر زکوٰۃ کی شرح میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے؟ اگر ایسا ہوا تو سند کے ساتھ تفصیلی وجوہ بیان کیجئے۔
(۱۷) نقدی کی صورت میں اگر زکوٰۃ دو سو نقرئی درہم اور ۲۰ طلائی مثقال پر واجب ہو تو یہ سکے کتنے پاکستان کے روپوں کے برابر ہوں گے؟ اناج کی صورت میں صاع اور وَسَق پاکستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں کن مروجہ اوزان کے برابر ہوں گے؟
(۱۸) کیا موجودہ حالات کے پیش نظر نصاب (وہ کم از کم سرمایہ جس پر زکوٰۃ واجب ہے) اور زکوٰۃ کی شرح میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے؟ اس مسئلے پر اپنے خیالات دلائل کے ساتھ پیش کیجئے۔
(۱۹) مختلف اثاثوں اور سامان پر کتنی مدت گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
(۲۰) اگر ایک سال میں کئی فصلیں ہوں تو کیا سال میں صرف ایک بار زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے یا ہر فصل پر؟
(۲۱) زکوٰۃ قمری سال کے حساب سے واجب ہونی چاہیے، یا شمسی سال کے حساب سے؟ کیا زکوٰۃ کی تشخیص اور وصولی کے لیے کوئی مہینہ مقرر ہونا چاہیے؟
(۲۲) زکوٰۃ کی رقم کن مصارف میں خرچ ہونی چاہیے؟
(۲۳) قرآن مجید میں جن مختلف مصارف میں زکوٰۃ خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی حدود بیان کیجئے۔ بالخصوص اصطلاح ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی اور مفہوم کی وضاحت کیجئے۔
(۲۴) کیا یہ لازمی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا ایک حصہ ان مصارف میں سے ہر ایک مصرف پر خرچ کرنے کے لیے الگ رکھا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یا زکوٰۃ کی پوری رقم قرآن مجید میں بتائے ہوئے تمام مصارف پر خرچ کرنے کے بجائے ان میں سے کسی ایک یا چند مصارف میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے؟
(۲۵) مستحقین زکوٰۃ کے ہر طبقے میں کسی فرد کو کن حالات میں زکوٰۃ لینے کا حق پہنچتا ہے؟ پاکستان کے مختلف حصوں میں جو حالات پائے جاتے ہیں ان کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کی جائے کہ سیّدوں اور بنی ہاشم سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد کو زکوٰۃ لینے کا کہاں تک حق پہنچتا ہے؟
(۲۶) کیا زکوٰۃ صرف افراد کو دی جاسکتی ہے یا اداروں (مثلاً تعلیمی اداروں، یتیم خانوں اور محتاج خانوں وغیرہ) کو بھی دی جاسکتی ہے؟
(۲۷) کیا زکوٰۃ کی رقم میں سے مستحق غریبوں، مسکینوں، بیوائوں اور ان لوگوں کو جو اپاہج یا ضعیف ہونے کی وجہ سے روزی کمانے سے معذور ہوں عمر بھر کی پنشن کے طور پر گزارہ الائونس دیا جاسکتا ہے؟
(۲۸) کیا زکوٰۃ کو رفاہِ عامہ کے کاموں مثلاً مسجدوں ، ہسپتالوں، سڑکوں، پلوں، کنوئوں اور تالابوں وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کیا جاسکتا ہے جس سے ہر آدمی بلا لحاظ مذہب و ملت فائدہ اٹھا سکے؟
(۲۹) آیا زکوٰۃ کی رقم کسی شخص کو قرضِ حسنہ یا قرضہ بلا سود کے طور پر دی جاسکتی ہے؟
(۳۰) کیا یہ ضروری ہے کہ زکوٰۃ جس علاقے سے وصول کی جائے اسی علاقے میں خرچ کی جائے یا اس علاقے سے باہر یا پاکستان سے باہر تالیفِ قلوب کے لیے یا آفاتِ ارضی و سماوی مثلاً زلزلہ سیلاب وغیرہ کے مصیبت زدگان کی امداد پر بھی خرچ کی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میں آپ کے نزدیک علاقے کی کیا تعریف ہوگی؟
(۳۱) کسی متوفی کے متروکہ سے زکوٰۃ وصول کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟
(۳۲) ایسی کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں کہ لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے حیلے نہ کرسکیں؟
(۳۳ ) زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کا انتظام مرکز کے ہاتھ میں ہونا چاہیے یا صوبوں کے ہاتھ میں؟ اگر زکوٰۃ مرکز جمع کرے تو اس میں سے صوبوں یا دوسرے علاقوں کا حصہ مقرر کرنے کے کیا اصول ہوں؟
(۳۴) آپ کی نظر میں زکوٰۃ کے نظم و نسق کو چلانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ کیا زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے کوئی الگ محکمہ قائم کیا جائے یا حکومت کے موجودہ محکموں سے ہی کام لیا جائے؟
(۳۵) کیا کبھی زکوٰۃ کو سرکاری محصول قرار دیا گیا؟ یا وہ کوئی ایسا محصول ہے کہ حکومت محض اس کی وصولی اور انتظام ہی کی ذمہ دار رہی ہو؟
(۳۶) کیا رسول اکرمؐ کے زمانے یا خلفائے راشدین کے دورِ حکومت میں اغراض عامہ کے کاموں کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی سرکاری محصول وصول کیا گیا۔ اگر کیا گیا تو وہ کون سا محصول تھا؟
(۳۷) اسلامی ملکوں میں زکوٰۃ کی وصولی اور انتظام کرنے کا کیا طریقہ رہا ہے اور اب کیا ہے؟
(۳۸) کیا زکوٰۃ کی وصولی اور خرچ کا انتظام صرف حکومت کے پاس رہنا چاہیے یا کوئی مجلس اُمنا مقرر ہو کر اس کا انتظام حکومت اور عوام کی مشترکہ نگرانی میں ہونا چاہیے؟
(۳۹) زکوٰۃ جمع کرنے اور اس کا انتظام کرنے کے لیے جو عملہ رکھا جائے اس کی تنخواہیں، الائونس، پنشن، پراویڈنٹ فنڈ اور شرائط ملازمت کیا ہونی چاہئیں؟
جواب ( ہر جواب کو پڑھتے وقت سوال کو بھی نگاہ میں رکھیے۔)
(۱) زکوٰۃ کے لُغوی معنی طہارت اور نمو کے ہیں۔ انہی دونوں صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں ’’زکوٰۃ‘‘ اس مالی عبادت کو کہتے ہیں جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کر کے اس کا مال پاک ہو جائے اور اس کا نفس، نیز وہ سوسائٹی جس میں وہ رہتا ہے، بخل، خود غرضی، بغض وغیرہ جذبات ردیہ سے پاک ہو اور اس میں محبت و احسان ، فراخ دلی اور باہمی تعاون و مواساۃ کے اوصاف نشوونما پائیں۔
فقہاء نے زکوٰۃ کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ مثلاً:
حَقٌّ یَجِبُ فِی الْمَالِ (المُغْنِی لابن قدامہ، ج2، ص 433)
وہ ایک حق ہے جو مال میں واجب ہوتا ہے۔
اِعْطَاءُ جُزْءٍ مِّنَ النَّصَابِ اِلٰی فَقِیْرٍ وَ نَحْوِہٖ غَیْرُ مُتَّصِفٍ بِمَانِعٍ شَرْعِیِّ یَمْنَعُ مِنَ الصَّرْفِ اِلَیْہِ۔ (نیل الاوطار، ج4، ص 98)
نصاب میں سے ایک جزء کسی محتاج اور اس کے مانند شخص کو دینا جو کسی ایسے مانع شرعی سے متصف نہ ہو جس کی بناء پر اسے زکوٰۃ نہ دی جاسکے۔
تَمْلِیْکُ مَالٍ مَخْصُوْصٍ لِمُسْتَحَقِّہٖ بِشَرَائِطَ مَخْصُوْصَۃٍ۔
(الفقہ علی المذاھب الاربعہ، ج1 ص590)
ایک مخصوص مال کو مخصوص شرائط کے مطابق اس کے مستحق کی ملک میں دینا۔
(۲) عاقل و بالغ مسلمان مرد و زن اگر صاحبِ نصاب ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی ادائیگی کے وہ خود ذمے دار ہیں۔
نابالغ بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک مسلک یہ ہے کہ یتیم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ یتیم کے سنِ رُشد کو پہنچنے پر اس کا ولی اس کا مال اس کے حوالے کرتے وقت اس کو زکوٰۃ کی تفصیل بتا دے، پھر یہ اس کا اپنا کام ہے کہ اپنے ایام یتیمی کی پوری زکوٰۃ ادا کرے۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ یتیم کا مال اگر کسی کاروبار میں لگایا گیا ہے اور نفع دے رہا ہے تو اس کا ولی اس کی زکوٰۃ ادا کرے ورنہ نہیں ۔ چوتھا مسلک یہ ہے کہ یتیم کے مال کی زکوٰۃ واجب ہے اور اس کو ادا کرنا اس کے ولی کے ذمے ہے۔ ہمارے نزدیک یہی چوتھا مسلک زیادہ صحیح ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
اَلَا مَنْ وَّلِیَ یَتِـیْماً لَّہُ مَالٌ فَلْیَتّجِرْ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْـرُکْہُ فَتَأَ کُلُہُ الصَّدَقَۃُ
(ترمذی، دارقطنی، بیہقی، کتاب الاموال، لابی عبید)
خبردار جو شخص کسی ایسے یتیم کا ولی ہو جو مال رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اس کے مال سے کوئی کاروبار کرے اور اسے یونہی نہ رکھ چھوڑے کہ اس کا سارا مال زکوٰۃ کھا جائے۔
اس کے ہم معنی ایک حدیث امام شافعیؒ نے مرسلاً اور ایک دوسری حدیث طبرانی اور ابوعبید نے مرفوعاً نقل کی ہے اور اس کی تائید صحابہ و تابعین کے متعدد آثار و اقوال سے ہوتی ہے جو حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت علی، حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے مجاہد، عطاء، حسن بن یزید، مالک بن اَنس اور زہری سے منقول ہیں۔
فاتر العقل لوگوں کے معاملے میں بھی اسی نوعیت کا اختلاف ہے جو اوپر مذکور ہوا ہے اور اس میں بھی ہمارے نزدیک قول راجح یہی ہے کہ مجنون کے مال میں زکوٰ ۃ واجب ہے اور اس کا ادا کرنا مجنون کے ولی کے ذمے ہے۔ امام مالکؒ اور ابن شہاب زہریؒ نے اس رائے کی تصریح کی ہے۔
قیدی پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ جو کوئی اس کے پیچھے اس کے کاروبار یا اس کے مال کا متولّی ہو وہ اس کی طرف سے جہاں اس کے دوسرے واجبات ادا کرے گا زکوٰۃ بھی ادا کرے گا۔ ابن قدامہ اس کے متعلق اپنی کتاب المغنی میں لکھتے ہیں: ’’اگر مال کا مالک قید ہو جائے تو زکوٰۃ اس پر سے ساقط نہ ہوگی، خواہ قید اس کے اور اس کے مال کے درمیان حائل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ کیوں کہ اپنے مال میں اس کا تصرف قانوناً نافذ ہوتا ہے۔ اس کی بیع، اس کا ہبہ اور اس کا مختارنامہ، سب کچھ قانوناً جائز ہے۔‘‘ (ج 2، ص664)
مسافر پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مسافر ہونے کی حیثیت سے زکوٰۃ کا مستحق ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اگر وہ صاحبِ نصاب ہے تو زکوٰۃ کا فرض اس پر سے ساقط ہو جائے گا ۔ اس کا سفر اسے زکوٰۃ کا مستحق بناتا ہے اور اس کا مال دار ہونا اس پر زکوٰۃ فرض کرتا ہے۔
پاکستان کا مسلمان باشندہ اگر کسی غیر ملک میں مقیم ہو تو اس پر زکوٰۃ اس صورت میں عائد ہوگی جب کہ اس کا مال یا جائیداد یا کاروبار پاکستان میں بقدر نصاب موجود ہو۔ کسی مسلمان مملکت کا مسلمان باشندہ اگر پاکستان میں مقیم ہو اور یہاں اس کے پاس مال یا جائیداد یا کاروبار بقدر نصاب ہو تو اس سے بھی زکوٰۃ وصول کی جائے گی ۔ رہا وہ مسلمان جو کسی غیر مسلم حکومت کی رعایا ہو اور پاکستان میں رہتا ہو، تو اسے ادائے زکوٰۃ پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اِلاّ یہ کہ وہ خود بخوشی دینا چاہیے۔ اس لیے اس کی آئینی حیثیت اس حکومت کی غیر مسلم رعایا سے مختلف نہیں ہے۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُھَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ الانفال 72:8
(۳) زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے کسی عمر کی قیدنہیں ہے۔ جب تک کوئی یتیم سنِ رُشد کو نہ پہنچے اس کی زکوٰۃ ادا کرنا اس کے ولی کے ذمے ہے۔ اور جب وہ سن رشد کو پہنچ کر اپنے مال میں خود تصرف کرنے لگے تو وہ اپنی زکوٰۃ خود ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
(۴)زیور کی زکوٰۃ کے بارے میں کئی مسلک ہیں۔ ایک مسلک یہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اسے عاریتاً دینا ہی اس کی زکوٰۃ ہے ۔ یہ انس بن مالکؓ، سعید بن مسیب، قتادہ اور شعبی کا قول ہے۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ زیور پر زکوٰۃ دے دینا کافی ہے۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ جو زیور عورت ہر وقت پہنے رہتی ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے اور جو زیادہ تر رکھا رہتا ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ چوتھا مسلک یہ ہے کہ ہرقسم کے زیور پر زکوٰۃ ہے۔ ہمارے نزدیک یہی آخری قول صحیح ہے۔ اول تو جن احادیث میں چاندی سونے پر زکوٰۃ کے وجوب کا حکم بیان ہوا ہے ان کے الفاظ عام ہیں۔ مثلاً یہ کہ فِیْ رِقَۃٍ رُبَعُ الْعُشْرِ وَلَیْسَ فِیْ مَادُوْنَ خَمْسِ اَوَاقٍ صَدَقَۃٌ(چاندی میں ½۲ فیصدی زکوٰۃ ہے اور پانچ اوقیہ سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے)۔ پھر متعدد احادیث و آثار میں تصریح ہے کہ زیور پر زکوٰۃ واجب ہے۔ چنانچہ ابودائود، ترمذی اور نسائی میں قوی سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اَیَسُرُّکِ اَنْ یُّسَوِّرَکِ اللہُ بِھِمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِوَارَیْنِ مِنَ النَّارِ۔ (کیا تجھے پسند ہے کہ خدا قیامت کے روز تجھے ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟) نیز موطا، ابودائود اور دارقطنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشا منقول ہے: مَا اَدَّیْتِ زَکٰوتَہٗ فَلَیْسَ بِکَنْزٍ (جس زیور کی زکوٰۃ تو نے ادا کردی وہ کنز نہیں ہے)۔ ابن حزم نے محلی میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو جو فرمان بھیجا تھا اس میں یہ ہدایت بھی تھی: مُرْنِسَاءَ الْمُسْلِمِیْنَ یُزَکِّیْنَ عَنْ حُلَیِّھِنَّ (مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنے زیوروں کی زکوٰۃ ادا کریں)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فتویٰ پوچھا گیا کہ زیور کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: اِذَا بَلَغَ مِأَتَیْنِ فَفِیْہِ الزَّکوٰۃُ (جب وہ دو سو درہم کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ ہے)۔ اسی مضمون کے اقوال صحابہ میں سے ابن عباسؓ، عبداللہؓ بن عمروؓ بن عاص اور حضرت عائشہؓ سے ، تابعین میں سے سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، عطاء ،مجاہد، ابن سیرین اور زہری سے اور ائمہ فقہ میں سے سفیان ثوری، ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب سے منقول ہیں۔
(۵) کمپنیوں کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ جو حصے دار قدرِ نصاب سے کم حصے رکھتے ہوں، یا جو ایک سال سے کم مدت تک اپنے حصے کے مالک رہے ہوں ان کو مستثنیٰ کر کے باقی تمام حصے داروں کی اکٹھی زکوٰۃ کمپنیوں سے وصول کی جانی چاہیے۔ اس میں انتظامی سہولت بھی ہے اور اس طریقے میں کوئی بات ایسی بھی نہیں ہے جو اصولِ شرع میں سے کسی اصل کے خلاف پڑتی ہو۔ ہماری یہ رائے امام مالک، امام شافعی اور متعدد دوسرے فقہاء کے مسلک کے مطابق ہے۔ (بدایۃ المجتھد، ج 1، ص 225)
(۶) کارخانوں کی مشینوں اور آلات پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ صرف اس مال کی قیمت پر جو آخر سال میں ان کے پاس خام یا مصنوع شکل میں، اور اس نقد روپے پر جو ان کے خزانے میں موجود ہو عائد ہوگی۔ اسی طرح تاجروں کے فرنیچر، اسٹیشنری، دکان یا مکان اور اس نوعیت کی دوسری اشیاء پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی۔ صرف اس فروختنی مال کی قیمت پر جو ان کی دکان میں، اور اس نقد روپے پر جوان کے خزانے میں ختم سال پر موجود ہو، عائد ہوگی۔( جو کاروبار اس نوعیت کے ہوں کہ ان کی زکوٰۃ کا حساب اس طرح نہ لگایا جاسکے (مثلاً اخبار) ان کے کاروبار کی مالیت ان کی سالانہ آمدنی کے لحاظ سے رائج الوقت قاعدوں کے مطابق مشخص کی جائے اور اس پر زکوٰۃ عائد کی جائے۔) اس معاملے میں اصول یہ ہے کہ ایک شخص اپنے کاروبار میں جن عوامل پیدائش سے کام لے رہا ہو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ: لَیْسَ فِی الْاِبِلِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ (کتاب الاموال) یعنی کوئی شخص جن اونٹوں سے آبپاشی کا کام لیتا ہو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کی زکوٰۃ اس زرعی پیداوار سے وصول کرلی جاتی ہے جو ان کے عمل سے حاصل کی گئی ہو۔ اسی پر قیاس کر کے فقہاء نے بالاتفاق دوسرے تمام آلاتِ پیدائش کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
(۷) کمپنیوں کے جو حصے قابل فروخت ہوں وہ جب سال کے دوران میں فروخت کر دیے جائیں تو اس سال نہ ان کے بائع پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور نہ مشتری پر۔ کیوں کہ دونوں میں سے کسی کی ملکیت پر بھی سال نہ گزرے گا۔
(۸) شریعت میں جو اشیاء محل زکوٰۃ ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں: زرعی پیداوار، فصل کٹنے کے بعد، سونا چاندی، جب کہ وہ سال کے آغاز و اختتام پر بقدرِ نصاب یا اس سے زائد موجود ہوں، اسی طرح نقد روپیہ جو سونے چاندی کا قائم مقام ہو ۔ مواشی جب کہ وہ افزائش نسل کے لیے پالے گئے ہوں اور سال کے آغاز و اختتام پر بقدر نصاب ہوں۔ معادن و رکاز۔
(ا) نقدی، سونے چاندی اور زیورات پر زکوٰۃ ہے۔ زیور کی زکوٰۃ میں صرف اس سونے یا چاندی کے وزون کا اعتبار کیا جائے گا جو ان میں موجود ہو۔ جواہر خواہ زیور میں جڑے ہوئے ہوں یا کسی اور صورت میں ہوں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص جواہر کی تجارت کرتا ہو تو اس پر وہی زکوٰۃ عائد ہوگی جو دوسرے اموال تجارت پر ہے، یعنی ان کی قیمت کا ½۲ فیصدی۔ ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ میں لکھا ہے: ’’موتی، یاقوت اور دوسرے تمام جواہر پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے جبکہ وہ تجارت کے لیے نہ ہوں، اس پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے۔‘‘ (ج1، ص 595)
(ب) دھات کے سکے اور کاغذی سکے محلِ زکوٰۃ ہیں، کیوں کہ ان کی قیمت ان کی دھات یا ان کے کاغذ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس قوتِ خرید کی بنا پر ہے جو قانوناً ان کے اندر پیدا کر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ سونے اور چاندی کے قائمقام ہیں۔ ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ میں ہے: ’’جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اوراقِ مالیہ پر زکوٰۃ ہے کیونکہ وہ تعامل میں سونے اور چاندی کے قائم مقام ہیں اور ان کو بلاتکلف سونے اور چاندی سے تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ اسی لیے ائمہ میں سے تین ابوحنیفہؒ، مالکؒ اور شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ ہے۔‘‘ (ج 1 ص 605)
(ج) بینکوں میں جو امانتیں رکھی ہوں وہ محلِ زکوٰۃ ہیں۔ دوسرے ادارے اگر رجسٹرڈ ہوں اور حکومت ان کے حساب کتاب کی پڑتال کرسکتی ہو، تو ان میں رکھی ہوئی امانتوں کا وہی حکم ہے جو بینک کی امانتوں کا ہے۔ اور اگر وہ رجسٹرڈ نہ ہوں، نہ ان کے حساب کتاب کی پڑتال کرنا حکومت کے لیے ممکن ہو، تو ان میں رکھی ہوئی امانتیں اموالِ باطنہ کی تعریف میں آتی ہیں، جن کی زکوٰۃ وصول کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔ ان کے مالک خود ان کی زکوٰۃ نکالنے کے ذمے دار ہیں۔
لیے ہوئے قرضے اگر ذاتی حوائج کے لیے لیے گئے ہوں اور خرچ ہو جائیں تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ اگر قرض لینے والا سال بھر تک ان کو رکھے رہے اور وہ بقدر نصاب ہوں تو ان پر زکوٰۃ ہے اور اگر ان کو تجارت میں لگالیا جائے تو وہ قرض لینے والے کا تجارتی سرمایہ شمار ہوں گے اور ان کی تجارتی زکوٰۃ وصول کرتے وقت اس کے ایسے قرضوں کو مستثنیٰ نہ کیا جائے گا۔
دیئے ہوئے قرضے اگر بآسانی واپس مل سکتے ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک ان کی زکوٰۃ سال بہ سال ادا کرنی ہوگی۔ یہ حضرت عثمانؓ ، ابن عمرؓ، جابر ؓ بن عبداللہ، طائوسؒ، ابراہیم نخعیؒ اور حسن بصریؒ کا مسلک ہے۔ اور بعض کے نزدیک جب وہ قرضے وصول ہوں تو تمام گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ یہ حضرت علیؓ، ابوثورؒ، سفیان ثوریؒ اور حنفیہ کا قول ہے۔ اور اگر ان قرضوں کی واپسی مشتبہ ہو تو اس بارے میں ہمارے نزدیک قول راجح یہ ہے کہ جب رقم واپس ملے اس وقت صرف ایک سال کی زکوٰۃ نکالی جائے۔ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، حسنؒ، لیثؒ، اوزاعیؒ اور امام مالکؒ کا قول ہے اور اس میں بیت المال اور صاحب مال، دونوں کے مفاد کی منصفانہ رعایت پائی جاتی ہے۔
مرہونہ جائیداد کی زکوٰۃ اس شخص سے وصول کی جائے گی جس کے قبضے میں وہ ہو۔ مثلاً مرہونہ زمین اگر مرتہن کے قبضے میں ہے تو اس کا عشر اس سے وصول کیا جائے گا۔
متنازع فیہ جائیداد کی زکوٰۃ دورانِ نزاع میں اس شخص سے لی جائے گی جس کے قبضے میں وہ ہو اور فیصلہ ہونے کے بعد اس کی زکوٰۃ کا ذمہ دار وہ ہوگا جس کے حق میں فیصلہ ہو۔
قابل ارجاعِ نالش جائیداد کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا۔ وہ بالفعل جس شخص کے قبضے میں ہو اور جب تک رہے، اس کی زکوٰۃ اسی کے ذمے رہے گی۔ کیوں کہ جو شخص کسی چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کے واجبات بھی اسی کو ادا کرنے ہوں گے۔
(د) عطیہ اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو جس شخص کو وہ دیا گیا ہو اس سے زکوٰۃ لی جائے گی۔
(ہ) بیمہ اور پراویڈنٹ فنڈ اگر جبری ہوں تو ان کا حکم وہی ہے جو عسیر الحصول قرضوں اور امانتوں کا ہے۔ یعنی جب ان کی رقم واپس مل جائے تو صرف ایک سال کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی اور اگر وہ اختیاری ہوں تو ہمارے نزدیک ہر سال کے خاتمے پر جتنی رقم ایک شخص کے حساب میں بیمہ کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ میں جمع ہو اس پر زکوٰۃ وصول کی جانی چاہیے۔ کیوں کہ اگرچہ یہ رقم اب اس کے لیے قبل از وقت قابل وصول نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے مال کو باختیار خود اس حالت میں ڈالا ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ وہ زکوٰۃ سے بچ جائے۔
(و) شیرخانہ (ڈیری فارم) کے مویشی عوامل کی تعریف میں آتے ہیں اس لیے ان پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔ البتہ شیرخانے کی مصنوعات پر اسی طریقے سے زکوٰۃ عائد ہوگی جس طرح دوسرے کارخانوں پر۔
زرعی پیداوار میں جو چیزیں ذخیرہ کر کے رکھنے کے قابل ہوں ان پر عشر یا نصف عشر ہے۔ اور یہی حکم ان پھلوں کا بھی ہے جو ذخیرہ کر کے رکھے جاسکتے ہوں، جیسے خشک میوہ اور چھوہارے، جو زراعت بارانی زمینوں میں ہو اس پر عشر واجب ہوگا، اور جس میں مصنوعی ذرائع سے آب پاشی کی جائے اس پر نصف عشر۔
سبزی، ترکاری، پھول اور پھل جو ذخیرہ کر کے نہیں رکھے جاسکتے ان پر عشر تو نہیں ہے، لیکن اگر زمیندار انہیں مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے تو اس پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی جبکہ وہ بقدر ِ نصاب ہو۔ اس معاملے میں نصاب وہی ہوگا جو تجارت میں معتبر ہے، یعنی اس کاروبار کا تجارتی سرمایہ سال کے آغاز و اختتام پر دو سو درہم یا اس سے زائد ہو۔
(ز) معدنیات کے بارے میں ہمارے نزدیک سب سے بہتر مسلک حنابلہ کا ہے۔ یعنی وہ تمام چیزیں جو زمین سے نکلتی ہیں، خواہ وہ دھات کی قسم سے ہوں، یا مائعات (پٹرول، پارہ وغیرہ کی قسم سے، ان سب پر ڈھائی فیصدی زکوٰۃ ہے جب کہ ان کی قیمت بقدرِ نصاب ہو اور جب کہ وہ پرائیویٹ ملکیت میں ہوں۔ اس مسلک پر حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کی حکومت میں عمل بھی تھا۔ (المغنی لابن قدامہ، ج2، ص581)
(ح) برآمد شدہ دفینہ (رِکاز) کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ فی الرکاز الخمس یعنی اس میں خمس (20 فیصدی) لیا جائے گا۔
(ط) آثار قدیمہ، یعنی وہ قیمتی نوادر جو کسی نے بطور یادگار اپنے گھر میں رکھ چھوڑے ہوں، ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ بغرضِ تجارت ہوں تو ان پر تجارتی زکوٰۃ ہے۔
(ی) شہد کے بارے میں یہ بات مختلف فیہ ہے کہ آیا بجائے خود شہد کی ایک مقدار میں سے زکوٰۃ وصول کی جانی چاہیے یا اس کی تجارت پر وہی زکوٰۃ عائد کی جائے جو تجارتی مال پر ہے۔ حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ شہد بجائے خود محلِ زکوٰۃ ہے اور یہی مسلک احمدؒ، اسحاقؒ بن راہویہ، عمر بن عبدالعزیزؒ، ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ کا ہے، اور امام شافعیؒ کا بھی ایک قول اس کے حق میں ہے۔ بخلاف اس کے امام مالکؒ اور سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ شہد بجائے خود محلِ زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام شافعیؒ کا بھی مشہور قول یہی ہے۔ اور امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ لیس فی زکوٰۃ العسل شییٌٔ بصح ’’شہد کی زکوٰۃ کے معاملے میں کوئی حدیث صحیح موجود نہیں ہے۔‘‘ ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ شہد کی تجارت پر زکوٰۃ عائد کی جائے۔
(ک) مچھلی بجائے خود محلِ زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس کی تجارت پر وہی زکوٰۃ واجب ہے جو اموالِ تجارت پر عائد ہوتی ہے۔
موتی، عنبر اور دوسری وہ چیزیں جو سمندر سے نکلتی ہیں، وہ ہمارے نزدیک معدنیات کے حکم میں ہیں اور ان پر وہی زکوٰۃ عائد ہونی چاہیے جو معدنیات میں بیان ہو چکی ہے۔ یہ امام مالکؒ کا مذہب ہے اور اسی پر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت کا عمل رہا ہے۔
(کتاب الاموال، ص349، کتاب المغنی لابن قُدامہ، ج 2 ،ص 584)
(ل) پٹرول کا حکم اوپر معادِن کے سلسلے میں گزر چکا ہے۔
(م) برآمد پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ درآمد پر جو محصول حضرت عمرؓ کے زمانے میں لیاجاتا تھا، اس کی حیثیت زکوٰۃ کی نہ تھی، بلکہ وہ صرف جواب تھا اس محصول کا جو ہمسایہ حکومتیں اسلامی مملکت کے مال کی درآمد پر اپنے ملک میں وصول کرتی تھیں۔
(۹) خلافتِ راشدہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے اموالِ زکوٰۃ کی فہرست میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا گیا جو اپنی ایک مستقل بالذات نوعیت رکھتا ہو، بلکہ ایسی چیزوں کا اضافہ کیا گیا تھا جو حضورؑ کے مقرر کئے ہوئے اموالِ زکوٰۃ میں سے کسی پر قیاس کی جاسکتی تھیں۔ مثلاً حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بھینس کو گائے پر قیاس کیا اور اس پر وہی زکوٰۃ عائد کی جو گائے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقر رکی تھی۔
(۱۰) ہر قسم کے سکوں پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اوپر نمبر (۸) ضمن (ب) میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
جو سکے رائج نہیں ہیں، یا جو خراب ہیں، یا جو حکومت نے واپس لے لیے ہیں، ان میں اگر چاندی یا سونا موجود ہو، تو ان پر چاندی یا سونے کی اس مقدار کے لحاظ سے زکوٰۃ عائد ہوگی جو ان کے اندر پائی جاتی ہو۔
دوسرے ملکوں کے سکے اگر ہمارے ملک کے سکوں سے بآسانی تبدیل کئے جاسکتے ہوں تو ان کا حکم نقدی کا ہے۔ اور اگر تبدیل نہ کئے جاسکتے ہوں تو ان پر صرف اس صورت میں زکوٰۃ عائد ہوگی جب کہ ان کے اندر بقدر نصاب سونا یا چاندی موجود ہو۔
(۱۱) مالِ ظاہر وہ ہے جس کا معائنہ اور تشخیص عاملینِ حکومت کرسکتے ہوں اور مالِ باطن وہ جو عاملینِ حکومت کے لیے قابلِ معائنہ و تشخیص نہ ہو۔ بینکوں میں جمع شدہ رقوم مالِ ظاہر کی تعریف میں آتی ہیں۔
(۱۲) مالِ نامی وہ ہے جو یا تو طبعاً افزائش کے قابل ہو، یا جسے سعی و عمل سے بڑھایا جاسکے۔ اس تعریف کی رُوسے زکوٰۃ انھی اموال پر عائد کی گئی ہے جو نامی ہیں۔ اور جمع شدہ روپے پر اس لیے عائد کی جاتی ہے کہ اس کے مالک نے اسے نمو سے روک رکھا ہے۔
(۱۳) جو اشیاء کرایہ پر دی جاتی ہیں ان کی مالیت رائج الوقت قواعد کے مطابق ان کے منافع سے تشخیص کی جائے اور اس پر ڈھائی فیصدی زکوٰۃ لی جائے۔ لیث بن سعد کہتے ہیں کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ جو اونٹ کرائے پر چلائے جاتے ہیں ان پر مدینے میں زکوٰۃ لی جاتی تھی۔‘‘ (کتاب الاموال: ص 376)
(۱۴) مویشی (اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور جو ان کے مانند ہوں) اگر افزائش نسل کی غرض سے پالے جائیں اور بقدرِ نصاب یا اس سے زائد ہوں تو ان پر وہ زکوٰۃ عائد ہوگی جو شریعت میں مواشی کے لیے مقرر ہے (اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سیرت النبیؐ مصنفہ مولانا سید سلیمان ندوی، ج 5، ص 165 تا 167) اور اگر وہ تجارت کے لیے ہوں تو ان پر تجارتی زکوٰۃ ہے۔ یعنی اگر ان کی قیمت بقدرِ نصاب (دو سو درہم) یا اس سے زائد ہو تو ان پر ڈھائی فیصدی زکوٰۃ لی جائے گی۔ اور اگر ان سے زراعت یا حمل و نقل کا کام لیا جاتا ہو، یا کسی شخص نے ان کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے پالا ہو ، تو ان کی تعداد خواہ کتنی ہی ہو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔
مرغیاں اور دوسرے جانور اگر شوقیہ پالے جائیں تو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان پر تجارتی زکوٰۃ ہے۔ اور اگر انڈوں کی فروخت کے لیے مرغی خانہ قائم کیا جائے تو اس کا وہی حکم ہے جو شیرخانہ اور دوسرے کارخانوں کا ہے۔
مویشی کی زکوٰۃ نقدی کی صورت میں بھی وصول کی جاسکتی ہے اور خود مویشی بھی زکوٰۃ میں لیے جاسکتے ہیں ۔ اس پر حضرت علیؓ کا فتویٰ ہے۔ (کتاب الاموال ص 368)
(۱۵) جن مختلف سامانوں پر زکوٰۃ واجب ہے ان کی شرح حسب ذیل ہے:
زرعی پیداوار = 10 فیصدی جبکہ وہ بارانی زمینوں سے حاصل ہو۔
= 5 فیصدی جبکہ وہ مصنوعی آبپاشی سے حاصل ہو۔
نقدی اور سونا چاندی = 2½ فیصدی
اموالِ تجارت = 2½ فیصدی
مواشی= جیسا کہ اوپر بیان ہوا اس کا تفصیلی نقشہ سیرۃ النبیؐ جلد پنجم میں ملاحظہ ہو۔
معادِن = 2½ فیصدی
رکاز= 20 فیصدی
کارخانوں کے اموال= 2½ فیصدی
(۱۶) خلفائے راشدین کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کئے ہوئے نصاب اور شرح زکوٰۃ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، نہ اب اس کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ہمارا خیال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی آپؐ کی مقرر کردہ مقادیر میں ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ جو چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر کی گئی ہو اس کے برحق ہونے پر تو ہر مسلمان ایمان رکھتا ہے، اس کا ضمیر اسے سچے دل سے قبول کرتا ہے، اور جس شخص کے دل میں بھی ایمان ہو وہ اس سے گریز کرنے کا خیال بھی نہیں کرسکتا، بلکہ وہ اپنی رضا و رغبت کے ساتھ اسے ادا کرے گا۔ لیکن جو چیز حضورؐ کے سوا کسی اور نے مقرر کی ہو ، خواہ وہ ایک نمائندہ اسمبلی ہی کیوں نہ ہو، مسلمان اس کے برحق ہونے پر سچے دل سے ایمان نہیں لاسکتے اور اس میں گریز کی وہ سب راہیں اختیار کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں جس طرح عام ٹیکسوں کے بارے میں بکثرت لوگوں کا رویہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے زکوٰۃ کو، جو درحقیقت ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، اس خطرے میں نہ ڈالنا چاہیے کہ مسلمان اس کو خلوص اور ایمان داری کے ساتھ ادا نہ کرسکیں۔
(۱۷) نقدی، چاندی، اموالِ تجارت، معادِن، رکاز اور کارخانوں کے اموال میں نصاب دو سو درہم ہے۔ مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی کی تحقیق یہ ہے کہ دو سو درہم کی چاندی ہمارے ملک کے معیاری وزن کے حساب سے 36 تولہ 5ماشہ 4 رتی ہوتی ہے، مگر مشہور 52½ تولہ چاندی ہے۔
60 طلائی مثقال کے متعلق مولانا عبدالحی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ وہ 5 تولہ 6 ماشہ 4رتی سونے کے برابر ہیں۔ اور عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ½ 7تولے کے برابر۔
کتاب الاموال لابی عبید میں جو حساب لگایا گیا ہے اس کی رُو سے دس درہم کا وزن 823/10 جَو بنتا ہے اور وہ ۷ مثقال طلائی کے برابر ہے۔
(۱۸) اس کا جواب نمبر 12 میں گزر چکا ہے۔ البتہ سونے کے نصاب میں تبدیلی ممکن ہے، کیوں کہ اس کا نصاب ۲۰ مثقال جس روایت میں آیا ہے اس کی سند بہت ضعیف ہے۔
(۱۹) معادن، رکاز اور زرعی پیداوار کے سوا تمام صورتوں میں وجوبِ زکوٰۃ کے لیے یہ شرط ہے کہ قدرِ نصاب یا اس سے زائد مال پر ایک سال گزر جائے۔ معادن اور رکاز کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ اور زرعی پیداوار پر فصل کٹنے کے ساتھ ہی زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، خواہ سال میں دو یا زائد فصلیں کاٹی جائیں۔ قرآن میں فرمایاگیا ہے کہ اٰتُوا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ’’اللہ کا حق فصل کاٹنے کے دن ادا کرو۔‘‘
(۲۰) اس کا جواب نمبر 19 میں گزر چکا ہے۔
(۲۱) چونکہ آج کل تمام مالی معاملات اور حساب کتاب شمسی سال کے لحاظ سے ہو رہے ہیں، اس لیے زکوٰۃ کے معاملے میں بھی شمسی سال ہی استعمال کیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ قمری سال کا وجوب اس معاملے میں کسی نص سے ثابت نہیں ہے۔
تحصیل زکوٰۃ کے لیے کوئی خاص مہینہ شرعاً مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت جس تاریخ سے زکوٰۃ کی تحصیل کا انتظام شروع کرے اسی سے سال کا آغاز ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
(۲۲) و (۳۲) قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ مصرف بیان کیے گئے ہیں : فقراء، مساکین، عاملین زکوٰۃ، مؤلفہ القلوب، رقاب، غارمین، فی سبیل اللہ، ابن السبیل۔
فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی بسر اوقات کے لیے دوسروں کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے، خواہ وہ بڑھاپے یا کسی جسمانی نقص کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہو گئے ہوں، یا کسی عارضی سبب سے سرِدست مدد کے محتاج ہوں اور کچھ سہارا پا کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں، جیسے یتیم بچے، بیوہ عورتیں، بے روزگار لوگ، اور وہ لوگ جو کسی وقتی حادثے کے شکار ہوگئے ہوں۔
مسکین کی تشریح حدیث میں یہ آئی ہے کہ اَلَّذِیْ لَا یَجِدُ غِنًی یُغْنِیْہِ وَلَا یُفْطَنُ لَہٗ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہِ وَلَا یَقُوْمُ فَیَسْأَلُ النَّاسَ۔ ’’جو نہ اپنی حاجت بھرمال پاتا ہے، نہ پہچانا جاتا ہے کہ لوگ اس کی مدد کریں، نہ کھڑے ہو کر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔‘‘ اس لحاظ سے مسکین اس شریف آدمی کو کہتے ہیں جو اپنی روزی کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہو مگر اپنی ضرورت کے قابل روزی نہ پاسکتا ہو۔ لوگ اسے برسرِ روزگار پا کر اس کی مدد نہیں کرتے اور وہ اپنی شرافت کی وجہ سے مدد مانگتا نہیں پھرسکتا۔
عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کی تحصیل، تقسیم اور اس کے حساب کتاب کا انتظام کرتے ہوں ۔ وہ صاحبِ نصاب ہوں یا نہ ہوں، ہرحال میں وہ اس مد سے اپنے کام کی تنخواہ پائیں گے۔
مؤلفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اسلام اور اسلامی مملکت کے مفاد کی مخالفت سے روکنا، یا اس کے مفاد کی خدمت پر آمادہ کرنا مقصود ہو اور اس غرض کے لیے مال دے کر ان کی تالیفِ قلب کرنے کے سوا چارہ نہ ہو۔ یہ لوگ کافر بھی ہو سکتے ہیں، اور ایسے مسلمان بھی جن کا اسلام انہیں اسلامی مفاد کی خدمت پر ابھارنے کے لیے کافی نہ ہو۔ نیز یہ لوگ اسلامی مملکت کے باشندے بھی ہوسکتے ہیں اور کسی بیرونی مملکت کے بھی۔ اس قسم کے لوگ اگر صاحبِ نصاب بھی ہوں تو ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے بشرطیکہ اسلامی حکومت اس کی ضرورت محسوس کرے۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق نہیں ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو چکا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس بارے میں جو رائے قائم کی تھی وہ ان کے اپنے زمانے کے لیے تھی نہ کہ آئندہ تمام زمانوں کے لئے۔
رقاب سے مراد غلام ہیں۔ غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے زکوٰۃ دینا اس مد میں شامل ہے۔ اگر کسی زمانے میں غلام موجود نہ ہوں تو یہ مد ساقط رہے گی۔
غارمین سے مراد ایسے قرض دار لوگ ہیں جو اگر اپنا پورا قرض ادا کر دیںتو ان کے پاس بقدرِ نصاب مال باقی نہ رہے۔ ایسے لوگ کمانے والے بھی ہوسکتے ہیں اور بے روزگار بھی۔
فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے خواہ وہ تلوار سے ہو یا قلم و زبان سے، یا ہاتھ پائوں کی محنت اور دوڑ دھوپ سے۔ سلف میں سے کسی نے بھی اس لفظ کو رفاہِ عام کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ ان کے نزدیک بالاتفاق اس کا مفہوم ان مساعی تک محدود ہے جو خدا کے دین کو قائم کرنے، اس کی اشاعت کرنے اور اسلامی مملکت کا دفاع کرنے کے لیے کی جائیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر ۔ ایسا شخص خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن اگر حالتِ سفر میں وہ مدد کا حاجت مند ہو جائے تو زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔
(۲۴) یہ ضروری نہیںہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان تمام مصارف میں صرف کی جائے جو قرآن میں مقرر کئے گئے ہیں۔ حکومت حسبِ موقع و ضرورت ان میں سے جن جن مصارف میں جس جس قدر مناسب سمجھے خرچ کرسکتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ضرورت پڑ جائے تو ایک ہی مصرف میں ساری زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے۔
(۲۵) مستحقینِ زکوٰۃ میں سے فقیر اور مسکین اس صورت میں زکوٰۃ لے سکتا ہے جبکہ وہ صاحبِ نصاب نہ ہو۔ عاملین اور مؤلفۃ القلوب صاحبِ نصاب ہوں تب بھی ان کو زکوٰۃ کی مد سے دیا جاسکتا ہے۔ غلامؔ کا غلام ہونا بجائے خود اسے اس بات کا مستحق بناتا ہے کہ اس کی آزادی پر زکوٰۃ صرف کی جائے۔ قرضدار اس حالت میں زکوٰۃ لے سکتا ہے جبکہ وہ اپنا پورا قرض ادا کر کے صاحبِ نصاب نہ رہ سکتا ہو۔ راہِ خدا میں جہاد کرنے والے اگر بجائے خود صاحبِ نصاب بھی ہوں تو جہاد کے مصارف کے لیے انہیں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ ابن السبیل ایسی صورت میں زکوٰۃ پاسکتا ہے جب کہ وہ حالتِ سفر میں مدد کا محتاج ہو۔
بنی ہاشم پر زکوٰۃ لینا حرام ہے۔ مگر آج پاکستان میں یہ تحقیق کرنا بہت مشکل ہے کہ کون ہاشمی ہے اور کون نہیں ہے۔ اس لیے حکومت تو ہر شخص کو زکوٰۃ دے گی جو اس کا حاجت مند نظر آئے۔ یہ لینے والے کا اپنا کام ہے کہ اگر وہ اپنے ہاشمی ہونے کا یقین رکھتا ہو تو زکوٰۃ نہ لے۔
(۲۶) زکوٰۃ جب حکومت کے خزانے میں جمع ہو جائے تو وہ افراد اور اداروں سب کو دے سکتی ہے اور خود بھی زکوٰۃ سے ایسے ادارے قائم کرسکتی ہے جو مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق ہوں۔
(۲۷) جو لوگ زکوٰۃ کے مستقل یا عارضی طور پر محتاج ہوں ان کو مستقل طور پر یا عارضی طور پر وظائف دیے جاسکتے ہیں۔
(۲۸) مصارفِ زکوٰۃ کی مد فی سبیل اللہ اتنی عام نہیں ہے کہ ’’رفاہِ عام‘‘ کی ہم معنی قرار پائے۔
(۲۹) زکوٰۃ کی مد سے قرض حسن دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بلکہ موجودہو حالات میں حاجت مند لوگوں کو قرض دینے کے لیے بیت المال میں ایک مد مخصوص کر دینا ہمارے نزدیک مستحسن ہے۔
(۳۰) عام حالات میں تو یہی مناسب ہے کہ ایک علاقے کی زکوٰۃ اسی علاقے کے حاجت مندوں پر صرف کی جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں ایک مرتبہ رے کی زکوٰۃ کوفہ منتقل کر دی گئی تو انہوں نے حکم دیا کہ وہ رے واپس کی جائے۔ (کتاب الاموال، ص 590) البتہ اگر دوسرے کسی علاقے میں کوئی زیادہ شدید ضرورت پیش آجائے تو ایسے علاقوں کی زکوٰۃ ، جہاں زکوٰۃ کے بقایا موجود ہوں، یا جہاں کی ضروریات کم تر درجے کی ہوں، ضرورت مند علاقے میں جا کر صرف کی جاسکتی ہے۔ ملک سے باہر بھی اگر کوئی بڑی مصیبت پیش آ جائے تو انسانی ہمدردی اور تالیفِ قلوب کی خاطر زکوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے ، مگر اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ خود ملک کے اندر جو حاجت مند ہیں وہ محروم نہ رہ جائیں۔
علاقے سے مراد انتظامی حلقے ہیں۔ اس سے مراد ضلع، قسمت اور صوبہ تینوں ہوسکتے ہیں۔ ملک کے لحاظ سے ایک علاقہ صوبہ ہوگا۔ صوبہ کے لحاظ سے قسمت اور قسمت کے لحاظ سے ضلع۔
(۳۱) متوفی کے ترکے سے پہلے وہ قرضے ادا کیے جائیں گے جو اس نے دوسرے لوگوں سے لیے ہوں، پھر زکوٰۃ کے بقایا، پھر وصیت، اور اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ وارثوں میں تقسیم ہوگا۔ صاحبِ مال کی موت کی وجہ سے اس کی زکوٰۃ ساقط نہیں ہوجاتی۔ اس نے چاہے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، وہ اس کے مال میں سے نکالی جائے گی۔ عطا، زہری، قتادہ، امام مالک، امام شافعی، امام محمد، اسحاق بن راہویہ اور ابوثور کی رائے قریب قریب یہی ہے۔ بعض فقہاء نے یہ رائے دی ہے کہ اگر صاحب مال نے زکوٰۃ کے لیے وصیت کی ہو تو وہ نکالی جائے گی ورنہ نہیں۔ مگر ہمارے رائے میں اس کا تعلق صرف اموال باطنہ سے ہے، کیوں کہ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ صاحبِ مال نے اپنی موت سے پہلے زکوٰۃ نکال دی ہو اور دوسروں کو اس کی خبر نہ ہو۔ لیکن جب کہ اموالِ ظاہر ہ کی زکوٰۃ وصول کرنے کا باقاعدہ انتظام حکومت کر رہی ہو، تو ایسا کوئی ’’احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے زکوٰۃ کے بقایا اس شخص کے ذمے بمنزلہ قرض ہوں گے۔ پہلے اس کے مال میں سے افراد کا قرض وصول کیا جائے اور اس کے بعد خدا اور جماعت کا۔
(۳۲) زکوٰۃ سے بچنے کے حیلوں کا علاج تین طریقوں سے ہوسکتا ہے:
اول یہ کہ حکومت کا انتظام ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو رشوتیں نہ کھائیں، زکوٰۃ کی تحصیل اور تقسیم میں جانبداری اور بددیانتی سے کام نہ لیں ، اور اموالِ زکوٰۃ کا بڑا حصہ اپنی ہی تنخواہوں اور الائونسوں پرصرف نہ کردیں۔ محصلین کی دیانت لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرے گی کہ ان کی زکوٰۃ صحیح طریقے سے وصول اور صحیح مصارف میں صرف کی جائے گی، اس لیے وہ ادائے زکوٰۃ سے بچنے کی کوشش نہ کریں گے۔
دوم یہ کہ اجتماعی اخلاق کی اصلاح کی جائے اور لوگوں کی سیرت و کردار کو خدا کی محبت اور اس کے خوف پر تعمیر کیاجائے۔حکومت کا کام صرف انتظام ملک اور دفاعِ ملک تک ہی محدود نہ رہے بلکہ وہ عوام کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دے۔
سوم یہ کہ زکوٰۃ سے بچنے کی عام اور ممکن التصور صورتوں کے خلاف قوانین بنائے جائیں۔ مثلاً جو شخص اپنے قابلِ زکوٰۃ اموال کو ختم سال سے پہلے کسی غیر معمولی مقدار میں اپنے کسی عزیز کے نام منتقل کرے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور بارِ ثبوت اس پر ڈالا جائے کہ اس نے یہ انتقال زکوٰۃ سے بچنے کے لیے نہیں کیا ہے۔
(۳۳) ہماری رائے میں زکٰوۃ کی تحصیل و تقسیم کا انتظام صوبوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور مرکز کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ ایک صوبے کی وافر زکٰوۃ دوسرے ایسے صوبوں میں بھجوا سکے جہاں کی زکوٰۃ معمولی یا غیر معمولی مقامی ضرورتوں کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو۔ نیز مرکز کو یہ بھی اختیار ہونا چاہیے کہ اگر زکوٰۃ کی مد سے کچھ ایسے ادارے قائم کرنے یا کچھ ایسے کام کرنے کی ضرورت پیش آئے جن کا تعلق ملک کے اندر اور باہر ’’فی سبیل اللہ‘‘ خدمات انجام دینے سے ہو، یا ملک کے باہر غیر معمولی مصائب کے موقع پر مدد بھیجنے کی ضرورت ہو، تو وہ صوبوں سے ان کی زکوٰۃ کا ایک حصہ طلب کرسکے۔
(۳۴) ہمارے نزدیک زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے کوئی الگ محکمہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مختلف اقسام کی زکوٰۃ وصول کرنا ایسے محکموں کے سپرد ہونا چاہیے۔ جن کے فرائض اسی قسم کے دوسرے ٹیکس وصول کرنے سے متعلق ہیں۔ مثلاً زرعی زکوٰۃ اور مواشی کی زکوٰۃ وصول کرنا محکمہ مال کے سپرد ہو۔ اموالِ تجارت کی زکوٰۃ انکم ٹیکس کا محکمہ وصول کرے۔ کارخانوں کی زکوٰۃ اکسائز کا محکمہ، و علیٰ ہذا القیاس۔ زکوٰۃ کی حفاظت سرکاری خزانے کے سپرد اور اس کا حساب اکائونٹینٹ جنرل کے محکمے کے سپرد ہو۔
اگر ہماری سفارش کے مطابق زکوٰۃ کو صوبوں کے انتظام میں دیا جائے اور تحصیل زکوٰۃ کے کسی شعبے کا کام کسی ایسے محکمے کے حوالے کرنا پڑے جو مرکزی محکمہ ہو، تو باہمی قرارداد سے یہ انتظام کیا جاسکتا ہے کہ تحصیل زکوٰۃ کی حد تک اس محکمے کے مصارف صوبہ ادا کر دیا کرے۔
البتہ زکوٰۃ کی تقسیم اور مصارفِ زکوٰۃ میں اموالِ زکوٰۃ کو خرچ کرنے کے لیے ایک الگ محکمہ قائم ہونا ضروری ہے جسے کسی ایسے وزیر کے ماتحت رکھا جائے جو اوقاف اور دوسرے مذہبی اداروں کی نگرانی کا کام بھی کرتا ہو۔
(۳۵) یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ زکوٰۃ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک ’’مالی عبادت ‘‘ ہے۔ ’’ٹیکس‘‘ اور ’’عبادت‘‘ میں بنیادی تصور اور اخلاقی روح کے اعتبار سے زمین و آسما ن کا فرق ہے۔ حکومت کے کارندوں اور زکوٰۃ دینے والوں میں اگر ’’عبادت‘‘ کے بجائے ’’ٹیکس‘‘ کی ذہنیت پیدا ہو جائے تو یہ ان اخلاقی روحانی فوائد کو بالکل ہی ضائع کر دے گی جو زکوٰۃ سے اصل مقصود ہیں، اور اجتماعی فوائد کو بھی بہت بڑی حد تک نقصان پہنچائے گی۔ حکومت کے سپرد زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ ایک سرکاری محصول ہے، بلکہ دراصل اس عبادت کا انتظام اس وجہ سے حکومت کے سپرد کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تمام اجتماعی عبادات میں نظم پیدا کرنا ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ اور امارتِ حج بھی اسی طرح اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے جس طرح تحصیل و تقسیم زکوٰۃ۔
(۳۶) حدیث میں اصول بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ فِی الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکٰوۃِ ، ’’آدمی کے مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق ہے۔‘‘ اس اصولی ارشاد کی موجودگی میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کیا ایک اسلامی حکومت زکوٰۃ کے سوا دوسرے محاصل عائد کرسکتی ہے۔ پھر جب کہ قرآن میں زکوٰۃ کے لیے چند مخصوص مصارف معین کر دیئے گئے ہیں تو لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان مصارف کے ماسوا جو دوسرے فرائض حکومت کے ذمے عائد ہوں ان کو بجا لانے کے لیے وہ دوسرے محاصل پبلک پر عائد کرے۔ نیز قرآن میں یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ کہو عفو۔‘‘ عفو کا لفظ (economic surplus) کا ہم معنی ہے اور اس میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ’’عفو‘‘ ٹیکس کا صحیح محل ہے۔ مزید برآں ایسے نظائربھی موجود ہیں کہ خلفائے راشدین کے عہد میں دوسرے محاصل عائد کیے گئے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کے عہد میں محصولِ درآمد مقرر کیا گیا اور اس کا شمار ’’زکوٰۃ‘‘ میں نہیں بلکہ ’’فے‘‘ (حکومت کی عام آمدنیوں) میں تھا۔ علاوہ بریں شریعت میں کوئی ایسی ہدایت موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ حکومت اجتماعی ضروریات کے لیے کوئی دوسرا ٹیکس نہیں لگا سکتی ، اور اصول یہ ہے کہ جس چیز سے منع نہ کیا گیا ہو وہ مباح ہے ۔ فقہائے اسلام میں سے بھی، جہاں تک ہم کو معلوم ہے، ایک غیر معروف شخصیت ضحاک بن مزاحم کے سوا کوئی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ نَسَخَتِ الزَّکوٰۃُ کُلَّ حَقٍّ فِی الْمَالِ (زکوٰۃ نے مال میں ہر دوسرے حق کو منسوخ کر دیا ہے) ضحاک کی اس رائے کو کسی قابلِ ذکر فقیہ نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
(المحلی لابن حزم، ج 2، ص 158)
(۳۷) صدرِ اول میں حکومت کی طرف سے محصلین مقرر تھے جو اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ ان مقامات پر خود ہی جا کر وصول کرتے تھے جہاں وہ اموال ہوں۔ زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے الگ خزانے نہیں تھے بلکہ حکومت کے خزانۂ عامہ ہی میں وہ جمع ہوتی تھی، البتہ اس کا حساب کتاب الگ رہتا تھا۔ اور زکوٰۃ کی تقسیم حکومت کے وہ عمال کرتے تھے جن کے سپرد دوسری سرکاری خدمات بھی ہوتی تھیں ۔ تقسیم زکوٰۃ کے لیے کسی الگ محکمے کا وجود ہمارے علم میں نہیں ہے۔ لیکن یہ ایسے انتظامی معاملات ہیں جن میں آج کے احوال و ضروریات کے لحاظ سے ہم جس طرح مناسب سمجھیں عملی صورتیں اختیار کرسکتے ہیں۔
موجودہ مسلم حکومتوں کے متعلق ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کسی نے زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا باقاعدہ انتظام کیا ہو۔
(۳۸) ہماری رائے میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا انتظام اسلامی حکومت ہی کو کرنا چاہیے۔
(۳۹) زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کرنے والے عملے کی حیثیت تنخواہوں، الائونسوں، پنشنوں اور شرائطِ ملازمت کے لحاظ سے دوسرے سرکاری ملازمین سے مختلف نہ ہونی چاہیے۔ البتہ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے معاملے میں حکومت کو اپنے طریقِ کار میں بنیادی تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ موجودہ افراط و تفریط اگر بحال رہے تو نہ زکوٰۃ کی تحصیل صحیح طریقے سے ہوسکے گی اور نہ اس کی تقسیم۔

شیئر کریں