قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقات کے لیے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ’’خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔‘‘ بعض بعض مقامات پر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم راہ خدا میں صرف کرتے ہو یہ اللہ کے ذمہ قرضہ حسنہ ہے۔ گویا تم اللہ کو قرض دیتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارا قرض دار ہو جاتا ہے۔ بکثرت مقامات پر یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم دو گے اس کا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے اور وہ صرف اتنا ہی تم کو واپس نہ کرے گا بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ دے گا۔ اس مضمون پر غور کیجئے۔ کیا زمین و آسمان کا مالک، نعوذ باللہ آپ کا محتاج ہے؟ کیا اس ذات پاک کو آپ سے قرض لینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ پادشاہوں کا پادشاہ، وہ بے حد و حساب خزانوں کا مالک، اپنے لیے آپ سے کچھ مانگتا ہے؟ معاذ اللہ، معاذ اللہ۔ اسی کی بخشش پر تو آپ پل رہے ہیں۔ اسی کا دیا ہوا رزق تو آپ کھاتے ہیں۔ آپ میں سے ہر امیر اور غریب کے پاس جو کچھ ہے سب اسی کا تو عطیہ ہے۔ آپ کے ایک فقیر سے لے کر ایک کروڑ پتی اور ارب پتی تک ہر شخص اس کے کرم کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کو کیا ضرورت کہ آپ سے قرض مانگے اور اپنی ذات کے لیے آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے؟ دراصل یہ بھی اس کی شان کریمی ہے کہ وہ آپ سے خود آپ ہی کے فائدے کے لیے آپ ہی کی بھلائی کے لئے، آپ ہی کے کام میں خرچ کرنے کو فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ خرچ میری راہ میں ہے، مجھ پر قرض ہے، میرے ذمہ اس کا بدلہ ہے اور میں تمہارا احسان مانتا ہوں۔ تم اپنی قوم کے محتاجوں اور مسکینوں کو دو۔ اس کا بدلہ وہ غریب کہاں سے دیں گے، ان کی طرف سے میں دوں گا۔ تم اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرو ۔ اس کا احسان ان پر نہیں مجھ پر ہے، میں تمہارے اس احسان کو اتاروں گا۔ تم اپنے یتیموں، اپنی بیوائوں، اپنے معذوروں، اپنے مسافروں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جو کچھ دو اسے میرے حساب میں لکھ لو۔ تمہارا مطالبہ ان کے ذمے نہیں، میرے ذمے ہے اور میں اس کو ادا کروں گا۔ تم اپنے پریشان حال بھائیوں کو قرض دو اور ان سے سود نہ مانگو ، ان کو تنگ نہ کرو، اگر وہ ادا کرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کو سول جیل نہ بھجوائو، ان کے کپڑے اور گھر کے برتن قرق نہ کرائو۔ ان کے بال بچوں کوگھر سے بے گھر نہ کر دو۔ تمہارا قرض ان کے ذمے نہیں، میرے ذمہ ہے۔ اگر وہ اصل ادا کر دیں گے تو ان کی طرف سے سود میں ادا کروں گا اور اگر وہ اصل بھی ادا نہ کرسکیں گے تو میں اصل اور سود دونوں تمہیں دوں گا۔ اسی طرح اپنی جماعتی فلاح کے کاموں میں، اپنے ابنائے نوع کی بھلائی اور بہتری کے لیے، جو کچھ تم خرچ کرو گے، اس کا فائدہ اگرچہ تمہی کو ملے گا، مگر اس کا احسان مجھ پر ہوگا۔ میں اس کی پائی پائی منافع سمیت تمہیں واپس دوں گا۔
آپ جانتے ہیں کہ انسان کچھ اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے ظلوم و جہول واقع ہوا ہے۔ اس کی نظر تنگ ہے۔ یہ زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا دل چھوٹا ہے ۔ زیادہ بڑے اور اونچے خیالات اس میں کم ہی سما سکتے ہیں۔ یہ خود غرض واقع ہوا ہے۔ اور اپنی غرض کا بھی کوئی وسیع تصور اس کے دماغ میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ جلد باز بھی ہے ۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَـجَلٍ، یہ ہر چیز کا نتیجہ اور فائدہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے اور اسی نتیجے کو نتیجہ اور اسی فائدے کو فائدہ سمجھتا ہے جو جلدی سے اس کے سامنے آجائے اور اس کو محسوس ہو جائے۔ دور رس نتائج تک اس کی نگاہ نہیں پہنچتی، اور بڑے پیمانے پر جو فائدے حاصل ہوتے ہیں جن فائدوں کا سلسلہ بہت دور تک چلتا ہے، ان کا ادراک تو اسے مشکل ہی سے ہوتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ہوتا ہی نہیں۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ اور اس کمزوری کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں یہ اپنے ذائی فائدے کو دیکھتا ہے اور فائدہ بھی وہ جو بہت چھوٹے پیمانے پر ہو، جلدی سے حاصل ہو جائے اور اس کو محسوس ہو جائے ۔ یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں نے کمایا ہے، یا جو کچھ مجھے اپنے باپ دادا سے ملا ہے وہ میرا ہے، اس میں کسی کا حصہ نہیں ۔ اس کو میری ضروریات پر، میری خواہشات پر، میری آسائش اور میری لذتِ نفس ہی پر خرچ ہونا چاہیے، یا کسی ایسے کام میں خرچ ہونا چاہیے جس کا نفع جلدی سے محسوس صورت میں میرے پاس پلٹ آئے۔ میں روپیہ صرف کروں تو اس کے بدلے میں یا تو میرے پاس اس سے زیادہ روپیہ آنا چاہیے، یا میری آسائش میں مزید اضافہ ہونا چاہیے، یا کم از کم یہی ہو کہ میرا نام بڑھے، میری شہرت ہو، میری عزت بڑھے، مجھے کوئی خطاب ملے، اونچی کرسی ملے، لوگ میرے سامنے جھکیں، اور زبانوں پر میرا چرچا ہو ، اگر ان باتوں میں سے کچھ بھی مجھے حاصل نہیں ہوتا تو آخر میں کیوں اپنا مال اپنے ہاتھ سے دوں؟ قریب میں کوئی یتیم بھوکا مر رہا ہے یا آوارہ پھر رہا ہے تو میں کیوں اس کی خبر گیری کروں؟ اس کا حق اس کے باپ پر تھا، اسے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جانا چاہیے تھا، یا انشورنس کرانا چاہیے تھا۔ کوئی بیوہ اگر میرے محلے میں مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے تو مجھے کیا؟ اس کے شوہر کو اس کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ کوئی مسافر اگر بھٹکتا پھر رہا ہے تو مجھ سے کیا تعلق؟ وہ بیوقوف اپنا انتظام کیے بغیر گھر سے کیوں نکل کھڑا ہوا؟ کوئی شخص اگر پریشان حال ہے تو ہوا کرے، اسے بھی اللہ نے میری ہی طرح ہاتھ پائوں دیے ہیں، اپنی ضرورتیں اسے خود پوری کرنی چاہئیں، میں اس کی کیوں مدد کروں؟ میں اسے دوں گا تو قرض دوں گا اور اصل کے ساتھ سود بھی وصول کروں گا۔ کیونکہ میرا روپیہ کچھ بیکار تو ہے نہیں۔ میں اس سے مکان بنواتا، یا موٹر خریدنا، یا کسی نفع کے کام پر لگاتا ۔ یہ بھی اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہی اٹھائے گا۔ پھر کیوں نہ میں اس فائدے میں سے اپنا حصہ وصول کروں؟
اس خود غرضانہ ذہنیت کے ساتھ اول تو روپے والا آدمی خزانے کا سانپ بن کر رہے گا۔ یا خرچ کرے گا تو اپنے ذاتی فائدے کے لیے کرے گا۔ جہاں اس کو اپنا فائدہ نظر نہ آئے گا وہاں ایک پیسہ بھی اس کی جیب سے نہ نکلے گا۔ اگر کسی غریب آدمی کی اس نے مدد کی بھی تو دراصل اس کی مدد نہ کرے گا، بلکہ اس کو لوٹے گا، اور جو کچھ اسے دے گا اس سے زیادہ وصول کرلے گا۔ اگر کسی مسکین کو کچھ دے گا تو اس پر ہزاروں احسان رکھ کر اس کی آدھی جان نکال لے گا اور اس کی اتنی تذلیل و تحقیر کرے گا کہ اس میں کوئی خود داری باقی نہ رہ سکے گی۔ اگر کسی قومی کام میں حصہ لے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھ لے گا کہ اس میں میرا ذاتی فائدہ کس قدر ہے۔ جن کاموں میں اس کی اپنی ذات کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ سب اس کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔
اس ذہنیت کے نتائج کیا ہیں؟ اس کے نتائج صرف اجتماعی زندگی ہی کے لیے مہلک نہیں ہیں بلکہ آخر کار خو داس شخص کے لیے بھی نقصان دہ ہیں جو تنگ نظری اور جہالت کی وجہ سے اس کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتا ہے۔ جب لوگوں میں یہ ذہنیت کام کر رہی ہو تو تھوڑے اشخاص کے پاس دولت سمٹ سمٹ کر اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے اور بے شمار اشخاص بے وسیلہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دولتمند لوگ روپے کے زور سے روپیہ کھینچتے رہتے ہیں اور غریب لوگوں کی زندگی روز بروز تنگ ہوتی جاتی ہے۔ افلاس جس سوسائٹی میں عام ہو وہ طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوتی ہے ۔ اس کی جسمانی صحت خراب ہوتی ہے۔ اس میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس میں کام کرنے اور دولت پیدا کرنے کی قوت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں جہالت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے اخلاق گرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرنے لگتی ہے اور آخر کار یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ وہ لوٹ مار پر اتر آتی ہے۔ عام بلوے ہوتے ہیں۔ دولت مند لوگ قتل کیے جاتے ہیں، ان کے گھر بار لوٹے اور جلائے جاتے ہیں اور وہ اس طرح تباہ و برباد ہوتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہیں رہتا۔
اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوسکتا ہے کہ درحقیقت ہر شخص کی بھلائی اس جماعت کی بھلائی کے ساتھ وابستہ ہے جس کے دائرے میں وہ رہتا ہے۔ آپ کے پاس جو دولت ہے اگر آپ اس میں سے اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کریں گے تو یہ دولت چکر لگاتی ہوئی بہت سے فائدوں کے ساتھ پھر آپ کے پاس پلٹ آئے گی۔ اور اگر آپ تنگ نظری کے ساتھ اس کو اپنے پاس جمع رکھیں گے یا صرف اپنے ہی ذاتی فائدے پر خرچ کریں گے تو یہ بالآخر گھٹتی چلی جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے ایک یتیم بچے کی پرورش کی اور اسے تعلیم دے کر اس قابل بنا دیا کہ وہ آپ کی جماعت کا ایک کمانے والا فرد بن جائے گا تو گویا آپ نے جماعت کی دولت میں اضافہ کیا، اور ظاہر ہے کہ جب جماعت کی دولت بڑھے گی تو آپ، جو جماعت کے ایک فرد ہیں، آپ کو بھی اس دولت میں سے بہرحال حصہ ملے گا،خواہ آپ کو کسی حساب سے یہ معلوم نہ ہوسکے کہ یہ حصہ آپ کو اس خاص یتیم کی قابلیت سے پہنچا ہے جس کی آپ نے مدد کی تھی۔ لیکن اگر آپ نے خود غرضی اور تنگ نظری سے کام لے کر یہ کہا کہ میں اس کی مدد کیوں کروں، اس کے باپ کوا س کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑنا چاہیے تھا، تو وہ آوارہ پھرے گا، ایک بیکار آدمی بن کر رہ جائے گا، اس میں یہ قابلیت ہی پیدا نہ ہوسکے گی کہ اپنی محنت سے جماعت کی دولت میں کوئی اضافہ کرسکے۔ بلکہ کچھ عجب نہیں کہ وہ جرائم پیشہ بن جائے اور ایک روز خود آپ کے گھر میں نقب لگائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ نے اپنی جماعت کے ایک شخص کو بیکار اور آوارہ اور جرائم پیشہ بنا کر اس کا ہی نہیں، خود اپنا بھی نقصان کیا۔ اس ایک مثال پر قیاس کر کے آپ ذرا وسیع نظر سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جو شخص بے غرضی کے ساتھ جماعت کی بھلائی کے لیے روپیہ صرف کرتا ہے، اس کا روپیہ ظاہر میں تو اس کی جیب سے نکل جاتا ہے، مگر باہر وہ بڑھتا اور پھلتا پھولتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آخر میں وہ بے شمار فائدوں کے ساتھ اسی کی جیب میں واپس آتا ہے جس سے وہ کبھی نکلا تھا۔ اور جو شخص خودغرضی اور تنگ نظری کے ساتھ روپے کو اپنے پاس روک رکھتا ہے اور جماعت کی بھلائی پر خرچ نہیں کرتا، وہ ظاہر میں تو اپنا روپیہ محفوظ رکھتا ہے، یا سود کھا کر اسے اور بڑھاتا ہے۔ مگر حقیقت میں اپنی حماقت سے اپنی دولت گھٹاتا ہے اور اپنے ہاتھوںاپنی بربادی کا سامان کرتا ہے۔ یہی راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ البقرہ 276:2
اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo الروم39:30
تم جو سود دیتے ہو اس غرض کے لیے کہ یہ لوگوں کی دولت بڑھائے دراصل اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی، البتہ جو زکوٰۃ تم محض خدا کی رضا جوئی کے لیے دو، وہ دوگنی چوگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن اس راز کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں انسان کی تنگ نظری اور اس کی جہالت مانع ہے۔ یہ محسوسات کا بندہ ہے۔ جو روپیہ اس کی جیب میں ہے اس کو تو یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کی جیب میں ہے۔ جو روپیہ اس کے بہی کھاتے کی رو سے بڑھ رہا ہے، اس کو بھی یہ جانتا ہے کہ واقعی بڑھ رہا ہے ۔ مگر جو روپیہ اس کے پاس سے چلا جاتا ہے اس کو یہ نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کہاں بڑھ رہا ہے، کس طرح بڑھ رہا ہے، کتنا بڑھ رہا ہے، اور کب اس کے پاس فائدوں اور منافع کے ساتھ واپس آتا ہے۔ یہ تو بس یہی سمجھتا ہے کہ اس قدر روپیہ میرے پاس سے گیا اور ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
اس جہالت کے بند کو آج تک انسان اپنی عقل یا اپنی کوشش سے نہیں کھول سکا۔ تمام دنیا میں یہی حال ہے، ایک طرف سرمایہ داروں کی دنیا ہے جہاں سارے کام سود خوری پر چل رہے ہیں اور دولت کی کثرت کے باوجود روز بروز مصیبتوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف ایک ایسا گروہ پیدا ہو چکا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے دل میں غصے کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ سرمایہ داروں کے خزانوں پر ڈاکہ مارنے کے ساتھ انسانی تہذیب و تمدن کی ساری بساط بھی الٹ دینا چاہتا ہے۔
اس پیچیدگی کو اس حکیم و دانا ہستی نے حل کیا ہے جس کی کتاب پاک کا نام قرآن ہے۔ اس قفل کی کنجی ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر ہے۔ اگر آدمی خدا پر ایمان لے آئے اور یہ جان لے کہ زمین و آسمان کے خزانوں کا اصل مالک خدا ہے، اور انسانی معاملات کا انتظام اصل میں خدا ہی کے ہاتھ میں ہے، اور خدا کے پاس ایک ایک ذرے کا حساب ہے، اور انسان کی ساری بھلائیوں اور برائیوں کی آخری جزا و سزا ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق آخرت میں ملے گی، تو اس کے لیے یہ بالکل آسان ہو جاتا ہے کہ اپنی نظر پر بھروسہ کرنے کے بجائے خدا پر بھروسہ کرے اور اپنی دولت کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ کرے، اور اس کے نفع و نقصان کو خدا پر چھوڑ دے۔ اس ایمان کے ساتھ وہ جو کچھ خرچ کرے گا وہ دراصل خدا کو دے گا۔ اس کا حساب کتاب بھی خدا کے بہی کھاتے میں لکھا جائے گا۔ خواہ دنیا میں کسی کو اس کے احسان کا علم ہو یا نہ ہو، مگر خدا کے علم میں وہ ضرور آئے گا۔ اور خواہ کوئی اس کا احسان مانے یا نہ مانے خدا اس کے احسان کو ضرور مانے اور جانے گا۔ اور خدا کا جب وہ وعدہ ہو چکا ہے کہ وہ اس کا بدلہ دے گا تو یقین ہے کہ وہ اس کا بدلہ ضرور دے گا، خواہ آخرت میں دے، یا دنیا اور آخرت دونوں میں دے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ پہلے تو نیکی اور بھلائی کے کاموں کا ایک عام حکم دیا جاتا ہے تا کہ لوگ اپنی زندگی میں عموماً بھلائی کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر اسی بھلائی کی ایک خاص صورت بھی تجویز کر دی جاتی ہے تا کہ اس کی خاص طور پر پابندی کی جائے۔
بس ایسا ہی معاملہ زکوٰۃ کا بھی ہے۔ یہاں بھی ایک حکم عام ہے اور ایک خاص، ایک طرف تو یہ ہے کہ بخل اور تنگ دلی سے بچو کہ یہ برائیوں کی جڑ اور بدیوں کی ماں ہے۔ اپنے اخلاق میں اللہ کا رنگ اختیار کرو جو ہر وقت بے حد و حساب مخلوق پر اپنے فیض کے دریا بہا رہا ہے، حالانکہ کسی کا اس پر کوئی حق اور دعویٰ نہیں ہے ۔ راہِ خدا میں جو کچھ خرچ کرسکتے ہو کرو۔ اپنی ضرورتوں سے جتنا بچا سکتے ہو بچائو اور اس سے خدا کے دوسرے ضرورت مند بندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ دین کی خدمت میں اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں جان اور مال سے کبھی دریغ نہ کرو۔ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو مال کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کر دو۔ یہ تو ہے عام حکم اور اس کے ساتھ ہی خاص حکم یہ ہے کہ اس قدر مال اگر تمہارے پاس جمع ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا خدا کی راہ میں ضرور صرف کرو، اور اتنی پیداوار تمہاری زمین میں ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا حصہ تو ضرور خدا کی نذر کر دو۔ پھر جس طرح چند رکعت نماز فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہ رکعتیں پڑھتے وقت ہی خدا کو یاد کرو اور باقی سارے وقتوں میں اس کو بھول جائو، اسی طرح مال کی ایک چھوٹی سی مقدار راہِ خدا میں صرف کرنا جو فرض کیا گیا ہے، اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے پاس اتنا مال ہو بس انہی کو راہِ خدا میں صرف کرنا چاہیے، اور جو اس سے کم مال رکھتے ہوں انہیں اپنی مٹھیاں بھینچ لینی چاہئیں۔ اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مالدار لوگوں پر جتنی زکوٰۃ فرض کی گئی ہے بس وہ اتنا ہی خدا کی راہ میں صرف کریں، اور اس کے بعد کوئی ضرورت مند آئے تو اسے جھڑک دیں، یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آئے تو کہہ دیں کہ ہم تو زکوٰۃ دے چکے، اب ہم سے ایک پائی کی بھی امید نہ رکھو۔ زکوٰۃ فرض کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ کم از کم اتنا مال تو ہر مال دار کو راہِ خدا میں دینا ہی پڑے گا اور اس سے زیادہ جس شخص سے جو کچھ بن آئے وہ اس کو صرف کرنا چاہیے۔