سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق اقتصادی، فوجی، ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بینک سے شرح سود پرقرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟ پھر مادی، صنعتی، زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ (advanced) ممالک اور مشرقی وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں (have) اور (have not) کے درمیان حائل ہے کس طرح پُر ہوسکے گی؟ نیز کیا اندرونِ ملک تمام بینکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع و ربح اور گڈول (good will) اور خرید و فروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟ کیا اسلامی ممالک آپس میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں قرض کا لین دین کرسکتے ہیں؟
جواب: اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیر مسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔ لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی ان کی شرائط پر۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یہ تعلق اس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سدھارنے کی کوشش کرے گی۔اخلاقی حالت سدھرنے کے معنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کار پرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں۔ اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں۔ اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو جس کے لیے جان و مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اگر پیدا ہو جائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے، وہ سو فیصدی وصول ہوں گے اور سو فیصدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صَرف ہوں گے۔ نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہوگی اور نہ ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہوگی۔ اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ رضاکارانہ چندے کی صورت میں اور ایک اچھا خاصا حصہ غیر سودی قرض کی صورت میں اور ایک حصہ منافع میں شرکت کے لیے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہو جائے گی۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر صورت پیش آہی جائے، یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہے اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے، تو مجبوراً دوسروں سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بند کیا جاسکتا ہے اور پورا مالی نظام (financial system) سود کے بغیر چلایا جاسکتا ہے۔ میں اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ بینکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (profit sharing) کے اصول پر چلایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انشورنس کے نظام میں ایسی ترمیمات کی جاسکتی ہیں جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقے اختیار کئے بغیر حاصل ہوسکیں۔ دلالی، منافع پگڑی، کمیشن یا گڈول (good will) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا تو اس کا جائزہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔ یہ کام لامحالہ ماہرین شریعت اور ماہرین مالیات کو مل جل کر کرنا ہوگا۔